تاریک مستقبل کا حال بتانے والے مرغ کی کہانی

عدنان خان کاکڑ

بہت پرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک بڑھیا ایک گاؤں میں رہتی تھی۔ اس نے گزر بسر کے لیے چند مویشی اور مرغیاں پال رکھے تھے۔ اس نے اپنے باڑے کے گرد ایک باڑ لگا رکھی تھی۔ اس کے پاس ایک چانٹی کلیر نامی مرغا تھا جو اپنی سات بیگمات کے ساتھ شاہانہ زندگی بسر کیا کرتا۔

پورے ملک میں ایسا کوئی دوسرا مرغا نہیں تھا جو چانٹی کلیر سے بلند بانگ دیتا ہو۔ اس کی آواز سریلے سازوں سے بھی زیادہ مسحور کن تھی۔ اس کی بانگ کی ٹائمنگ گاؤں کے گھڑیال سے بھی بہتر تھی۔ خدا نے اسے کچھ ایسی حس دی تھی کہ وہ سورج کی حرکیات کا بہت خوبی سے اندازہ لگا لیتا اور صبح ہوتے ہی درست سمے پر بلند آہنگ بانگیں دینا شروع کر دیتا۔

اس کی کلغی یاقوت سے زیادہ سرخ تھی۔ اس کی ٹانگیں اور پنجے نیلگوں تھے، اس کے ناخن دودھ سے زیادہ سفید تھے اور اس کے پر سونے جیسے سنہرے تھے۔ مختصر یہ کہ وہ بے حد و حساب ہینڈسم تھا۔

چانٹی کلیر کی تمام بیگمات ہی حسن و جمال میں ایک سے بڑھ کر ایک تھی، مگر ان میں سب سے زیادہ حسین پرٹی لوپ تھی جو چانٹی کلیر کی محبوب ترین بیگم تھی۔ وہ اس کی بچپن کی محبت تھی۔ چانٹی کلیر اس وقت سے اس پر فدا تھا جب پرٹی لوپ کو انڈے سے نکلے محض سات دن ہوئے تھے۔

ایک صبح چانٹی کلیر اپنے ڈربے میں موجود ڈالی پر بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ وہ خوفزدہ آوازیں نکالتے ہوئے کراہنے لگا۔ پرٹی لوپ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ چوکنی ہو کر بولی ”میرے محبوب، تمہیں کیا تکلیف ستا رہی ہے؟ تم اس طرح کیوں رو پیٹ رہے ہو؟ تم نیند میں ہو، خدا کے لیے جاگ جاؤ“ ۔

چانٹی کلیر نے بالآخر اپنی آنکھیں کھولیں اور بولا ”میری محبوب، پریشان مت ہو۔ میں نے ایک بہت خوفناک خواب دیکھا ہے۔ میرا دل ابھی تک دھک دھک کر رہا ہے۔ کاش میرا خواب سچا نہ نکلے۔“

مجھے بتاؤ تم نے کیا دیکھا، پرٹی لوپ بے قرار ہو کر بولی۔

”میں نے دیکھا کہ میں باڑے میں چل پھر رہا تھا تو اچانک کتے جیسی شکل کا ایک وحشی درندہ نمودار ہوا۔ اس کا رنگ شوخ بھورا تھا لیکن اس کی دم اور کان کالے تھے۔ اس کی ایک بھیانک لمبی سی تھوتھنی تھی اور اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند دہکتی تھیں۔ وہ مجھے اپنے جبڑوں میں دبا کر نگلنے والا تھا۔ میں اس سے بہت زیادہ سہم گیا۔ شاید اسی وجہ سے میں کراہتے ہوئے خوفزدہ آوازیں نکال رہا تھا“ ۔

پرٹی لوپ نے غصے سے کہا ”شیم آن یو چانٹی کلیر۔ تمہاری بہادری کو کیا ہوا؟ تم میری محبت اور اعتبار کھو بیٹھے ہو۔ میں ایک بزدل سے محبت کرنے کا جرم نہیں کر سکتی۔ عورت کسی ایسے مرد سے کیسے شادی کر سکتی ہے جو ایسا بے وقوف اور بزدل ہو کہ اپنے سائے سے بھی اسے ڈر لگے اور ہو وہ نرا شیخی باز۔ تم خوابوں سے کیوں خوفزدہ ہو؟ ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ وہ بدہضمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ تمہیں تبخیر معدہ نے پریشان کر رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں خونریزی اور درندوں کے خواب آتے ہیں۔ جب تم نیچے اترو تو جلاب لے لینا۔ اس سے تمہیں افاقہ ہو گا اور مفسد مواد کے ساتھ ہی برے خواب بھی تمہارے سسٹم سے نکل جائیں گے۔ میں تمہیں نہایت کارگر جڑی بوٹیاں ڈھونڈ کر دیتی ہوں“

چانٹی کلیر نے اداس انداز میں گردن اٹھائی اور بولا ”دانا کہتے ہیں کہ کچھ خواب سچے بھی ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ دو دوست زیارت پر گئے۔ ہوا یوں کہ ان میں سے ایک کو تو سرائے میں سونے کی جگہ مل گئی لیکن دوسرے کو مویشیوں کے باڑے میں گائے بھینسوں کے درمیان سونا پڑا۔ سرائے میں سونے والے نے خواب دیکھا کہ اس کا دوست اسے پکار رہا ہے کہ میں باڑے میں ہوں اور آج رات قتل کر دیا جاؤں گا۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے میری مدد کرو۔ سرائے والا خوفزدہ ہو کر جاگ گیا مگر پھر یہ سوچ کر سو گیا کہ یہ تو محض ایک خواب تھا۔ دوسری مرتبہ خواب میں وہی دیکھا۔ پھر تیسری مرتبہ اس نے خواب میں دیکھا کہ اس کا دوست کہہ رہا ہے کہ اسے قتل کیا جا چکا ہے، اور اگر وہ صبح سویرے شہر کے مغربی دروازے پر پہنچ جائے تو گوبر سے بھرے ریڑھے کے نیچے اس کی لاش مل جائے گی۔ ریڑھی بان اس کا قاتل ہے جس نے اسے لوٹنے کے لیے قتل کیا ہے۔ واقعی یہ خواب سچ نکلا“ ۔ چانٹی کلیر نے ایسے ہی کئی مزید سچے خواب سنائے۔

چانٹی کلیر اپنی ڈالی سے کودا اور باہر احاطے میں جا کر بانگیں دے کر اس نے اپنی بیگمات کو جگایا اور انہیں ناشتہ کروانے باہر احاطے میں لے گیا۔ موسم خوشگوار تھا۔ میٹھی میٹھی دھوپ میں مزے سے دانہ دنکا چگنے کے بعد اس نے پرٹی لوپ سے محبت کے تقاضے کوئی بیس مرتبہ نبھائے۔ وہ حد نظر تک دکھائی دینے والے منظر کا بادشاہ تھا۔

قریب ہی سیاہ سر والا ایک چالاک لومڑ چھپا ہوا تھا۔ وہ قریبی جنگل میں رہتا تھا، اور گزشتہ شب باڑ میں نقب لگا کر احاطے میں گھات لگا کر بیٹھ گیا تھا۔ اس کی نظریں احاطے کے موٹے تازے بادشاہ چانٹی کلیر پر جمی ہوئی تھیں۔ مرغیاں دانہ چگ رہی تھیں، چانٹی کلیر محویت سے ایک خوبصورت تتلی کو تک رہا تھا، کہ اچانک اس کی نگاہ جھاڑیوں میں چھپے لومڑ پر پڑیں۔

چانٹی کلیر کو جبلی طور پر اندازہ ہو گیا کہ یہ عجیب جانور اس کا جانی دشمن ہے۔ اس کے حلق سے خوفزدہ آوازیں نکلیں۔ وہ بھاگنے کی تیاری پکڑ رہا تھا کہ لومڑ نہایت میٹھی آواز میں بولا ”عزت مآب، آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے اس مداح سے ڈر لگ رہا ہے؟ میں تو یہاں محض اس نیت سے بیٹھا ہوں کہ آپ کے سریلے نغمات سے لطف اندوز ہو سکوں۔ بخدا آپ نے کیا سحر انگیز آواز پائی ہے۔ آپ کے سامنے تو تان سین بھی پانی بھرتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب آپ کے محترم والد اور والدہ میرے گھر مہمان بنے تھے۔ آپ کے والد جیسی سریلی بانگ میں نے زندگی بھر نہیں سنی تھی۔ وہ تن من کا زور لگا کر بانگ دیا کرتے تھے۔ وہ اپنی آواز کو بہتر کرنے کے لیے اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوتے، اپنا سر اونچا کرتے اور گردن کو تاحد امکان لمبا کرتے، آنکھیں بند کرتے اور ایسی بانگ دیتے کہ دنیا کا کوئی پرندہ ان کا مقابلہ نہ کر پاتا۔ کیا آپ میری خاطر بانگ دیں گے؟ کیا آپ یہ ثابت کریں گے کہ آپ اپنے والد کے سچے جانشین ہیں؟

چانٹی کلیر خوشامد سے پھول کر کپا ہو گیا۔ سامنے اسے اب دشمن کی بجائے ایک مداح دکھائی دے رہا تھا جو اس کے فن کی داد دینے کو بے قرار تھا۔ چانٹی کلیر نے اپنے پر پھڑپھڑائے، اپنے پنجوں کے بل کھڑا ہوا، سر بے حد اونچا اٹھایا اور آنکھیں بند کر کے تان لگائی۔

لومڑ تاک میں بیٹھا تھا۔ فوراً جھپٹا اور چانٹی کلیر کو گردن سے دبوچ کر جنگل کی طرف دوڑا۔ کاش چانٹی کلیر اپنی ڈالی سے نیچے نہ اترتا، کاش پرٹی لوپ اس کے خواب کو سنجیدگی سے لیتی، مگر تقدیر کے لکھے کو بھلا کون ٹال سکتا ہے؟

اپنے محبوب شوہر چانٹی کلیر کو یوں لومڑ کا شکار بنتا دیکھ کر اس کی بیگمات نے آہ و زاری شروع کر دی۔ وہ چیخی چلائیں۔ ایسا غل مچایا کہ زمین آسمان ایک کر دیا۔

بڑھیا اور اس کی بیٹیوں نے شور سنا تو وہ باہر بھاگیں۔ وہ بس یہ دیکھ پائیں کہ دور ایک لومڑ ان کے مرغ چانٹی کلیر کو دبوچے لے جا رہا ہے۔ وہ چلانے لگیں ”لٹ گئے، برباد ہو گئے، لومڑ آ گیا“ ۔ وہ لومڑ کی طرف بھاگیں اور ان کا شور سن کر پیچھے پیچھے دیہاتی بھی بھاگے۔ ان کے ساتھ ان کے کتے بھی تھے۔ شور سن کر ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ بھیڑ بکریاں بطخیں گائیں وغیرہ سب خوفزدہ ہو کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔

لیکن جب قسمت کی دیوی کسی کا ساتھ دینے پر اتر آئے تو دشمن اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ لومڑ کے جبڑوں میں دبے چانٹی کلیر کو کچھ ہوش آیا تو وہ لرزتی آواز میں بولا ”اے بہادر شخص، اگر تیری جگہ میں ہوتا تو میں اپنا پیچھا کرنے والوں کی طرف مڑتا اور ان نامرادوں کا منہ چڑاتا۔ انہیں للکارتا کہ تم مجھے نہیں پکڑ سکتے، تم واپس پلٹ جاؤ کیونکہ مجھ جیسے برق رفتار کو پکڑنا تمہارے کے لیے ممکن نہیں۔ میں جنگل کی حد تک پہنچ چکا ہوں اور کسی قیمت پر مرغ کو نہیں چھوڑوں گا۔ اگر تم ناکام ہو کر بے عزت نہیں ہونا چاہتے تو واپس پلٹ جاؤ۔ اے معزز لومڑ، کیا آپ بزدل ہیں جو ان کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں؟ یوں چوروں کی طرح بھاگ کر آپ کی کیا عزت رہ جائے گی؟ کیا آپ کو اپنی بہادری اور شہ زوری میں کوئی شبہ ہے؟“

یہ سن کر لومڑ کو بہت شرمندگی ہوئی۔ وہ کہنے لگا ”تم درست کہہ رہے ہو، یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے“ ۔

جیسے ہی اس نے یہ بات کہنے کے لیے اپنا منہ کھولا، چانٹی کلیر اس کے جبڑوں کی گرفت کمزور پا کر یکلخت پوری قوت سے پھڑپھڑایا اور آزاد ہو کر قریبی درخت پر جا بیٹھا۔

اب لومڑ پچھتایا، کہنے لگا ”افسوس صد افسوس، اے مرغ۔ مجھے شرمندگی ہے کہ میں نے تم پر غلط تاثر چھوڑا۔ جب میں تمہیں احاطے سے جھپٹ کر دوڑا تو میں نے تمہیں خوفزدہ کر دیا ہو گا۔ لیکن میری نیت نیک تھی۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ درخت سے نیچے اتر کر میرے پاس آؤ، میں صرف سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا“ ۔

چانٹی کلیر بولا ”تم مذاق کر رہے ہو۔ میں ایک مرتبہ بے وقوف بن چکا ہوں اور دوبارہ نہیں بنوں گا۔ اب تمہاری خوشامد مجھ پر اثر نہیں کرے گی۔ میں اب اپنی آنکھیں بند کر کے تمہارے لیے نہیں گاؤں گا۔ اپنی آنکھیں بند کرنے والا نقصان اٹھاتا ہے۔ میں نے اپنا سبق سیکھ لیا ہے“

لومڑ کہنے لگا ”ایک سبق اور بھی ہے۔ جو لوگ غلط وقت پر اپنا بھاڑ سا منہ کھول لیتے ہیں، وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ یہ سبق میں نے سیکھا ہے“
(جیفری چاسر کی ایک کتھا کی تلخیص و تحریف)
بشکریہ: ہم سب

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close