بےضابطگیوں کے باعث سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پبلک سروس کمیشن (ایس پی ایس سی) کو دو مہینوں کے اندر مشترکہ مسابقتی امتحان یا کمبائنڈ کامپیٹیشن ایگزامنیشن (سی سی ای) 2020ع دوبارہ کرانے کی ہدایت کی ہے
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ امتحان سرکاری حکام اور عدالت کے ایڈیشنل رجسٹرار کی نگرانی میں منعقد کیا جائے گا
جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے ریمارکس دیے کہ ٹیمپرڈ جوابی کاپیوں کی وجہ سے سی سی ای 2020ع کے پورے نتائج کی شفافیت کو داغدار کر دیا ہے، اس لیے امتحانات دوبارہ شفاف طریقے سے کرانے کی ضرورت ہے
سندھ ہائی کورٹ نے یہ ہدایات 2019ع میں دائر کی گئی ایک درخواست کو نمٹاتے ہوئے دیں
عدالت عالیہ نے نوٹ کیا کہ حکام کے حوالہ جات، انکوائری رپورٹ اور ایس پی ایس سی چیئرمین کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد عدالت چیئرمین کی تجویز کردہ کارروائی سے متفق نہیں ہے جب کہ جوابی پرچوں میں کی گئی ٹیمپرنگ نے اس پورے انتخابی عمل کی شفافیت کو داغدار کر دیا ہے جس پر ادارے کو لازمی عمل کرنا چاہیے
بینچ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے اس سے قبل دیے گئے احکامات کے باوجود امتحان کا انعقاد نہیں کیا گیا اور بادی النظر میں حکام جان بوجھ کر بدانتظامی کے مرتکب ہوئے جن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ مذکورہ بالا حقائق اور حالات کے پیش نظر ہم فی الحال کوئی حکم دینے سے گریز کر رہے ہیں تاکہ دیکھیں کہ سندھ حکومت/مجاز اتھارٹی مجرم افسران کے خلاف کیا محکمانہ کارروائی کر تی ہے، مجوزہ سزاؤں کا جائزہ لینے کے بعد ہم مناسب احکامات پاس کریں گے، عدالتی احکامات کے مطابق مجوزہ محکمانہ کارروائی دو ماہ کے اندر کی جائے گی
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کے احکامات پر تعمیل کی رپورٹ آئندہ تاریخ یا اس سے قبل عدالت کو پیش کی جائے گی، حکم میں ایس پی ایس سی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دو ماہ کے سی سی ای-2020 اندر کے امتحانات نئے سرے سے منعقد کرائے
افسر تفویض نے اپنی رپورٹ میں جمع کرایا کیونکہ اس کی غیر موجودگی میں ایس پی ایس سی کے متعلقہ عہدیداروں نے جوابی شیٹوں کو ڈی کوڈ کیا جو نقلوں کے نمبروں میں ہیرا پھیری کرنے کے لیے مہر لگا دی گئی تھیں جو مبینہ طور پر امتحان دہندگان کو بھیجی گئی تھیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے نمبر دینا کہ وہ انتخاب کے لیے زیادہ نمبر حاصل کریں
متعلقہ افسر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس نے انتخابی عمل اور نتائج کی تیار کے عمل میں کچھ بے ضابطگیاں نوٹ کیں جیسا کہ ایس پی ایس سی کے عہدیداروں کی جانب سے ایک امیدوار کو 98 اضافی نمبر دیئے گئے اور ایک امیدوار کو 78 نمبر اور دیگر کو 40 اضافی نمبر دیے گئے
انہوں نے کہا کہ امتحانی کاپیاں، جوابی پرچے اور دیگر صفحات واضح طور پر نمبروں میں چھیڑ چھاڑ کو ظاہر کرتے ہیں۔