کیا ہمیں دن میں تین مرتبہ کھانا کھانا چاہیے؟

ویب ڈیسک

ممکن ہے کہ آپ دن میں تین بار کھانا کھاتے ہوں۔ جدید دور میں ایسے ہی کھانا کھایا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ کھانوں میں سب سے اہم ناشتہ ہے۔ کام پر بھی کھانے کا وقفہ ہوتا ہے اور ہماری سماجی اور گھریلو زندگی بھی کھانوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ لیکن کیا یہ تین کھانوں والا نظام ہمارے لیے صحت مند ہے بھی یا نہیں؟

یہ سوچنے سے پہلے کہ ہمیں دن میں کتنی بار کھانا کھانا چاہیے، سائنسدان ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں کب نہیں کھانا چاہیے۔

اس وقت انٹرمٹنٹ فاسٹنگ، یعنی کسی ایک دن میں آٹھ گھنٹے تک کچھ نہ کھانا، کے بارے میں بہت تحقیق ہو رہی ہے۔

کیلیفورنیا کے سالک انسٹیٹیوٹ فار بایولاجیکل اسٹڈیز سے منسلک ایملی منوگن، جو ‘کب کھانا چاہیے’ پر ایک تحقیقی پیپر لکھ چکی ہیں، وہ کہتی ہیں ”جسم کو دن میں بارہ گھنٹے تک خوراک کا وقفہ دینے سے ہمارے نظام انہضام کو بھی آرام کا موقع ملتا ہے“

یونیورسٹی آف وسکانسن کے اسکول آف میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر روزلین اینڈرسن نے انسانی جسم کو یومیہ مطلوب کیلوریز کے بارے تحقیق کی ہے۔

وہ کہتی ہیں ”روزانہ کھانے میں ایک بڑے وقفے کے فوائد ہیں۔ کھانے میں لمبے وقفے سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایسے پروٹینز یا لحمیات کو ٹھیک کر سکے جو کسی وجہ سے کھل نہیں سکے ہیں۔ ایسے لحمیات کا کئی قسم کی بیماری سے تعلق جوڑا جاتا ہے“

پروفیسر روزلین اینڈرسن کا کہنا ہے ”ہمارے جسموں کا ارتقا انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کی طرز پر ہوا ہے۔ اس سے جسم کو موقع ملتا ہے کہ وہ جسم میں توانائی کو جمع کرے اور اسے وہاں استعمال کرے جہاں اس کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے جسموں میں جمع توانائی کو خارج کرنے کے نظام کو بھی متحرک کرے“

اسپورٹس سائنس کے پروفیسر انتونیو پاولی کے مطابق کھانے کے دوران لمبے وقفے جسم میں گلسرین کے استعمال میں بہتری لاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد جسم میں گلوکوز لیول میں کم اضافے کی وجہ سے جسم کم توانائی کو جمع کر پاتا ہے

پروفیسر پاولی کہتے ہیں کہ ہمارے ڈیٹا سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جلدی ڈنر سے ہماری خوراک میں وقفے کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے جس کے جسم پر مثبت اثرات ہوتے ہیں

اگر تمام خلیوں میں شوگر لیول کم ہو تو یہ اچھا ہے، کیونکہ اگر شوگر لیول زیادہ ہو تو ایک عمل شروع ہو جاتا ہے جسے گلائیکیشن کہتے ہیں۔ گلائیکیشن کے دوران گلوکوز اور لحمیات کا ملاپ ہوتا ہے جس سے جسم میں سوجن بڑھ جاتی ہے اور ذیابیطس کے خطرات بڑھ جاتے ہیں

اگر انٹرمٹنٹ فاسٹنگ صحت کے لیے مفید ہیں تو پھر دن میں کتنی بار کھانا کھانا چاہیے؟ کچھ ماہرین کے خیال میں دن میں صرف ایک بار کھانا ہی بہترین عمل ہے

نیویارک کی کورنل یونیورسٹی کالج آف ہیومن ایکالوجی سے منسلک ڈیوڈ لویٹسکی کہتے ہیں ”ایسا بیشمار ڈیٹا موجود ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اگر آپ کو کھانے کی تصاویر دکھائی جائیں تو آپ کو کھانے کی طلب ہوگی.. جب فریج اور فریزر نہیں ہوتے تھے تو ہم صرف اسی وقت کھانا کھاتے تھے جب کھانا فراہم ہوتا تھا۔ تاریخ میں ہمیشہ انسان ایک وقت کا کھانا کھاتا تھا“

انسانی خوراک کے تاریخ پر نظر رکھنے والے سیرن چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ قدیم روم میں صرف دوپہر کے وقت صرف ایک وقت کا کھانا کھایا جاتا تھا

کیا دن میں ایک بار کھانا کھانے سے ہم بھوکے نہیں رہ جائیں گے؟ ڈیوڈ لیوٹسکی کہتے ہیں کہ بھوک اکثر ایک نفسیاتی احساس ہے

”جب بارہ بجتے ہیں تو ہمیں کھانے کی طلب ہونے لگتی ہے۔ آپ کو شاید ناشتے کی عادت ہو۔ ڈیٹا سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اگر آپ ناشتہ نہیں کریں گے تو آپ کے جسم میں کل دن میں کم کیلوریز داخل ہوں گی“

البتہ ڈیوڈ لویٹسکی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے یہ طریقہ تجویز نہیں کرتے

لیکن اس کے برعکس ایملی منوگن دن میں صرف ایک کھانے کا مشورہ نہیں دیتیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جب ہم کچھ نہیں کھاتے تو ہمارے خون میں فاسٹنگ گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اگر ایک عرصے تک ایسا ہی ہوتا رہے تو اس سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے

منوگن کہتی ہیں کہ خون میں فاسٹنگ گلوکوز کی مقدار کو کم سطح پر رکھنے کے لیے ہمیں ایک سے زیادہ بار کھانا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسم کو یہ پیغام نہ جائے کہ وہ فاقہ کر رہا ہے جس کے ردعمل میں وہ فاسٹنگ گلوکوز بنانا شروع کر دے

منوگن کے مطابق دن میں دو سے تین بار کھانا کھانا اچھا عمل ہے ”اگر دن کے ابتدائی حصے میں کیلوریز کی ایک بڑی مقدار کو کھا لیا جائے تو یہ صحت کے مفید ہے۔ رات دیر سے کھانا کھانے کو دل کے عارضے، نظام ہضم اور ذیابیطس کی بیماریوں سے جوڑا جاتا ہے“

اگر آپ اپنا زیادہ کھانا دن کے ابتدائی حصے میں کھاتے ہیں تو جسم تمام توانائی کو استعمال کر سکتا ہے اور اسے چربی کے طور جسم میں جمع نہیں کرے گا

ایملی منوگن کہتی ہیں ”بہت صبح سویرے ناشتے سے بھی پرہیز کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح نیند سے بیداری کے فوراً بعد کھانا کھانا صحت کے لیے مفید نہیں ہے اور اس سے باڈی کلاک متاثر ہوتا ہے“

ماہرین کہتے ہیں کہ خوراک کے ہضم ہونے میں جسمانی گھڑی کا اہم کردار ہوتا ہے۔

ایملی منوگن کہتی ہیں ”انسانی جسم نیند کی کیفیت لانے کے لیے میلاٹونیم نامی مادہ پیدا کرتا ہے اور اس کے اخراج سے انسولین کی پیدوار تھم جاتی ہے۔ جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کا جسم میلاٹونیم پیدا کرتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دورانِ نیند آپ کے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ نہ جائے“

آگر آپ ایسے وقت کیلوریز کھاتے ہیں جب جسم میں میلاٹونیم کی مقدار زیادہ ہے تو اس سے گلوکوز لیول میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رات کو سونے سے پہلے اگر بہت زیادہ کیلوریز آپ کھا لیں تو جسم کا اس سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر آپ کا جسم گلوکوز کی صحیح مقدار کو برقرار نہیں رکھ سکتا

یہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ایک لمبے عرصے تک جسم میں گلوکوز کی مقدار زیادہ رہے تو وہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی شکل اختیار کر سکتی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ناشتے سے اجتناب کرنا چاہیے

ایسے شواہد موجود ہیں کہ نیند سے بیداری کے ایک دو گھنٹے بعد ہی ناشتے کی جانب بڑھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ ناشتے کا تصور قدرے جدید دور کا تصور ہے

چیرنگٹن ہولنز کہتی ہیں ”قدیم یونان میں ناشتے کو متعارف کروایا گیا۔ وہ ناشتے میں روٹی کو وائن میں بھگو کر کھاتے اور دن کو کافی کم کھانا کھاتے تھے۔ شام کو جی بھر کر کھانا کھانے کا رواج قدیم یونانی دور میں شروع ہوا“

ابتدا میں ناشتے کی ‘عیاشی‘ صرف امرا کرتے تھے۔ پھر سترہویں صدی کے بعد ہر صاحبِ حیثیت شخص کو صبح ایک اچھے کھانے کی ‘عیاشی‘ میسر آ گئی

چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں ”جسے آج ہم ناشتہ کہتے ہیں اس کی شروعات انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہوئی۔ اس دور میں کام کے اوقات بھی مقرر ہوئے اور ان اوقات کی وجہ سے دن میں تین بار کھانے کا رواج ہوا“

”ملازمت پیشہ افراد کے لیے ناشتہ عام طور پر بہت سادہ سا کھانا ہوتا تھا جو عام طور گلی میں فروِخت ہونے والا کھانا یا ڈبل روٹی کے ٹکڑے کی شکل میں ہوتا تھا“

لیکن پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب خوراک کی دستیابی ایک مسئلہ بن گئی تو بہت سے لوگوں کے لیے مکمل ناشتے کا حصول مشکل ہو گیا اور انہوں نے اسے چھوڑنا شروع کر دیا

چیرنگٹن ہولنز کہتے ہیں کہ جس کھانے کو ہم ناشتے کے طور پر جانتے ہیں اس کا رواج 1950 کی دہائی میں ہوا۔ ’اس سے پہلے ہم جیم کے ساتھ ڈبل روٹی کے ایک ٹکڑے کو کھا کر ہی خوش تھے۔‘

لہٰذا، سائنس یہ کہتی ہے کہ دن بھر کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ یہ ہے کہ دو یا تین کھانے، رات بھر طویل روزہ رکھنے کے ساتھ، دن میں بہت جلدی یا بہت دیر سے کھانا نہ کھایا جائے، اور زیادہ کیلوریز کو دن کے پہلے حصے میں کھا لیا جائے، یہی صحت کے لیے مفید ہے

ایملی منوگن کا کہنا ہے کہ کھانے کے بہترین اوقات کو مقرر نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ ایسے لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے جو بے قاعدہ وقت میں کام کرتے ہیں، جیسے کہ رات کی شفٹوں میں کام کرتے ہیں

منوگن کہتی ہیں کہ لوگوں کو یہ بتانا کہ وہ شام سات بجے کے بعد کھانا نہ کھائیں ایسے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے جو مختلف اوقات میں کام کرتے ہیں

اگر آپ اپنے جسم کو باقاعدگی سے رات کو فاقہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو کوشش کریں کہ زیادہ دیر یا جلدی نہ کھائیں اور آخری کھانے میں کم کھانے کی کوشش کریں

”آپ اپنے پہلے کھانے میں تھوڑی تاخیر اور آخری کھانے کو آگے بڑھانے سے ڈرامائی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی اور چیز کو تبدیل کیے بغیر اسے باقاعدہ بنانے سے بڑا اثر ہو سکتا ہے۔“

محققین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آپ جو بھی تبدیلیاں کرتے ہیں وہ مستقل بنیادوں پر ہونی چاہیں اور تسلسل عمل بہت ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close