پڑوسی ملک ایران کی جانب سے ’پاک ایران گیس پائپ لائن‘ کی عدم تکمیل کی بنا پر معاشی مشکلات سے دوچار پاکستان پر اٹھارہ ارب ڈالرز کے جرمانے کی خبر نے کئی حلقوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے
ماہرین معیشت کے مطابق اس ایرانی اقدام سے نہ صرف پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے، بلکہ تہران اسلام آباد تعلقات میں بھی تلخی بھی آ سکتی ہے
خیال رہے کہ بدھ کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران سیکریٹری پٹرولیم نے کمیٹی کو مطلع کیا تھا کہ اگر پاکستان آئی پی معاہدے کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتا، تو ایران ممکنہ طور پر پاکستان پر اٹھارہ بلین ڈالر کا جرمانہ لگا سکتا ہے اور اس کے لیے متعلقہ بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کر سکتا ہے
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق بتایا گیا کہ ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کی ہوئی ہے اور اگر منصوبہ سال 2024 تک مکمل نہ ہوا تو ممکن ہے ایران پاکستان کے خلاف اٹھارہ ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کرے
حالیہ برسوں میں ایک ترکش اور ایک کینیڈین کمپنی نے بھی پاکستان کے خلاف بین الاقوامی ادارے سے رابطہ کیا تھا، جس کی وجہ سے پاکستان پر تقریباً گیارہ بلین ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستان نے اس جرمانہ ادا کرنے کی بجائے، بات چیت کے ذریعے معاملات حل کر لیے تھے
بین الاقوامی امور کے ماہرین اور معیشت دانوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ بھی یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے
کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہتی ہیں ”ایران نے نوے کی دہائی میں پاکستان کو مقامی کرنسی میں تجارت کی پیشکش کی تھی۔ ہم بھی اس گیس پائپ لائن کے حوالے سے ایران سے بات چیت کرکے ایران کو مقامی کرنسی میں ادائیگی کر سکتے ہیں یا پھر بارٹر ٹریڈ کے ذریعے بھی اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے‘‘
شاہدہ وزارت کے مطابق ”نوے کی دہائی میں تہران نے اسلام آباد سے کہا تھا کہ اسے سیمنٹ اور شوگر کے کارخانے لگانے میں مدد دی جائے، جو ہیوی میکینیکل کمپلیکس کی مدد سے پاکستان کر سکتا ہے، لیکن پاکستانی حکمران امریکی اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ نادر موقع گنوا دیا‘‘
واضح رہے کہ ان دنوں پاکستان گھمبیر معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضہ اور امداد نہیں دے رہے جبکہ دوست ممالک سے بھی کوئی خاص مالی تعاون نہیں ملا۔ چین نے ستر کروڑ ڈالر پاکستان کو دیے ہیں، لیکن پاکستان اب بھی مشرق وسطیٰ اور دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی نے ستر سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جب کہ ڈالر کی پرواز بھی اپنے عروج پر ہے۔ گزشتہ صرف ایک دن میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کو انیس روپے گراوٹ کی کاری ضرب سہنی پڑی ہے۔ ڈالر کی کمی کی وجہ سے کئی اشیا کی درآمدات میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں
ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں اگر ایران نے واقعی پاکستان پر جرمانہ عائد کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کیا، تو پاکستان کی مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہوگا ہی لیکن یہ ایرانی اقدام پاکستان کی ڈوبتی معیشت پر آخری تنکا بھی ثابت ہو سکتا ہے
اس بارے میں لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ناصر شیرازی کہتے ہیں ”پاکستان پہلے ہی بدترین معاشی بدحالی سے گزر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایران اس پر عمل نہ کرے اور یہ صرف سودے بازی کے لیے بات کی گئی ہو تاکہ پاکستان امریکی اثر و رسوخ سے نکل کر بھارت کی طرح اس معاہدے کے حوالے سے استثنٰی مانگے لیکن اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا اور ایران اٹھارہ بلین ڈالرز کا یہ جرمانہ لگوا دیتا ہے، تو پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستانی حکومتیں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں توازن قائم کرنے کے لیے کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ کچھ حکومتوں کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف جبکہ کچھ کا ایران کی طرف ہوتا ہے
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کے دور میں پاکستان کے ایران سے تعلقات مثبت اور بہتر تھے، جبکہ سعودی عرب کئی معاملات میں اسلام آباد سے ناراض تھا۔ اس حوالے سے اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ ایران کو اب اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ موجودہ حکومت اس کو سعودی عرب کے مقابلے میں ترجیح دے گی
ڈاکٹر امان کے بقول ”یہ بات بڑی واضح ہے کہ بین الاقوامی اداروں پر امریکہ کا اثر و رسوخ ہے اور وہ کبھی بھی ایران کے حق میں فیصلہ نہیں دیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بین الاقوامی ادارے پاکستان کے ہمدرد ہیں بلکہ وہ امریکی اور مغربی دباؤ کی وجہ سے ایسا کریں گے۔ ایران نے اس طرح کی بات کر کے تہران اور اسلام آباد کے تعلقات میں تلخی پیدا کر دی ہے، جس کا نقصان پاکستان سے زیادہ ایران کو ہوگا‘‘
ڈاکٹر امان میمن کے مطابق ”پاکستان میں پہلے ہی حکومتی حلقے یہ سوچتے ہیں کہ مالی طور پر ایران سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، اور اب ایران کی اس جرمانے والی بات کے بعد امکان ہے کہ پاکستان کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف اور زیادہ ہو جائے گا‘‘
پاک ایران پائپ لائن کا پس منظر
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے پر 1994ع میں بات چیت ہوئی تھی اور 1995ع میں ابتدائی معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ بعد میں انیس سو ننانوے میں ایران نے اس معاہدے میں بھارت کو بھی شامل کرنے کا کہا
بعد ازاں 2008ع میں ایران نے چین اور 2010ع میں بنگلہ دیش کو بھی اس معاہدے میں شامل کرنے کی تجویز دی۔ جبکہ 2009ع میں بھارت اس معاہدے سے نکل گیا۔ تاہم ایران اور پاکستان نے 2010ع میں اس معاہدے پر دستخط کیے
معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو 2014 تک اپنے اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانا تھی۔ 2013ع میں حکومتِ پاکستان نے باضابطہ طور پر اس پروجیکٹ کی منظوری دی۔ معاہدے کے مطابق اگر پاکستان 2014 کے آخر تک اپنے حصے کی پائپ لائن نہیں بچھاتا، تو اس کو ایک ملین ڈالر کا روزانہ ہرجانہ 2014 کے اختتام تک دینا پڑے گا
2011ع میں ایران نے اعلان کیا کہ اس نے اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کرلی ہے۔ تاہم 781 کلومیٹر طویل یہ پائپ لائن مختلف وجوہات کی بنا پر ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔ 2013ع میں پاکستان کو پائپ لائن بچھانے کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی ضرورت تھی اور ایران پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالرز بطور قرض دینے کے لیے تیار تھا
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں کیا ہوا؟
کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کے جواب میں وزارت خارجہ حکام نے بتایا کہ سال 2009 میں پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا گیا تھا تاہم اس وقت بھی ایران پر اقتصادی پابندیاں تھیں جس پر کمیٹی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ قومی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے
حکام کے مطابق: ’اگر اقتصادی پابندیاں موجود تھیں تو معاہدہ ہی نہ کیا جاتا اور اگر کر لیا تھا تو اُس کو ضرور نبھایا جانا چاہیے۔‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتایا گیا کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران 80 ارب ڈالر کی اشیا دیگر ممالک کو برآمد کر رہا ہے۔ خاص طور پر بھارت اور چین ایران سے سستا تیل خرید رہے ہیں
کمیٹی کو بتایا گیا کہ بجلی، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا پر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بھی ایران سے 104 میگا واٹ سستی بجلی خرید رہا ہے اور مزید 100 میگا واٹ بجلی خریدنے کے لیے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور ایران کے مابین کھانے پینے کی متعدد اشیا بشمول چاول، کینو، پستے اور دیگر اشیا کی باہمی تجارت بھی ہو رہی ہے
کمیٹی نے ہدایت کی کہ تمام متعلقہ ادارے رپورٹ پیش کریں اور بتائیں کہ اگر ایران پر اقتصادی پابندیاں نہ ہوں تو پاکستان اور ایران کی تجارت کا حجم کتنا ہوگا؟ اور اگر پاکستان ایران سے تیل برآمد کرنا شروع کر دے تو اس کے پاکستانی معیشت اور ادائیگیوں کے توازن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
پاک ایران تعلقات سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے حکام وزارت خارجہ نے کمیٹی کو بتایا کہ ایرانی اس منصوبے میں تاخیر سے ناخوش ہیں
چیئرمین کمیٹی محسن داوڑ نے سوال کیا کہ اگر بھارت، چین اور جاپان ایران سے تیل لے رہے ہیں تو ہم کیوں نہیں لے سکتے، جس پر حکام وزارت خارجہ نے بتایا: ’ہم ایران سے تیل کی تجارت نہیں کرتے جو ممالک کرتے ہیں ان کی اپنی پالیسیاں ہیں۔‘
داوڑ نے سوال کیا: ’بھارت نے کلکتہ میں ایران سے تیل خریداری کے لیے ایک الگ بنک کھولا ہے ہم نے اس معاملے کو کئی بار اعلیٰ سطح اجلاس میں اٹھایا کہ ہم کیوں نہیں ایسا بنک بنا سکتے جو ریال اور تومان میں ڈیل کرے۔‘
حکام نے کہا: ’سادہ الفاظ میں ہم چونکہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے ہیں اس لیے تیل نہیں لے سکتے جبکہ انڈیا، چین اور جاپان آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیتے ہیں۔ ہماری تجارت میں سب سے بڑا مسئلہ بنکنگ چینل کا نہ ہونا ہے۔‘
خارجہ امور کمیٹی نے پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وزارت خارجہ اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد پاک-ایران گیس پائپ لائن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کریں اور رپورٹ پیش کریں۔