پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کو ملک سے ٹکٹ خریدنا مہنگا پڑنے لگا ہے۔ غیر ملکی ایئر لائنز نے اکانومی کلاس میں بکنگ کے آپشنز محدود کر دیے ہیں، جبکہ آن لائن بکنگ اور ایجنٹس کے ذریعے ٹکٹ خریدنے میں پچیس سے تیس فی صد کا نمایاں فرق پڑ رہا ہے
ٹریول ایجنٹ ایسوسی ایشن (ٹاپ) کا کہنا ہے کہ غیرملکی ایئرلائنز کو ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے پاکستان سے ایجنٹس کے ٹکٹ بکنگ کے نہ صرف آپشنز کم کر دیے ہیں، بلکہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ٹکٹ ایجنٹ کو سسٹم پر دیے گئے ریٹ سے بھی کم میں بک کیے جا رہے ہیں
اس حوالے سے کراچی کے رہائشی بلال احمد نے بتایا کہ انہوں نے کراچی سے امریکہ سفر کے لیے امریکن قونصل خانے میں جنوری میں وزٹ ویزا کی درخواست دی تھی۔ ویزا فارم کی شرائط کے مطابق انہوں نے ٹکٹ کی بکنگ سمیت دیگر لوازمات پورے کیے
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شارع فیصل پر واقع ایک ٹریول ایجنٹ سے نیو یارک کے لیے ٹکٹ بک کروانے کے لیے جب رابطہ کیا تو ایجنٹ نے اکانومی کلاس کے ٹکٹ کا ریٹ 1200 ڈالر بتایا
انہوں نے بتایا کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے انہوں نے ایک محدود بجٹ میں رہتے ہوئے یہ دورہ پلان کیا تھا۔ جس میں ٹکٹ کا اندازہ پانچ سے سات سو ڈالر تک لگایا تھا
بلال نے بتایا ”اس ضمن میں ایک دوست سے مشورہ کیا تو بتایا گیا کہ آن لائن ٹکٹ چیک کر لیں۔ اکثر آن لائن اچھی ڈیل مل جاتی ہے۔ جب کافی دیر تک مختلف ایئرلائنز کو چیک کیا تو پتہ چلا کہ ایجنٹ کے بتائے پیسوں اور آن لائن بکنگ میں اڑھائی سو سے تین سو ڈالر تک کا فرق آ رہا تھا“
کراچی میں چار دہائیوں سے ٹریول ایجنسی چلانے والے محمد شجاع نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ آن لائن ٹکٹ بک کروانے اور ایجنٹ کے ذریعے ٹکٹ خریدنے میں قیمت کا واضح فرق اب نظر آنے لگا ہے۔ اس لیے لوگ اب کوشش کر رہے ہیں کہ یا تو بیرونِ ممالک سے ٹکٹ بک کروائیں یا پھر خود ہی آن لائن ٹکٹ بک کرا لیں
انہوں نے بتایا ”آن لائن بکنگ کے علاوہ لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ بیرون ممالک سے ٹکٹ کی خریداری کریں۔ پاکستان سے باہر سے خریدے گئے ٹکٹ اور پاکستان سے خریدے گئے ٹکٹ میں بھی فرق بڑھ گیا ہے۔ امریکہ کے لیے جو ٹکٹ پاکستان سے گیارہ سو ڈالر میں بُک ہو رہا ہے، وہی ٹکٹ امریکہ سے ساڑھے آٹھ سو سے نو سو ڈالر تک میں بک ہو جاتا ہے“
ان کے بقول ”پاکستان میں کام کرنے والی بیشتر ایئرلائنز اب آن لائن ٹکٹ کی بکنگ کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ٹریول ایجنٹس کو ایک سسٹم کے تحت ٹکٹس کا کوٹہ ملتا ہے اور تمام ٹریول ایجنٹس اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ خریدار کو کم سے کم ریٹ میں اچھے سے اچھا ٹکٹ فراہم کریں لیکن کچھ ماہ سے بیشتر ایئرلائنز نے سسٹم سے اکانومی کیٹیگری کے سستے ٹکٹ فروخت کرنے بند کر دیے ہیں۔ جس کی وجہ سے مسافروں کو ایجنٹ سستے ٹکٹ فراہم نہیں کر پا رہے ہیں“
کراچی میں ایک غیر ملکی ایئرلائن کے بکنگ ڈپارنمنٹ کے سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ پاکستان سے بیشتر ایئر لائنز اب ڈائریکٹ بکنگ کو ترجیح دے رہی ہیں، لیکن اس کی کئی وجوہات ہیں
انہوں نے کہا ”پاکستان سے غیر ملکی ایئر لائنز کو ادائیگیاں نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ضرور ہے لیکن دنیا بھر میں اب آن لائن ٹکٹ بکنگ کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہی عمل پاکستان میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے“
ان کا کہنا ہے کہ یہ عام سی بات ہے کہ خریدار خود اگر نقد پیسے دے کر کوئی چیز خریدے گا تو فروخت کرنے والا اسے زیادہ سہولت دے گا۔ یہی اس وقت پاکستان کی ٹریول انڈسٹری کی صورت حال ہے۔ ایئر لائنز نے ٹکٹ بیچنا ہے اور طے شدہ فارمولے کے مطابق بیچنا ہے۔ اب اگر ڈالر کا ریٹ پاکستان میں بڑھے گا تو لازمی سی بات ہے کہ روپے میں ادائیگی کرنے والوں کو مہنگا ہی پڑے گا
انہوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایجنٹس کو مہنگے ٹکٹ بیچے جا رہے ہیں یا پھر سستے ٹکٹ کا آپشن اب پاکستان سے ختم کر دیا گیا ہے
دوسری جانب ٹریول ایجنٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان (ٹاپ) کے ایگزیکٹیو کمیٹی ممبر محمد ندیم شریف کا کہنا ہے ”حکومت کی غلط پالیسوں کا نقصان ٹریول کی صنعت کو ہو رہا ہے۔ ایجنٹس کی جانب سے ٹکٹ کی مد میں ادائیگیوں کے باوجود حکومت پاکستان نے غیرملکی ایئر لائنز کو ادائیگیاں نہیں کی ہیں۔“
محمد ندیم نے بتایا کہ ”اب تک 225 ملین ڈالر سے زائد کی رقم کی ادائیگی غیر ملکی ایئر لائنز کو نہیں کی گئی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ایک جانب روپے کی قدر میں کمی سے ٹکٹ مہنگا ہو رہا ہے تو دوسری جانب ٹکٹ کی بکنگ میں آپشنز کم ہونے کی وجہ سے ایجنٹ مجبوراً مہنگا ٹکٹ بنا رہا ہے اور خریدار آن لائن ریٹ چیک کرنے کے بعد ٹکٹ کی بکنگ کینسل کر رہے ہیں“
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر نہیں دیکھا گیا تو ٹریول کی صنعت سے وابستہ پچھتر ہزار افراد برائے راست متاثر ہوں گے۔ اس شعبے میں کام کرنے والے بے روزگار ہوں گے اور ان کے گھروں میں فاقے ہوں گے
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر نے ٹریول ایجنٹس کے مؤقف کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ قبل کچھ ایسے معاملات سامنے آئے تھے کہ کئی شعبوں کی ادائیگیاں نہیں کی گئیں لیکن اس کے بعد مرکزی بینک نے ایک پالیسی جاری کر دی تھی جس کے تحت کوئی بھی نجی بینک اپنے طور پر ڈالر کا انتظام کر کے بیرونی ممالک میں ادائیگیاں کر سکتا ہے
غیرملکی ایئرلائنز کو ادائیگیوں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک شعبے یا کیس کا انہیں علم نہیں مرکزی بینک کی پالیسی تمام شعبوں کے لیے یکساں ہوتی ہے۔