دارالحکومت اسلام آباد میں جمعرات کو ایک تیندوے کے رہاشی سوسائٹی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں داخل ہو کر شہریوں کو زخمی کرنے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے
اسلام آباد پولیس کے مطابق تھانہ سہالہ کے علاقے ڈی ایچ اے فیز ٹو میں تیندوے کے شہریوں کو زخمی کرنے کا مقدمہ ایک نامعلوم ملزم کے خلاف درج کیا ہے، جس نے گھر میں تیندوا پال رکھا تھا
پولیس کے مطابق ”ملزم نے خطرناک جانور گھر میں رکھ کر شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے۔ ملزم کی تلاش جاری ہے، جسے جلد گرفتار کرکے قانونی کارروائی کی جائے گی“
دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے پاکستان میں نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق یہ تیندوا ایک سینئر ریٹائرڈ ملٹری افسر کے گھر پر تھا، جو پنجرا توڑ کر باہر نکل گیا تھا
یاد رہے کہ جمعرات کو ڈی ایچ اے فیز ٹو میں ایک تیندوا سڑک پر آ گیا تھا، جس سے مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا تھا
تیندوے کو ریسکیو کرنے کے بعد اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمینٹ بورڈ کی ڈائریکٹر رینا سعید نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جس طرح سے یہ حملہ کر رہا تھا اس سے ایسا معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کوئی جنگلی جانور ہے، ہمیں شبہ ہے کہ یہ پالتو جانور ہے لیکن اس حوالے سے اب تحقیقات کی جائیں گی۔‘
اسلام آباد وائلڈ لائف اور پنجاب وائلڈ لائف نے کئی گھنٹوں تک آپریشن کے بعد تیندوے کو پکڑا جب کہ جانور کو پکڑنے کے دوران تین افراد زخمی بھی ہوئے
غیر سرکاری تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے جمعے کو ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ تیندوا محفوظ مقام پر موجود ہے۔ انہوں نے حکامِ اعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ تیندوے کے رہائشی علاقے میں آنے کے واقعے کی تحقیقات کریں
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق ہم وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کی تیندوں کو پنجروں میں قید کرنے پر پابندی کی گائیڈ لائنز پر عمل درآمد کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
اس واقعے کی سوشل میڈیا پر خوب وڈیوز وائرل ہوئیں، جس میں رہائشی سوسائٹی میں تیندوے کے گھومنے کے پریشان کن مناظر دیکھے جا سکتے ہیں
سعد کیسر نے ڈی ایچ اے انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تیندوا صبح سے سڑکوں پر گھوم رہا تھا اور اسے پکڑنے کے لیے بروقت کوئی بھی وائلڈ لائف کا اہلکار موجود نہیں تھا، جبکہ گارڈز اس نایاب نسل کے جانور پر گولی چلا رہے تھے
ایک صارف نے لکھا ”ہمیں ان نایاب نسل کے جانوروں کو گھروں میں قید رکھنے سے متعلق سنجیدہ قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے“
صوفیا نامی صارف نے شہریوں سے اپیل کی کہ خدارا وہی جانور گھروں میں پالیں, جو گھروں میں رہ سکتے ہیں
طیب سیف کہتے ہیں ”تیندوا کسی جنرل کا پالتو اور مقدمہ نامعلوم شخص پر!“
پاکستان میں شیر، چیتے اور تیندوے کو بطور پالتو جانور رکھنے پر کیا سزا ہو سکتی ہے؟
ملک کے اکثر شہروں میں پالتو جانور رکھنے کے شوقین افراد نے شیر، چیتے اور تیندوؤں کو بطور پالتو جانور رکھا ہوا ہے اور وہ اکثر عوامی مقامات یا نجی گاڑیوں میں ان کی نمائش کرتے نظر آتے ہیں
تاہم پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے محکمۂ جنگلی حیات کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ملک میں ایسے کتنے جانوروں کو پالتو حیثیت سے رکھا گیا ہے
پاکستان اس وقت جنگلی حیات بالخصوص بلی کی نسل سے تعلق رکھنے والے بڑے جانوروں جیسے کہ چیتوں، شیروں، تیندوؤں اور پوما جیسے جانوروں کی بڑی مارکیٹ بن چکا ہے
بین الاقوامی ادارے کنزویشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ سپیشیز آف وائلڈ فانا اینڈ فلورا (ساآئیٹز) کے مطابق پاکستان میں 2013ع سے لے کر 2018ع تک مختلف انواع کے پچاسی شیر، چیتے، ببر شیر وغیرہ درآمد کیے گئے جبکہ ان کے علاوہ پندرہ جانور ٹرافی ہنٹنگ کی صورت میں پاکستان آئے ہیں
گذشتہ روز اسلام آباد کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ملک میں بڑی بلیوں یا جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے قواعد و ضوابط کے متعلق ایک بحث نے جنم لیا ہے
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بڑی بلیوں یا جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے قواعد و ضوابط کیا ہیں اور ان پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے؟
اس حوالے سے اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے ایک اہلکار کے مطابق پاکستان میں جنگلی حیات کے 1997 کے آرڈینینس کے تحت مقامی طور پر پائے جانے والے تیندوے یا کسی بھی جانور کو کسی صورت پالتو نہیں رکھا جا سکتا
ان کا کہنا تھا ”جیسا تیندوا کل گھروں میں گھسا، اس کو کسی بھی فارم میں بھی رکھنے کی اجازت نہیں۔ اس حوالے سے قوانین بڑے واضح ہیں۔ اگر اس کو پکڑا جائے گا، کہیں بھی جنگل، قدرتی نظام کے علاوہ رکھا جائے گا تو یہ غیر قانونی ہوگا“
اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کی اہلکار ڈاکٹر امِ حبیبہ کا کہنا ہے کہ وائلڈ لائف آرڈینینس کے تحت اس طرح کے جانوروں کو رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے جس میں وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے مجسٹریٹ انھیں قید اور بھاری جرمانے کی سزا بھی سنا سکتے ہیں
ان کے گھر، کار یا دیگر جگہوں کی بنا وارنٹ تلاشی بھی لی جا سکتی ہے جبکہ جرم ثابت ہونے پر کم از کم چھ ماہ سے ایک سال تک کی قید اور ہزاروں روپے کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے
جنگلی حیات کے ماہر اور اریڈ یونیورسٹی راولپنڈی میں جنگلی حیات کے سنیئر رچرچ فیلو مطیب کہتے ہیں کہ پاکستان میں مقامی جنگلی جانوروں کو پالتو رکھنا غیر قانونی ہے اور جنگلی حیات کے آرڈینینس کے تحت وائلڈ لائف مجسٹریٹ غیر قانومی معاملات میں کیس کی نوعیت کے مطابق سزا کا تعین اور اسے مزید سخت کر سکتے ہیں ’جرمانے کی مد میں لاکھوں روپے جبکہ ایک سال سے زیادہ ناقابل ضمانت سزا ہو سکتی ہے۔‘
یاد رہے کہ تیندوا پاکستان کا مقامی اور محفوظ قرار دیا گیا جانور ہے۔ پنجاب وائلڈ لائف ایکٹ کے علاوہ باقی صوبوں میں بھی اس کو شیڈول تھری میں رکھا گیا ہے، جس کی رو سے اس کا شکار کرنا، پالنا اور خرید و فروخت مکمل طور پر ممنوع ہے
اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ملک میں مقامی جانوروں یا بڑی بلیوں کو پالتو رکھنے کے قواعد و ضوابط موجود ہیں جو ملک میں نایاب ہیں یا جو یہاں سے تعلق نہیں رکھتے، جیسا کے شیر، بنگال ٹائیگر، چیتا وغیرہ
وائلڈ لائف اہلکار کے مطابق ان کی درآمد اور انہیں بطور پالتو جانور رکھنے کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور جگہ کے قواعد بھی موجود ہیں۔ جن میں ان جانوروں کو رکھنے کی مناسب، قدرتی ماحول سے قریب تر کھلی جگہ، تحفظ اور خوراک کا مناسب بندوبست سمیت دوسرے انسانوں کے تحفظ اور دیگر باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے
’جنگلی حیات بشمول شیر اور چیتوں کو باہر سے منگوانے کے لیے سب سے پہلے وفاقی وزارت ماحولیات سے اجازت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ماہرین اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا اجازت حاصل کرنے کے خواہمشند فرد کے پاس مطلوبہ سہولتیں موجود ہیں یا نہیں جس کے بعد یہ معاملہ وفاقی وزارت داخلہ کے پاس جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ، وزارتِ ماحولیات کی سفارشات کی روشنی میں اپنی سفارشات تیار کر کے ’سائیٹز‘ کے مقامی افسران کو دیتی ہے جو ان سفارشات کی روشنی میں جانور کی درآمد کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں
البتہ پنجاب اور سندھ وائلڈ لائف کے ذرائع کے مطابق قوانین اس بارے میں خاموش ہیں کہ ان جانوروں کو پالتو کے طور پر کن اصول و ضوابط کے تحت رکھا جا سکتا ہے
پاکستان بھر میں اس وقت لائسنس شدہ جنگلی حیات کے رجسٹرڈ اور قانونی فارمز کی تعداد دو سو چالیس سے زائد ہے
صوبہ پنجاب کے محکمۂ جنگلی حیات کے مطابق پاکستان بھر میں ایسے سب سے زیادہ فارم پنجاب میں ہیں جن کی تعداد دو سو ہے۔ سندھ میں ایسے فارمز کی تعداد پینتیس جبکہ صوبہ خیبر پختوںخوا میں ایسے آٹھ فارموں کا اندراج ہے
پنجاب اور سندھ میں وائلڈ لائف قوانین کے مطابق بریڈنگ فارمز کی اجازت زیرور گیم فارم، سفاری پارک کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ جہاں پر ان بریڈنگ فارم کے مالک جنگلی حیات کی بریڈنگ، خرید و فروخت، شکار اور تبادلہ وغیرہ بھی کر سکتے ہیں
بین الاقوامی طور پر جنگلی حیات کے کاروبار پر پابندی ہے مگر خطے کے شکار جنگلی حیات کی نسلوں کو تحفظ دینے اور مختلف ممالک میں ان کی بریڈنگ کے لیے ’سائیٹز‘ مقامی حکومتوں کی مشاورت سے ان کی درآمد اور برآمد کی اجازت دیتی ہے۔