دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی سیاست

عبدالباسط خان

پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی سیاست پیچیدہ اور دلچسپ ہے

کبھی کبھار خطے میں ایسے پرتشدد واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی اور بسا اوقات دو سے زیادہ گروہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں

یہاں ایسی بھی مثالیں ہیں، جہاں ایک دھڑا حملے کی ذمہ داری کا دعویٰ کرتا ہے تو دوسری طرف اس گروہ کے مرکزی ذمہ داران اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں

19 فروری کو پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم مولانا اعجاز احمد حقانی کو پشاور کے مضافات میں قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی ذمہ داری کسی بھی گروہ کی طرف سے سامنے نہیں آئی

اسی طرح ماضی کی دو قلیل المدتی جنگ بندیوں یعنی نومبر 2021 اور جون – نومبر 2022 کے دوران اس طرح کے واقعات دیکھے گئے جب خودکش حملوں سمیت متعدد پرتشدد واقعات کی ذمہ داریوں کی قبولیت سامنے نہیں آئی

جیسا کہ نومبر 2022 میں جنوبی وزیرستان میں امن کمیٹی کے ایک رکن کو دیسی ساختہ بم حملے میں نشانہ بنایا گیا، جس کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی

مئی 2020 میں کابل کے ایک ہسپتال میں شدید فائرنگ اور بم حملوں کی ذمہ داری بھی کسی گروہ کی جانب سے سامنے نہیں آئی

البتہ افغان حکومت اور امریکہ نے داعش خراسان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا

ایک ہی گروپ کے اندر قبول کرنے اور نہ کرنے کی مثالیں بھی ہیں۔ اس تناظر میں جنوری 2023 میں پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والا ایک خودکش بم دھماکہ اہم ہے، جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مہمند دھڑے نے، جسے جماعت الاحرار (جے یو اے) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا یہ حملہ گذشتہ سال سات اگست کو افغانستان میں اس کے رہنما عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے ہے

تاہم ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے اسے اپنے گروہ کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حملے میں ملوث ہونے سے دوری اختیار کی

ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جہاں ایک سے زیادہ گروہوں نے ایک ہی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہو۔ دسمبر 2020 میں اسلامک سٹیٹ آف پاکستان صوبہ (ISPP) اور TTP دونوں نے راولپنڈی میں ایک بم حملے کی ذمہ داری قبول کی

2022 میں ہونے والے ایک اور واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے متعلق دونوں تنظیموں نے دعوے کیے

اکتوبر 2022 میں، TTP اور ISPP دونوں نے کراچی میں ہلاک ہونے والے دو جنگجؤں کے حوالے سے بیان جاری کرتے اپنی اپنی تنظیموں سے تعلق کا دعویٰ کیا

یہاں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جب دہشت گرد گروہ بعض حملوں کا دعویٰ کرنے کے بعد اپنے بیانات کے حوالوں سے ہچکہچاہٹ کا شکار نظر آئے

مثال کے طور پر 21 اپریل، 2021 کو کوئٹہ میں موجود چین کے سفیر نونگ رونگ پر سرینا ہوٹل میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں بال بال بچ گئے

ابتدائی طور پر بیان جاری کرتے ہوئے ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا اصل ہدف غیرملکی تھے

تاہم بعد میں ٹی ٹی پی نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ اس حملے کا اصل ہدف نونگ کو قرار دیا جاتا رہا ہے اور کہا جاتا رہا کہ ٹی ٹی پی نے چین کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا ہے

لیکن اپنے ابتدائی دعوؤں کے نتائج کو جانچنے کے بعد پاکستان فوج اور چین کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف سخت ردعمل سے بچنے کے لیے ٹی ٹی پی نے ایک جوابی بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ چینی سفیر ہدف نہیں تھے

2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بچوں کے قتل عام کے بعد ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی

تاہم گذشتہ سال اس کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود نے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس قتل عام کے اصل مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا

پاکستان اور افغانستان میں بعض حملوں کا دعویٰ قبول نہ کرنے کی سیاست کے پیچھے تین محرکات ہیں

سب سے اہم عنصر دہشت گردانہ حملے اور گروپ کے سٹریٹجک مقاصد کے درمیان ہیں اگر یہ حملہ کسی دہشت گرد گروپ کے مقاصد کے مطابق نہیں تو وہ اس کا دعویٰ نہیں کرتے

ٹی ٹی پی نے پشاور میں پولیس لائنز مسجد میں خودکش حملے سے خود کو دور کرتے ہوئے اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا ٹی ٹی پی اپنے جنگجوؤں کو مساجد میں حملے کرنے سے منع کرتی ہے۔ اس کے باوجود کہ ہدف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جبکہ اس کے برعکس داعش خراسان مساجد میں اپنے اہداف کو نشانہ بناتی رہی ہیں

دوسرا عنصر دہشت گرد گروپوں میں غیر ارادی نتائج کے سبب سخت ردعمل کا خوف ہے جیسا کہ کوئٹہ میں سرینا ہوٹل پر حملے میں ٹی ٹی پی کی اپنی جاری بیان سے پسپائی تھی

تیسرا اور آخری عنصر، جو دہشت گرد گروہوں کا اپنے کارروائیوں سے دوری واضع کرتا ہے وہ اصولی عنصر ہے

افغان یا پاکستانی طالبان کو ان کے مرکزی ڈھانچے کے ساتھ نیٹ ورکس کے ساتھ نیٹ ورک کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے

ایک غیر مرکزی گروپ میں ہر دھڑا زیادہ سے زیادہ خود مختاری سے اپنے اہداف کا انتخاب کرتا ہے

بعض اوقات کسی گروپ کی مرکزی قیادت اور اس کے دھڑوں کے درمیان رابطے کی کمی بھی ہو سکتی ہے

تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر جڑے دھڑے سٹریٹجک مقصد سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیع دیتے ہیں

اور جس سے وہ ہٹ مین بن جاتے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جیسے اغوا برائے تاوان یا رقم لے کر قتل کرنے کے حوالے سے ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی گروپ کے دھڑے ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے جو کسی گروپ کے دائرہ کار سے باہر ہو یا جن کو مرکزی رہنماؤں کی منظوری حاصل نہ ہو اور جن کی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی

اس کے برعکس ٹی ٹی پی اور داعش پاکستان جیسے دو گروہوں کے ایک ہی حملے کے متعدد دعوے موقع پرستی کو ظاہر کرتے ہیں

زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے گروہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں ہوتے

ایسی صورتوں میں عسکریت پسند ایک سے زیادہ گروہوں کے لیے فری لانس شدت پسندوں کے طور پر کام کرتے ہیں اور ان کے ذریعے کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں متعدد ذمہ داری کے دعوے کیے جاتے ہیں

ممکنہ طور پر راولپنڈی میں زیر بحث حملوں کا دعویٰ TTP اور ISPP دونوں نے کیا ہے اور ساتھ ہی کراچی میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں سے متعلق بیانات ایک سے زیادہ تنظیموں سے متعلق تعلق رکھنے کا نتیجہ ہو سکتے ہیں

پاکستان اور افغانستان کے خطے میں دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی سیاست اس کے منظر نامے کی پیچیدگی، وسیع اور ہمیشہ سے ابھرتی ہوئی نوعیتوں اور دہشت گرد گروہوں کی موقع پرستانہ رویے کے بارے میں ہماری علم میں اضافہ کرتے ہیں

یہ نہ صرف بیان کردہ نظریاتی مقاصد کے حصول کے لیے عسکریت پسندانہ مہمات میں مصروف ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ کرائے کے قاتلوں کے طور پر مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں

آخر میں، یہ پاکستانی اور افغان طالبان جیسے بڑے پیمانے پر شدت پسند نیٹ ورکس کے سرکردہ رہنماؤں اور جنگجوؤں کے درمیان رابطے کی دوری کو بھی واضع کرتا ہے

ان کا اگر صحیح سے تجزیہ کیا جائے تو دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی واضع کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

نوٹ: مصنف سنگاپور میں بطور محقق کام کرتے ہیں۔ ان کی یہ تحریر انڈپینڈنٹ کے شکریے کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close