مودی سرکار پر اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائر ججز کو نوازنے کے الزامات، معاملہ ہے کیا؟

ویب ڈیسک

پاکستان میں اعلٰی عدلیہ کے بعض ججز کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے نوازنے کی روایت رہی ہے۔ نواز شریف کی جانب سے بسترِ مرگ سے لگے جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ بنائے جانے کی بات اس روایت کی بڑی مثال ہے۔ ان دنوں پڑوسی بھارت میں بھی اعلٰی عدلیہ کے سابق ججز کو اہم سرکاری عہدوں پر تعینات کرنے کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے

جمعے کو اس حوالے سے چہ موگوئیاں مزید بڑھ گئیں، جب بھارتی سپریم کورٹ کے جج جسٹس (ر) عبدالنظیر نے بھارتی ریاست آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر حلف اُٹھایا

اسی طرح حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھارت کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو 2020ع میں پارلیمان کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا کا رُکن بھی بنایا تھا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس پر ایوان میں خوب ہنگامہ کیا تھا

خیال رہے کہ رنجن گوگوئی کی سربراہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے نومبر 2019ع میں بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین پر مندر کی تعمیر، جبکہ مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پانچ رُکنی بینچ میں جسٹس (ر) عبدالنظیر بھی شامل تھے

واضح رہے کہ ہندوستان کے اعلیٰ جج رنجن گوگوئی پر سپریم کورٹ کے ایک سابق عملے کی رکن نے ان پر ناپسندیدہ پیش قدمی کرنے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اسے مارنے کا الزام بھی لگایا تھا

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس سمیت دیگر جماعتیں اعلٰی عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز کو نوازنے کی روش کو عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک قرار دے رہی ہیں۔ لیکن حکمراں جماعت اپنے ان اقدامات کو ’آئین کے مطابق‘ قرار دیتی ہے

9 نومبر 2019ع کی صبح جب بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا تو صحافتی حلقوں نے اس وقت یہ سوال اُٹھایا تھا کہ آخر کیوں کر کسی ایک جج نے بھی اس معاملے میں اختلافی نوٹ نہیں دیا۔ یہاں تک کہ مسلمان جج جسٹس عبدالنظیر، جو اس پانچ رُکنی بینچ کا حصہ تھے، نے بھی نہیں

جسٹس عبدالنظیر رواں برس چار جنوری کو ریٹائر ہوئے تھے، جس کے بعد انہیں رواں ماہ آندھرا پردیش کا گورنر نامزد کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس تعیناتی نے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں

بعض حلقے یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ کیا جسٹس (ر) عبدالنظیر کو بابری مسجد پر ہندو فریق کا ساتھ دینے کا انعام دیا گیا؟ کیوں کہ اس سے بی جے پی کو بہت فائدہ ہوا اور اسے انتخابات میں زبردست کامیابی ملی

بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس نے جسٹس (ر) عبدالنظیر کی بطور گورنر تعیناتی پر بی جے پی کے آنجہانی رہنما ارون جیٹلی کا جملہ دہرایا تھا، جس میں ایک موقع پر اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ریٹائرمنٹ کے بعد پرکشش تعیناتی کی خواہش بطور جج فیصلے پر اثر انداز ہوتی ہے۔‘‘

اس صورتحال میں ماہرین یہ سوال بھی اُٹھا رہے ہیں کہ حکومتوں کے ذریعے ججز کو سرکاری عہدے دینا کس حد تک جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کن حالات میں؟ کیا ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ججز کو سرکاری عہدے دینا جمہوریت ملک کے لیے برا شگون نہیں ہے؟

بھارت میں ججوں کو پرکشش سرکاری عہدے دینے کی روایات نئی نہیں ہیں، لیکن بعض ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ برسوں میں ججوں کی تعیناتی اس تواتر سے سامنے آرہی ہے، جس نے معقولیت اور لحاظ کے پردے کو بھی چاک کر دیا ہے

جسٹس (ر) عبدالنظیر اور جسٹس رنجن گوگوئی کے علاوہ 2014ع میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا پی ستاشیوم نے کیرالہ کے گورنر کا عہدہ قبول کر لیا تھا، جس پر سوالات اُٹھائے گئے تھے

چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ 26 اپریل کو ہوئی تھی، جس کے محض چار ماہ بعد اُنہوں نے گورنرشپ قبول کر لی تھی

جسٹس ستا شیوم کی گورنر کے عہدے پر حلف برداری بھارت کی تاریخ کا ایسا پہلا واقعہ تھا، جب صدر جمہوریہ نے مرکزی حکومت (مودی حکومت) کی سفارشات پر کسی چیف جسٹس کو گورنر کا عہدہ سونپا

ستا شیوم کو گورنر بنائے جانے کے فیصلے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس پر خوب بحث ہوئی تھی۔ اس موضوع پر کالمز اور تبصرے بھی سامنے آئے تھے، جن میں یہ سوال اُٹھایا گیا تھا کہ اس تعیناتی سے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان توازن کو دھچکا لگے گا

بعض مبصرین نے یہ سوال بھی اُٹھایا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ججز کو پرکشش عہدے دینے سے ایک بری روایت قائم ہوگی، جس سے لامحالہ آزاد عدلیہ کے تشخص کو بھی ٹھیس پہنچے گی

چیف جسٹس (ر) رنجن گوگوئی کو جب راجیہ سبھا کا رُکن بنایا گیا تو اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ عدالتی اُمور اور نظام انصاف میں خامیوں کو دُور کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آواز اُٹھائیں گے

تاہم مشہور صحافی رویش کمار نے حال ہی میں اپنے وڈیو بلاگ میں بتایا ”رنجن گوگوئی کی پارلیمنٹ میں حاضری، سوالات کرنے اور بحث میں شامل ہونے کی شرح صفر سے قریب ہے“

قانون کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس اے پی شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ”کسی بھی چیف جسٹس کا عہدہ بہت ہی مقدس ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح کی پیشکش قبول کرنے سے شک اور الزامات سامنے آئیں گے‘‘

جسٹس ستا شیوم کے بارے میں کئی وکلا کا ماننا ہے کہ وہ ایک بہترین جج تھے جنہوں نے نریندر مودی کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا تھا جب انہوں نے سارے انتخابی امیدواروں کو اپنی بیوی کا نام حلف نامے میں شامل کرنے کو لازمی قرار دیا تھا

لیکن پھر جب اُنہوں نے جعلی پولیس مقابلے کے ایک کیس میں وزیرِ داخلہ امت شاہ کو کلین چٹ دی تو حزبِ اختلاف نے کہا تھا کہ جسٹس ستا شیوم کا یہ فیصلہ نریندر مودی کو بہت بھایا ہوگا

ناقدین کے مطابق سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی جو مودی حکومت کی سفارشات پر سبکدوشی کے فوری بعد راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ انہوں نے بابری مسجد پر سب سے بڑا فیصلہ دیا۔ ایک ایسا فیصلہ، جو بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اور جسے نریندر مودی اپنی اور ہندوتوا کی جیت قرار دیتے ہیں

خود رنجن گوگوئی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ”ایودھیا فیصلہ جب تیار ہو گیا، تو دوسرے ساتھھی ججوں (پانچ رکنی بینچ) کے ساتھ تاج مان سنگھ ہوٹل میں ڈنر کے لیے گئے، جہاں انہوں نے چائنیز کھایا اور وائن پی“

گوگوئی نے اپنی کتاب میں ڈنر کی تصویر پر ایک کیپشن لکھا ’’ایودھیا فیصلہ کا جشن مناتے ہوئے۔۔ اب ایودھیا، جس کا نام فیض آباد تھا، میں ایک بڑا رام مندر تیار ہورہا ہے، جو عام انتخابات 2024 سے کچھ دن قبل عوام کے لیے کھولا جائے گا“

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ خود بی جے پی ہمیشہ سے ججوں کو سیاسی عہدے دینے کے خلاف رہی ہے۔ بی جے پی کے آنجہانی قد آور رہنما ارون جیٹلی نے خود 2012ع میں پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ججوں کو پوسٹ ریٹائرمنٹ سرکاری عہدوں سے نوازنے کے خلاف آواز اُٹھائی تھی

ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ ایک جج کو سبکدوشی کے بعد کوئی بھی سرکاری عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے

بی جے پی کے سابق صدر نتن گڈکری، جو موجودہ حکومت میں وزیرِ ٹرانسپورٹ ہیں، بھی ماضی میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ بی جے پی کا مؤقف بھی کم و بیش یہی تھا

لیکن اب حکمراں جماعت اپنے ان اقدامات کا دفاع کر رہی ہے۔ بی جے پی کے رہنما کانگریس کے حوالے سے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ وہ بھی ماضی میں اعلٰی عدلیہ کے ریٹائر ججز کو نوازتی رہی ہے

اس حوالے سے وہ 1952 میں جسٹس سید فضل علی کو اوڈیسا کا گورنر بنانے اور سپریم کورٹ کی جج فاطمہ بی بی کو 1997 میں تمل ناڈو کا گورنر بنانے کی مثالیں دیتی ہے

ادہر جسٹس ستا شیوم گورنر بنائے جانے پر کانگریس نے شدید اعتراض کیا اور اب جب کچھ ہی برسوں کے بعد جسٹس عبد النظیر کو گورنر بنایا گیا تو کانگریس نے پھر سے تنقید کی

کانگریس کا یہ مؤقف ہے کہ سابق ججز کے لیے ہماری حکومت کے پاس پہلے سے ہی بہت سے کام ہوتے ہیں، کسی کمیشن کی سربراہی، کسی ہائی پروفائل مقدمے کی انکوائری اور سماجی خدمات کے اداروں میں تعیناتیاں وغیرہ۔ لہٰذا ججز کو سیاسی عہدوں میں لانا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے

اسی پر بس نہیں، رواں ماہ 7 فروری کو حکمراں جماعت اور ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے سیاسی وابستگی رکھنے والی خاتون وکیل کو مدراس ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا تھا، اس پر بھی اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ان کی نامزدگی کے خلاف دائر درخواست بھی مسترد کر دی گئی تھی

بار کونسل آف انڈیا کے مطابق کسی سے سیاسی وابستگی رکھنے والے شخص کی بطور جج تعیناتی غیر آئینی نہیں مگر جج کے عہدے پر بیٹھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ماضی تنازعات سے پاک اور ایمانداری سے عبارت ہو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ناصر، جو ججوں کے اختلاف رائے کی تاریخ پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں، کا ماننا ہے کہ قانونی طور کسی بھی سابق جج کو کوئی بھی عہدہ دیا جا سکتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئین میں کہیں ایسا نہیں لکھا ہے کہ کوئی جج گورنر نہیں بن سکتا اور نہ ہی کوئی قانون حکومت کو ایسا کرنے سے روکتا ہے

تاہم اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک یہ سوالات ہیں کہ انتظامیہ اور عدلیہ میں ساز باز کے خدشات ہیں تو ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا مگر انہیں ثابت کرنا بھی مشکل ہے

ڈاکٹر ناصر کہتے ہیں کہ ایک ریٹائرڈ آرمی افسر بھی گورنر بنتا ہے، سرکاری عہدے بھی ملتے ہیں، اس لیے یہ بحث وہاں بھی ہونی چاہیے۔ یہ سوالات صرف ججوں پر ہی کیوں کیے جاتے ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں کے فیصلے سے حکومتوں کا خوش ہونا فطری بات ہے کیوں کہ عدالتوں میں 70 فی صد مقدمات میں حکومت فریق بنتی ہے، اب سارے فیصلے حکومت کے خلاف تو نہیں جائیں گے

بی جے پی کے سینیئر رہنما اور معروف وکیل سبرامنیم سوامی کہتے ہیں کہ وہ ججز کو گورنر بنانے کے خلاف نہیں ہیں، کوئی بھی اچھی حکومت چاہے گی کہ ایسے لوگوں کو گورنر بنائے جو قابلِ ہوں اور ججوں سے زیادہ قابل کون ہوگا؟

سبرامنیم سوامی نے اپنی ہی پارٹی کے لیڈر جیٹلی کے اس بیان کو غلط قراردیا جس میں انہوں نے ججوں کو پرکشش سرکاری عہدے نوازنے کے خلاف رائے دی تھی

سوامی نے کہا ”جب جیٹلی نے راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں یہ بیان دیا تھا، تو میں وہیں تھا۔ ان کا وہ بیان غلط تھا۔ جیٹلی ایک بھی الیکشن جیتے نہیں، انہیں کیا پتا عوام کیا ہے اور عوام کی حکمرانی کیا ہے؟“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close