انسانی اسمگلروں کے ذریعے غیر قانونی راستوں سے پاکستانی نوجوان اکثر اوقات یورپ یا امریکہ جانے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ایسے حادثات کی خبریں کچھ روز تو میڈیا میں گردش کرتی رہتی ہیں لیکن چند دنوں کے بعد سب بھول جاتے ہیں ہاں لیکن لواحقین کے زخم تازہ رہتے ہیں اور یہ سلسلہ بھی چلتا رہتا ہے
گزشتہ اتوار کے روز بھی ایک ایسا ہی اندوہناک حادثہ پیش آیا، جب تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی ایک کشتی کے ڈوبنے سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے اور ان میں بہت سے پاکستانی بھی شامل تھے
جنوبی اٹلی کی ساحلی چٹانوں سے ٹکرانے کے بعد مہاجرین سے بھری یہ کشتی ٹوٹ گئی تھی اور اس کے نتیجے میں چودہ بچوں سمیت کم از کم چونسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ زندہ بچ جانے والے تقریبا اَسی مہاجرین کا کہنا تھا کہ کشتی پر تقریباً ایک سو اَسی سے دو سو مسافر سوار تھے
اطالوی حکام نے اس حادثے کے تناظر میں ایک ترک اور دو پاکستانیوں کو گرفتار کیا ہے
اس جان لیوا حادثے نے ملک میں ایک بار پھر سنگین معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بحث چھیڑ دی ہے، جس کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں کو بیرون ملک بہتر مستقبل کی تلاش میں ایسے خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے
بہت سے پاکستانیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کے دن بدن بڑھتے ہوئے معاشی بحران کی وجہ سے لوگ خطرناک اور غیر قانونی طریقوں سے بھی بیرون ملک نقل مکانی کرنا چاہتے ہیں
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خوراک کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دگنی ہو کر 14.6 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ ورلڈ بینک نے اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں مزید نو ملین افراد غربت کی دلدل میں پھنس سکتے ہیں
ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی 220 ملین آبادی کا پانچواں حصہ پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے
ملک میں فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد پر بند ہوئی جو 1975 کے بعد بلند ترین سطح ہے
اپریل 1975 میں مہنگائی کی شرح 29.3 فیص ریکارڈ کی گئی تھی۔ یوں فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح نے 48 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے
موجودہ مالی سال میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.6 فیصد رہی جب کہ گذشتہ سال فروری کے مہینے میں اس کی شرح 12.2 فیصد تھی
فروری کے مہینے میں بلند مہنگائی کی شرح میں سب سے زیادہ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 45 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا
اس وقت افراطِ زر کی شرح تقریباً 30 فیصد کے قریب ہے، دولت کی تقسیم کا فرق بہت زیادہ ہے اور امیروں کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگیاں بہت کم ہیں۔ صنعتی گروپوں کے مطابق نواز لیگ کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہونے کے بعد صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں تقریباً ستر لاکھ کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پیداواری لاگت بڑھنے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے
صوبہ پنجاب کے علاقے پنڈی بھٹیاں سے تعلق رکھنے والے ایک بیالیس سالہ مزدور میاں غلام شبیر کا کہنا ہے ”ملک میں معاشی مواقع کی کمی کے باعث پاکستانی نوجوان شدت سے بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔“
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں معاشی بحالی کی کوئی امید نہیں ہے جبکہ انہوں نے خود 2015ع میں اٹلی ہجرت کرنے کی کوشش کی تھی
غلام شبیر نے کہا ”دن میں بارہ گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد بھی مزدور یہاں کچھ زیادہ نہیں کما پاتے اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کریں تو وہ کافی پیسے کما سکتے ہیں، جن سے ان کے خاندانوں کی مدد بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے لوگ بیرون ملک روزگار کی تلاش اور بہتر مستقبل کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے رہیں گے‘‘
عوامی ورکرز پارٹی کی لاہور میں مقیم رہنما عابدہ چوہدری نے نشاندہی کی کہ پاکستان لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کا گھر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان غیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ”ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں بند کرتے ہیں یا انہیں ضرورت سے زیادہ بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اٹلی جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔‘‘