ہر طرف افراتفریح مچی پڑی ہے

وسعت اللہ خان

وہاں اس قدر شور برپا تھا کہ الاماں! کان پڑی آواز سننا تو درکنار، ہر کوئی اپنے سامنے والے سے پوچھ رہا تھا کہ ابھی ابھی میں نے کیا کہا؟ (مشتاق یوسفی)

لپاڈکی، طوائف الملوکی، آپادھاپی، افراتفری، افراتفریح، نفسانفسی، شترِ بے مہار، گدھا پچیسی، لچرپن، پگڑی اچھال، اچھال چھکا، غدر، بھسڑ، کہرام، غوغا، غرض آج کے پاکستان پر ایسی ہر کیفیت لاگو ہے

پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بحران اور دہشت گردی ایک ساتھ حملہ آور ہوئے ہیں۔ جن پر انہیں روکنے کی ذمہ داری ہے وہ خود آپس میں لت پت ہیں

کس کا جبڑا کس کے ہاتھ میں ہے، کون کس کے نتھنے چیرنے کی کوشش کر رہا ہے، دولتی کسے مارنا چاہ رہا ہے اور پڑ کسے رہی ہے، کس نے کس سے ہتھ پنجہ کر رکھا ہے، کس نے کسے ٹھڈے پر رکھ رکھا ہے، کس کے کون سے بال کہاں سے کھنچ رہے ہیں، کس کے حساس آلات و تنصیبات پر کس کا ہاتھ پڑ رہا ہے اور کس نے کس کو جپھی یا جپھا ڈال رکھا ہے؟

کچھ ٹپائی، دکھائی یا سمجھائی نہیں دے رہا۔ یہ تک پتہ نہیں چل رہا کہ یہ سارا منظر بذات خود کوئی شارٹ فلم ہے یا کسی طویل مزاحیہ فلم کا ٹریجک سین ہے یا پھر کسی ٹریجک فلم کا مزاحیہ سین ہے۔ پہلا سین ہے یا فلم ختم ہونے سے پہلے پہلے والا سین ہے

میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہوں،
وہ کیا شے ہے جو ہاری جا رہی ہے۔۔
(جون ایلیا)

کیا کبھی کسی ملک میں کسی نے سنا کہ آنکھوں کا ڈاکٹر دل کا آپریشن بھی کرنا چاہے، ریلوے کا محکمہ ہوابازی میں دلچسپی لینا شروع کردے، بجلی کی پیداوار کا محکمہ سڑک بنانے کے ٹینڈر میں بھی گھس رہا ہو یا ہائی ویز اتھارٹی دفاعی معاملات میں اپنی ماہرانہ رائے دے رہی ہو۔ یقیناً آپ ایسا کرنے والوں کی ذہنی حالت پر شک کر سکتے ہیں

مگر ہمارے ہاں ان دنوں یہ سب گ‍‍زشتہ ادوار کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے اور اکثر لوگ انگشتِ بہ دنداں ہونے کے بجائے گالیاں دے رہے ہیں یا پھر واہ واہ کے ڈونگرے برسا رہے ہیں

اگرچہ بائیس لاکھ مقدمے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ مگر ججوں کی شدید قلت کے باوجود عدلیہ کا بس نہیں چل رہا کہ وہ کارِ سرکار بھی سنبھال لے۔ مخلوط سرکار کی شدید خواہش ہے کہ جج حضرات تحریکِ انصاف اور انصاف کے فرق کو سمجھیں۔ ساتھ ہی ساتھ سرکار یہ بھی چاہتی ہے کہ احتسابی جبڑے سے نوکیلے دانت نکالنے کے بعد احتساب کا وفاقی ادارہ نیب بھی ہماری دھن پر ناچے

یہ خواہش اس قدر شدید ہے کہ جس آفتاب سلطان کو شہباز حکومت شفافیت کے جذبے سے لائی تھی، اسی آفتاب سلطان نے صرف سات ماہ میں ہاتھ کھڑے کر دیے کہ میں نیب کا چیئرمین تو رہنا چاہتا ہوں لیکن اس عمر میں گلے میں پٹہ نہیں ڈلوا سکتا۔ چنانچہ یہ ’ایمان دار افسر‘ ازخود استعفی دے کر شفافیت کا سرکاری دعوی سرکار کے سر پے پھوڑ کے چلتا بنا

دوسری جانب صدرِ مملکت نے چالیس ایکڑ کے ایوانِ صدر میں رہنے کی بوریت سے تنگ آ کے اپنے تئیں چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی اور وزیرِ اعظم سے پوچھے یا بتائے بغیر ہی پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دی۔ اس کے ردِعمل میں چیف الیکشن کمیشن صدرِ مملکت کے منصب کو نائب قاصد کے برابر اہمیت دینے پر بھی تیار نہیں۔آئین کے مطابق ایوانِ صدر عملاً ایک پوسٹ آفس ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ صدرِ مملکت پیشے کے اعتبار سے دندان ساز بھی ہیں

اب تک ہم یہ رونا روتے آئے تھے کہ صرف فوجی آمر ہی بالائے آئین اقدامات دھڑلے سے کرتے ہیں اور آئین کو محض بارہ صفحے کی ردی سمجھتے ہیں۔ مگر پچھلے دس ماہ میں اس آئین کے ساتھ سویلینز نے جو کھلواڑ کی ہے اس کے بعد سابق جنرلوں کے آئینی گناہ بھی کم ازکم آدھے تو دھل ہی چکے ہیں

سب سے پہلے عمران خان نے اپنے خلاف اسمبلی میں پیش ہونے والی تحریکِ عدم اعتماد کو جس طرح غیر آئینی طریقے سے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ اس کی گواہی عدالتی فیصلوں میں چمک رہی ہے۔ تب پی ڈی ایم آئین کے تحفظ کی ٹھیکیدار بن کے سامنے آئی تھی

آج وہی عمران خان آئین کی پامالی پر چیخ رہے ہیں اور پی ڈی ایم اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد نوے دن کے اندر انتخابات کے واضح آئینی حکم کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل درآمد سے خود کو ایسے قاصر ظاہر کر رہی ہے گویا آئین اردو یا انگریزی میں نہ ہو بلکہ سواحلی یا ماؤری زبان میں لکھا گیا ہو اور یہ پاکستان کے بجائے گنی بساؤ یا سوازی لینڈ کا آئین ہو

پچھلے اپریل میں بھی اعلٰی عدالت کو ہی آئین شکنوں کو جوتا سنگھانا پڑا تھا۔ آج دس ماہ بعد بھی عدالت کو ہی بتانا پڑ رہا ہے کہ نوے دن میں انتخابات سے دراصل کیا مراد ہے۔ وہ الگ بات کہ سپریم کورٹ کے جس نورکنی بنچ کو یہ تشریح کرنا ہے اس کے دو معزز ججوں پر نہ صرف حکومت بلکہ بار بھی عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے

ایک جانب عدالت کے کمرے میں خشک قسم کی موشگافیاں جاری ہیں تو دوسری جانب اس خشکی سے پیدا ہونے والی بوریت کو دور کرنے کے لیے جیل بھرو تحریک کا سرکس چل رہا ہے

پہلے زبردستی پولیس کی گاڑیوں میں بیٹھ کر گرفتار ہونے کی تصاویر کھنچواتے ہیں اور اگلے ہی دن حبسِ بے جا کی درخواست بھی دائر کر دیتے ہیں۔ جن صاحب کے حکم پر جیل بھرو تحریک جاری ہے، خود وہ صاحب ضمانت قبل از گرفتاری کروا کے بیٹھے ہیں

اور میڈیا کو دیکھ کے یوں لگ رہا ہے گویا اقتصادی بحران کی لپیٹ میں پاکستان نہیں بلکہ جمیکا ہے اور دہشت گردی کا نشانہ ہم نہیں فجی کے لوگ بن رہے ہیں۔

ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ،
میری فریاد ماری جا رہی ہے۔۔
(جون ایلیا)

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close