2030 سے کاریں بیکنگ پاؤڈر سے چلیں گی، ہوائی جہاز کھاد سے اڑیں گے!

ویب ڈیسک

آج ہم جن گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر پٹرول اور ڈیزل سے چلتی ہیں۔ الیکٹرک گاڑیاں پیٹرول-ڈیزل گاڑیوں کا متبادل بن رہی ہیں، جو لیتھیم آئن بیٹریوں سے طاقت حاصل کرتی ہیں۔ لیکن مستقبل میں کاریں بیکنگ پاؤڈر پر بھی چلیں گی! اور ہوائی جہاز کھاد سے بنے ایندھن سے اڑیں گے! یہ ایک ایسا تخیل ہے، جو کسی کو بھی حیران کر سکتا ہے۔ لیکن آکسفورڈ کے ایک ماہر کے مطابق یہ سب کچھ ایک دن حقیقت بن سکتا ہے

فی الحال لیتھیم آئین بیٹریوں کو پائیدار توانائی کی جانب منتقلی کے عمل میں اہم کردار قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بیٹریاں ٹیسلا، آئی فونز اور بغیر تار والی ڈرل مشینوں جیسے برقی آلات میں استعمال کی جارہی ہیں

جہاں متعدد کمپنیوں کا ماننا ہے کہ ہائیڈروجن سے حاصل کی جانے والی توانائی ایوی ایشن کا ماحول دوست مستقبل ہے

ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق لیتھیم آئن بیٹریاں موجودہ دور میں آٹو سیکٹر میں بڑی تبدیلی لا رہی ہیں۔ ان بیٹریوں کا استعمال بہت سے دوسرے شعبوں میں بھی انقلاب لا رہا ہے۔ ساتھ ہی، کچھ کمپنیوں کو لگتا ہے کہ ہوابازی کے شعبے میں ہائیڈروجن پاور ایک بہتر آپشن بن سکتا ہے۔ تاہم آکسفورڈ یونیورسٹی میں آرگینک (غیر نامیاتی) کیمسٹری کے پروفیسر بل ڈیوڈ کی رائے مختلف ہے

پروفیسر بِل ڈیوڈ کا خیال ہے کہ عموماً کچن میں استعمال ہونے والا بیکنگ پاؤڈر لیتھیم آئن بیٹریوں اور ہائیڈروجن ایندھن پر بازی لے جائے گا

ان کا خیال ہے کہ ’بیکنگ پاؤڈر‘ اور ’فرٹیلائزر‘ مستقبل کی نقل و حمل میں اہم کردار ادا کریں گے، حالانکہ ان کا براہ راست استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ڈیوڈ نے پیش گوئی کی ہے کہ نمک، سمندری پانی اور بیکنگ پاؤڈر میں پایا جانے والا سوڈیم مستقبل کی کاروں اور گیجٹس میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کا ایک بڑا جزو بن جائے گا۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ سوڈیم کی دستیابی لیتھیم کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں یہ عنصر لیتھیم کی نسبت انتہائی بڑی مقدار میں دستیاب ہے جبکہ کان کنی کے ذریعے حاصل کیا جانے والے لیتھیم کا حصول وقت کے ساتھ دشوار ہوتا جا رہا ہے

پروفیسر ڈیوڈ کا اندازہ اس لیے اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے، جس نے 1980 کی دہائی میں لیتھیم بیٹری ایجاد کی تھی۔ ڈیلی میل رپورٹس کے مطابق ڈیوڈ نے یہ پیشن گوئی واشنگٹن ڈی سی میں کی، جہاں وہ امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچے تھے

انہوں نے کہا کہ ہمیں لیتھیم اور سوڈیم دونوں کی ضرورت ہے۔ سال 2030 تک زیادہ تر الیکٹرک کاروں میں لیتھیم اور سوڈیم سے بنی بیٹریاں استعمال کی جائیں گی۔ یہ فرق بڑھے گا اور سال 2040 تک سوڈیم بیٹریوں کا استعمال لیتھیم کے مقابلے میں دس سے سو گنا زیادہ ہو سکتا ہے

انہوں نے کہا کہ سوڈیم لیتھیم بیٹریوں کے مقابلے کم اور زیادہ درجہ حرارت پر بہتر کام کرتا ہے۔ یہ بیٹریاں آسانی سے ری سائیکل کی جا سکتی ہیں اور سستی بھی ہیں

دوسری جانب جہاں ایوی ایشن کمپنیوں کا یہ خیال ہے کہ ہائیڈروجن توانائی اس شعبے کا ماحول دوست مستقبل ہے، جبکہ ہوائی سفر کے بارے میں ڈیوڈ کی منطق قدرے مختلف ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ کا خیال ہے کہ کھاد میں پایا جانے والا امونیا ہوائی جہاز میں ایندھن کا مستقل اور پائیدار حل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close