بارکھان واقعہ: خان محمد مری کے اہل خانہ بازیاب، کھیتران گرفتار

ویب ڈیسک

لیویز ذرائع نے جمعرات کو بتایا کہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں کارروائی کے دوران خان محمد مری کے اہلِ خانہ بازیاب ہو چکے ہیں، جبکہ ترجمان بلوچستان پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ بارکھان میں تین افراد کے قتل کے شبے میں صوبائی وزیر سردارعبدالرحمٰن کھیتران کو حراست میں لے لیا گیا ہے

یاد رہے چند روز قبل بارکھان میں ایک کنویں سے ایک نامعلوم خاتون اور دو مَردوں کی لاشیں ملنے کے واقعے کا الزام صوبائی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بعپ) کے ترجمان سردار عبد الرحمٰن کھیتران پر لگا تھا، جس کے بعد صوبائی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کی ہدایت کی تھی

خان محمد مری کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ سردار عبد الرحمٰن کھیتران کے پاس ملازم تھے، تاہم اس معاملے میں حتمی طور پر معلومات نہیں ہیں

ادہر لیویز ذرائع کا کہنا تھا کہ ضلع دکی کے علاقے نانا صاحب میں بدھ کو کی گئی کارروائیوں کے دوران خان محمد مری کا ایک بیٹا بازیاب کیا گیا جبکہ ڈیرہ بگٹی اور بارکھان بارڈر سے دو بیٹے بازیاب ہوئے ہیں

اس سے قبل ان کے خاندان کے تین افراد جن میں اہلیہ گراں ناز، بیٹی اور ایک بیٹا شامل ہیں، کو بھی دکی بارکھان بارڈر سے بازیاب کروایا گیا تھا

لیویز ذرائع کے مطابق خان محمد مری کے خاندان کے چھ افراد سرکار کی حفاظتی تحویل میں ہیں

سرکاری حکام کے مطابق خان محمد مری کی اہلیہ گراں ناز اور ان کے بچوں کو میڈیا کے سامنے لا کر تمام تفصیلات دی جائیں گی

دوسری جانب بارکھان میں تین افراد کے قتل کا مقدمہ سرکارکی مدعیت میں بدھ کو نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا، جبکہ دوسری جانب لاشوں کے ہمراہ مری اتحاد کا دھرنا کوئٹہ کے ریڈ زون کے قریب جاری رہا

ایس ایچ او بارکھان کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیے گئے مقدمے میں قتل اوراقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں

سردار عبدالرحمٰن کی گرفتاری پر دھرنے میں شامل مری اتحاد کے رہنما جہانگیر نے رد عمل دیتے ہوئے کہا: ’اس گرفتاری کو ہم نہیں مانتے ہیں، کیوں کہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف ہے، تو ان کے خلاف کارروائی کیسے ہوسکتی ہے۔‘

دوسری جانب مری اتحاد کے چیئرمین جہانگیر مری نے بھی ایک ویڈیو میں اس بات کی وضاحت کی کہ ’سردارعبدالرحمٰن کھیتران کی گرفتاری کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں،‘ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے انہیں ’تحفظ دینے کے لیے‘ حراست میں لیا ہے

کنویں سے برآمد ہونے والی خاتون کی لاش کا پوسٹ مارٹم سول ہسپتال کوئٹہ میں پولیس سرجن عائشہ فیض نے کیا، جنہوں نے میڈیا کے نمائندوں کوبتایا کہ جولاش لائی گئی ہے، وہ سترہ سے اٹھارہ سال کی لڑکی کی ہے

پولیس سرجن عائشہ فیض نے بتایا ’لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کیا گیا۔ یہ کسی بڑی عمر کی عورت کی لاش نہیں ہے۔ اسے تین گولیاں سر میں ماری گئی تھیں، پھراس پرتیزاب ڈالا گیا تھا۔‘

ان کے مطابق: ’دوسری لاش کے سر میں پیچھے سے گولی ماری گئی تھی اور گولی ابھی تک جبڑے میں پھنسی ہوئی تھی، جسم پر تشدد کے نشانات ہیں اورموت کی وجہ گولی ہے۔ تیسری لاش کی بھی پوسٹ مارٹم مکمل کرلی گئی ہے۔‘

اس سے قبل بارکھان سے ملنے والی خاتون کی لاش کے بارے میں قیاس کیا جارہا تھا کہ وہ خان محمد مری کی اہلیہ کی لاش ہے

دوسری جانب ترجمان بلوچستان پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ بارکھان میں تین افراد کے قتل کے شبے میں سردارعبدالرحمٰن کھیتران کو حراست میں لے لیا گیا ہے

بیان میں مزید بتایا گیا کہ سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے صوبائی وزیر سے تحقیقات شروع کردی ہیں اور قتل کے واقعے میں مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں

دوسری جانب بلوچستان پولیس نے بارکھان واقعے کا کیس کرائمز برانچ کو منتقل کردیا ہے اور کمانڈنٹ بلوچستان کانسٹیبلری سلمان چوہدری کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، ڈی آئی جی کوئٹہ، ڈی آئی جی سپیشنل برانچ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ بھی ٹیم میں شامل ہیں

دوسری جانب بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل کا جرگہ بدھ کو خان آف قلات کے بھائی پرنس آغا عمر احمد زئی کے گھر پر ہوا، جس میں مری اتحاد کے چیئرمین جہانگیرمری سمیت ڈیڑھ سو کے قریب قبائلی نمائندوں اور سرداروں نے شرکت کی

جرگے میں شریک افراد نے بارکھان واقعے کی مذمت اور ایک مشترکہ لائحہ عمل پر زور دیا۔ جرگے کے مطابق: ’اس کے بعد سرداروں کی کمیٹی بھی بنائی جائے گی اور اس کے بعد مزید سخت قدم اٹھائے جائیں گے۔‘

بارکھان واقعے کے خلاف کوہلو، بارکھان، تربت اور حب سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مظاہرے کیے گئے اور کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے مطالبات کی منظوری کا مطالبہ کیا گیا

یاد رہے کہ 18 جنوری 2023 کو دکی کے رہائشی خان محمد مری نے حکام بالا کو درخواست دی تھی کہ ان کی بیوی اور بچے مبینہ طور پر سردارعبدالرحمٰن کھیتران کی نجی جیل میں قید ہیں

بلوچستان پولیس کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا کہ 20 فروری کو بارکھان پولیس تھانہ کو اطلاع ملی کہ سوئم ایریا، جو پولیس تھانہ سے سات کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے، کے ایک کنویں میں تین لاشیں پڑی ہیں

بیان کے مطابق: ’ایس ایچ او بارکھان نے ایس ڈی پی او رکھنی پولیس پارٹی کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچ کرلاشوں کو کنویں سے نکالا، جن میں سے ایک خاتون اور دو مردوں کی تھیں۔‘

پولیس کے مطابق: ’لاشوں کو سول ہسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں پر قیوم مری نے لاشوں کی شناخت گراں ناز زوجہ خان محمد مری، محمد نواز مری ولد خان محمد مری اور عبدالقادر ولد خان محمد مری کے نام سے کی، قانونی کارروائی کے بعد لاشیں قیوم مری کے حوالے کر دی گئی ہیں۔‘

پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس بارکھان نے 16 نومبر 2022 کو اپنی نگرانی میں ایک مقدمے میں بارکھان میں ایس ایچ او، اے ٹی ایف، پولیس کی ٹیم کے ہمراہ سردارعبدالرحمٰن کھیتران کی حاجی کوٹ میں واقع رہائش گاہ پر چھاپہ مارا لیکن وہاں سے کوئی بھی فرد مقید نہیں ملا

واضح رہے کہ مقتولین کے ورثا سوشل میڈیا کے ذریعے تہرے قتل کا الزام سردارعبدالرحمٰن کھیتران پر لگا رہے ہیں، لیکن صوبائی وزیر سردارعبدالرحمٰن نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے اپنے خلاف ’سازش‘ قرار دیا ہے

اس سے قبل سردارعبدالرحمٰن کھیتران کا کہنا تھا ’یہ سب غلط الزامات ہیں، میرا کسی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے، کچھ لوگ مجھے منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میرے خلاف اسی قسم کی سازش 2013، 2018 کے الیکشن کے دوران بھی ہوئی، اب یہی کچھ آنے والے الیکشن سے پہلے ہورہا ہے، ہم نے بلدیاتی الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close