ریاست اور تشدد

ڈاکٹر مبارک علی

جب ریاست تشدد پر اپنا تسلط قائم کرتی ہے تو اس مقصد کے لیے وہ اپنے اداروں کو استعمال کرتی ہے۔ جیسے فوج، پولیس، جاسوسی ادارے اور سرکاری عہدیدار۔ وہ اس کا بھی خیال کرتی ہے کہ ذاتی لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ آپس میں تشدد کی بجائے عدالتوں میں ہو اور عدالتی فیصلے کا نفاذ ریاست کرے۔ فسادات اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں ریاست پولیس کے ذریعے ان پر قابو پاتی ہے اور اپنا تسلط قائم کرتی ہے

جیسا کہ ماہر نفسیات نے کہا کہ بنیادی طور پر انسان کے جذبات جارحانہ ہوتے ہیں اور وہ جذبات سے مغلوب ہو کر غصے کے دباؤ کی وجہ سے تشدد پر آمادہ ہو جاتا ہے اس لیے ان جذبات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ فرد کو سیاسی اور سماجی شعور کے ذریعے روکا جائے تاکہ وہ ذہنی طور پر جذباتی فیصلے نہ کر پائے اور عقل کی روشنی میں حالات کو سمجھے

لہٰذا اس مقصد کے لیے ریاست کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعے سوسائٹی میں امن اور صلح کے جذبات پیدا کرے۔ اس عمل کو تہذیب کا حصہ بھی کہا جاتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ادب، آرٹ، موسیقی اور مجسمہ تراشی کے مواقع لوگوں کو میسر آئیں تاکہ فنون لطیفہ کے ذریعے ان میں جمالیاتی احساس پیدا ہو، خاص طور سے تعلیم اور میڈیا کے ذریعے روزمرہ کی زبان کو سخت اور کھردرے الفاظ سے پاک و صاف کیا جائے تاکہ زبان میں نفاست اور شگفتگی کے ساتھ بات چیت ہو سکے۔ تشدد کو روکنے کے لیے ادب آداب کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ محفلوں میں نشست و برخاست کا سلیقہ ہونا چاہیے۔ خاص طور سے دعوتوں میں کھانے پر نہیں ٹوٹ پڑنا چاہیے بلکہ سلیقے سے کھانا کھانا چاہیے کیونکہ کھانے کے اس عمل سے سوسائٹی کے کلچر کا اندازہ ہوتا ہے

تشدد کو روکنے کے لیے سپورٹس کی بھی بڑی اہمیت ہے کیونکہ کھیل فرد کی توانائی کو ظاہر کرتے ہیں اگر یہ توانائی باہمی کھیلوں کے مقابلوں میں ہو تو اس سے فرد جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند رہتا ہے۔ ذہنی تربیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ علمی اور ادبی بحث و مباحث ہوں اور لوگوں کو یہ تربیت دی جائے کہ بحث میں جذباتی ہونے کی بجائے دلیل اور عقل سے کام لیتے ہوئے اپنے موضوع پر بحث کریں کیونکہ جذبات بحث و مباحثے کو لڑائی کے اکھاڑے میں تبدیل کر دیتے ہیں

اگر ریاست کمزور ہو اور تشدد پر اس کی گرفت نہ رہے تو اس صورت میں معاشرے میں گروہ، جماعتیں اور افراد اپنے مسائل کا حل تشدد میں دیکھتے ہیں۔ اس صورت میں اسلحے پر ریاست کا کنٹرول نہیں رہتا اور جگہ جگہ گروہ اور جتھے اسلحے کو آزادی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اس صورت میں جرائم اور ڈاکہ زنی بھی ہوتی ہے۔ انتقام بھی لیا جاتا ہے، سیاسی اور مذہبی فسادات بھی ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں قتل و غارت گری کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ ریاستی ادارے بھی بذات خود قانون سے آزاد ہو کر تشدد کے ذریعے اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہیں۔ جیسے پولیس لوگوں کو پکڑ کر تھانوں میں بند کرتی ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے یہاں تک کہ کچھ افراد تو جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ خفیہ ادارے اور ایجنسیاں قانون سے بالاتر ہو کر لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور غائب کر دیتے ہیں عدالتوں میں جب انصاف نہیں ملتا ہے تو پارٹیاں خود تشدد کے ذریعے اپنا فیصلہ کر لیتی ہیں

اس کی ایک مثال امریکہ کی ہے جہاں اسلحے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ہر امریکی کا یہ حق ہے کہ وہ اسلحہ رکھے۔ اس وجہ سے وہاں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ جب کوئی فرد سکول میں یا پبلک میں لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ نشے کے عادی لوگ بھی اسلحے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ امریکی ریاست کے ادارے بھی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں

سب سے بڑھ کر یہ کہ جب ریاست کا تشدد پر تسلط نہیں رہتا ہے تو مختلف قسم کی مافیائیں وجود میں آجاتی ہیں۔ مافیا کی ابتداء ویسے تو اطالوی شہر سسلی سے ہوئی تھی لیکن اب جہاں بھی ریاست کمزور ہوتی ہے تو مافیا طاقتور ہو جاتی ہے۔ جنوبی امریکہ کی ریاست کولمبیا میں ڈرگ مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ وہاں عدالتوں کے جج بھی ان کا مقدمہ نہیں سنتے، کیونکہ اس مافیا نے کئی ججوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہی صورت حال ان بہت سے ملکوں میں ہے جہاں ریاست کا تشدد پر اختیار نہیں رہا ہے

انگریزی دور حکومت میں انگریزوں نے برصغیر میں اسلحہ پر سخت پابندی لگائی تھی اور بغیر لائسنس کے اسلحہ رکھنا جرم تھا۔ اس وجہ سے یہاں جلسے جلوسوں اور مظاہروں میں نہ تو اسلحہ کی نمائش کی گئی اور نہ اسے استعمال کیا گیا

لیکن آزادی کے بعد صورت حال بدل گئی۔ خاص طور سے پاکستان میں ریاست کے کمزور ہونے کے بعد اب تشدد کا استعمال معاشرے میں عام ہو گیا ہے۔ شہر شہر اور محلوں میں ہتھیار بند مافیا کے لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا کرتے رہتے ہیں ان میں سے اکثر ڈرگ مافیا والے ہوتے ہیں اور کچھ قبضہ گروپ، جو پلاٹوں اور مکانوں پر زبردستی قبضہ کر کے ان کے مالک بن جاتے ہیں

پاکستان میں ہر قسم کا اسلحہ آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔ خاص طور سے قبائلی علاقوں میں اسلحہ تیار ہو کر پاکستان کے کونے کونے میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کا استعمال فرقہ وارانہ فسادات سے لے کر شادی بیاہ تک کی محفلوں میں ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کئی جانیں چلی جاتی ہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ اس تشدد کے پھیلاؤ کو کیسے روکا جائے، کیونکہ اگر امن و امان نہیں رہے گا تو اس کا اثر سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی پر ہو گا۔ اگر تشدد کے عام ہونے کی وجہ سے لوگوں میں موت کا خوف اور ڈر ہو گا تو روز مرہ کی زندگی کے معمولات میں فرق آجائے گا۔ اس لیے مفکرین کا خیال ہے کہ تشدد کے عمل کو تہذیب کی ترقی کے ساتھ روکا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ریاست مضبوط ہو اور قانوناً کسی بھی گروہ یا فرد کو یہ اجازت نہ ہو کہ وہ اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے ریاست کو نظرانداز کر کے اپنا اثر و رسوخ تشدد کے ذریعے مسلط کرے

ریاست کی کمزوری اور تشدد کے پھیلاؤ میں ہمارے سامنے کئی ملکوں کی مثالیں ہیں۔ مثلاً صومالیہ، سوڈان، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں ریاست کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور فیصلے جرگوں کے ذریعے یا قبائل کے سرداروں کے ذریعے طے پاتے ہیں۔ سزائیں بھی انہی کی جانب سے دی جاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں سرداروں کے اپنے نجی جیل خانے بھی ہوتے ہیں جہاں وہ اپنے مخالفوں کو قید کرتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تشدد پر پنچایتوں کا قبضہ ہوتا ہے۔ مختلف سزاؤں کے ساتھ ساتھ یہ عورتوں کے گینگ ریپ کا بھی فیصلہ کرتی ہیں اور اپنے فیصلوں کو زبردستی لوگوں پر مسلط کرتی ہیں

اس کے برعکس یورپ کے ملکوں میں ریاست کو تشدد پر پورا اختیار ہوتا ہے اور سوسائٹی میں اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی سزا بھی ریاست کی جانب سے دی جاتی ہے۔ یورپ میں ریاست کے تشدد کو اس کے ادارے تحفظ دیتے ہیں اس لیے ان کے معاشرے میں تشدد کے ذریعے موت کا خوف نہیں رہتا ہے

پاکستان اور ہندوستان میں مذہبی جماعتیں تشدد کو اپنے نظریے کے حق میں استعمال کرتی ہیں، چونکہ مذہبی جماعتوں کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ وہ راہ راست پر ہیں اور دوسرے گمراہ ہیں اس لیے مذہبی فسادات کے نتیجے میں قتل و غارت گری کرتے وقت نہ جرم کا احساس ہوتا ہے اور نہ گناہ کا

تیسری دنیا کہ ملکوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہ ابھی تک لسانی، نسلی اور علاقائی طور پر بٹے ہوئے ہیں، ایک قوم نہیں ہیں، اس لیے جب ان ملکوں میں ذرائع کی کمی ہوتی ہے تو اس کے حصول کے لیے ان گروہوں میں جھگڑے اور فسادات ہوتے ہیں اور ہر گروہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ طاقت اور تشدد کے ذریعے اپنی برتری کو قائم رکھے

ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جن ملکوں میں مذہبی اور لسانی اقلیتیں ہیں وہاں اکثریت اپنی برتری کے لیے ان پر تشدد کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ اقلیتیں اپنے جان و مال کے ڈر سے خوف کی حالت میں رہتی ہیں

لہٰذا تشدد کو معاشرے میں روکنے کے لیے ریاست کا قومی ہونا بھی ضروری ہے جو تمام طبقوں، فرقوں اور جماعتوں کو تحفظ دے اور ان میں ایک قوم ہونے کا احساس پیدا کرے

اس لیے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ یہ قومی ریاست ہو اور تشدد پر اس کا مکمل قبضہ ہو۔ اسی صورت میں ملک میں امن و امان رہ سکتا ہے اور لوگوں کو تشدد کی صورت میں موت کے خوف سے نجات مل سکتی ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close