نظریہ اور سلطنت کا زوال

ڈاکٹر مبارک علی

نظریہ سلطنت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قوم میں ایک نیا جذبہ اور توانائی پیدا کرتا ہے اور جب اس کی سچائی پر یقین ہو تو لوگ اس کے لیے قربانی بھی دینے پر تیار ہو جاتے ہیں

نظریے کے ابتدائی دور میں قوم جارحانہ انداز میں آگے کی جانب بڑھتی ہے اور ہر مخالفت کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ لیکن جب سلطنت عروج پر پہنچ جائے تو نظریے کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر قسم کی سیاسی اور سماجی پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ اس پر تنقید کرنے والوں کو دشمن سمجھا جاتا ہے اور انہیں قید و بند کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ نظریے میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے اس لئے نئے خیالات و افکار کو روکا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ آہستہ آہستہ ذہنی طور پر تنگ نظر ہوتا جاتا ہے اور اپنی ہی دنیا میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے

اس کی مثال پندرھویں صدی کی ہسپانوی سلطنت ہے۔ جب فرڈینینڈ اور ایذبیلا شادی کے ذریع متحد ہوئے تو انہوں نے عیسائی مذہب کو اپنی سلطنت کا نظریہ قرار دیا ۔ مذہبی جوش و جذبے کی وجہ سے ان کے یہ عزائم تھے کہ اسپین کو مکمل عیسائی بنا لیا جائے۔ اس کی تکمیل اس وقت ہوئی جب 1492ء میں مسلمانوں کی آخری سلطنت غرناطہ کو فتح کر کے اسپین سے مسلمانوں کو نکال دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو بھی جلاوطن کر دیا گیا۔ صرف ان لوگوں کو چھوڑ دیا گیا جنہوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ مذہب کے اثرورسوخ کی وجہ سے اسپین میں چرچ طاقتور ہو گیا اور چرچ کی جانب سے انکلوژیشن کا محکمہ قیام کیا گیا تاکہ وہ ان افرادپر مقدمہ چلائیں جن پر شبہ ہو کہ انہوں نے سچے دل سے عیسائیت قبول نہیں کی اور خفیہ طور پر وہ اسلام اور یہودیت پر ایمان رکھتے ہیں

ذرا سے شبے پر ان پر مقدمہ چلایا جاتا تھا اور ان کی جائیداد ضبط کر لی جاتی تھی۔ ان کے پادریوں نے عربی کی کتابیں اکٹھی کر کے انہیں شہر کے چوک پر جلایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسپین کا معاشرہ مذہبی تعصب میں گھر کر رہ گیا اور اس کی رواداری کی روایت کا خاتمہ ہو گیا

چرچ کے طاقتور ہونے کی وجہ سے راہبوں اور پادریوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ سلطنت کی جانب سے ان کے لیے خانقاہیں تعمیر کی گئیں۔ جہاں یہ عبادت کے لیے رہتے تھے۔ خانقاہوں کے اخراجات حکومت کی جانب سے ادا کیے جاتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ راہبوں کا یہ طبقہ پیداواری عمل میں کوئی حصہ نہیں لیتا تھا۔ بلکہ معاشرے پر بوجھ بنتا چلا گیا

1492ء ہی میں اسپین کی حکومت میں کولمبس کو نئے تجارتی راستے دریافت کرنے کے لیے بھیجا۔ اس نے غلطی سے امریکہ دریافت کر لیا۔ امریکہ کی دریافت کا اسپین کی سلطنت پر گہرا اثر ہوا۔ جنوبی امریکہ کے ممالک پر اس نے سیاسی تسلط حاصل کر لیا۔ لیکن سیاست کے ساتھ ساتھ مذہبی نظریے نے جنوبی امریکہ کی تاریخ کو بدل ڈالا۔ عیسائی مبلغین وہاں پر گئے اور مقامی لوگوں کو عیسائی بنانا شروع کیا۔ اس نے اسپین کی سلطنت کو بے حد وسعت دی اور وہ یورپ کا سب سے زیادہ طاقتور ملک بن گیا

1517ء میں جب لوتھر نے پوپ کو چیلنج کیا اور اس کے بعد پروٹسٹنٹ فرقے کی ابتداء ہوئی تو عیسائی دنیا دو حصوں میں بٹ گئی۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ، اسپین نے کیتھولک مذہب کے دفاع کے لیے پروٹسٹنٹ ملکوں سے جنگیں شروع کیں۔ پروٹسٹنٹ اصلاحات کے خلاف جب جوابی کیتھولک تحریک چلی تو اس کی سرپرستی بھی اسپین نے کی۔ کیونکہ اسپین کی سلطنت آسٹریا، ہنگری، نیدر لینڈز میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے اس نے پروٹسٹنٹ ملکوں کو شکست دینے کا عہد کیا۔ جب نیدرلینڈز میں آزادی کی تحریک چلی تو اسپین نے 1568-1648ء تک جنگیں کر کے نیدر لینڈز کو کچلنے کی کوششیں کیں اور لوگوں کو سخت سزائیں دیں۔ مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی

انگلستان جو پروٹسٹنٹ ہو گیا تھا۔ اسپین نے اس کے خلاف 1588ء میں Armada بھیجا جو فوجی لحاظ سے بڑا طاقتور تھا۔ لیکن یہ انگلستان کے قریب ہی سمندری طوفان کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گیا۔ انگلستان مضبوط رہا اور پروٹسٹنٹ فرقے پر قائم رہا

کیتھولک نظریے کی حمایت میں مسلسل جنگوں کی وجہ سے فوجی اخراجات بڑھتے چلے گئے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جنوبی امریکہ کی سونے اور چاندی کی کانوں سے معدنیات حاصل کی گئیں اور ان سے جنگ کے اخراجات پورے کیے گئے مسلسل جنگوں کی وجہ سے اسپین کے معاشرے میں اور کوئی ترقی نہیں ہوئی بلکہ جنگوں کی وجہ سے نوجوان فوجی مارے گئے جس کا اثر معاشرے کے خاندانی حالات پر ہوا

اسپین کی سلطنت میں اس وقت بھی کمزوری آئی جب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں جنوبی امریکہ ہجرت کر گئی۔ ان میں عیسائی مشنری بھی تھے جو مقامی باشندوں کو عیسائی بنانا چاہتے تھے۔ لہٰذا جنوبی امریکہ میں بھی مذہبی تعصب اور تشدد نے ترقی کے تمام راستوں کو بند کر دیا

مؤرخ اس کے حامی ہیں کہ اسپین نے جب مسلمانوں اور یہودیوں کو نکالا تو اس کے ساتھ ہی ان میں جو علم و دانش اور ہنر مندی تھی اُس کا خاتمہ ہو گیا۔ انہوں نے جنوبی اسپین کے علاقے میں زراعت کے ذریعے خوشحالی لائی تھی۔ صنعت و حرفت میں ترقی لائی۔ اس کا خاتمہ ہو گیا اور اسپین کی سلطنت پسماندہ ہو گئی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close