جرنیلوں کی ملازمت میں توسیع کے وزیراعظم کے اختیار پر سوال

ویب ڈیسک

پاکستانی وزیراعظم کے پاس آرمی، نیوی، ائیر فورس اور چیرمین جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف کمیٹی کی ملازمتوں میں توسیع دینے اور ان کی دوبارہ تقرریان کرنے کے اختیارات کے خلاف ملک کے ایوان بالا میں جمع کرائے گئے تین بلوں کو قانونی ماہرین نے مثبت قرار دیا ہے

ریٹائر ہونے والے سروسز چیفس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے وزیر اعظم کے اختیارات واپس لینے کے لیے تین علیحدہ علیحدہ بل، پاکستان آرمی (ترمیمی) بل، پاکستان ایئر فورس (ترمیمی) بل اور پاکستان نیوی (ترمیمی) بل سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرائے گئے ہیں

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے موجودہ قوانین میں ترامیم لانے کے لیے علیحدہ علیحدہ نوٹس سیکریٹری سینیٹ کے دفتر میں جمع کرائے ہیں

ان بلوں میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آرمی چیف، نیوی چیف، ائیر فورس چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمتوں میں توسیع کرے یا ان کی دوبارہ سے تقریری کرے

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت وزیراعظم کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ مذکورہ بالا افسران کی ملازمتوں میں توسیع کریں یا ان کی دوبارہ تقریری کریں

فوجی قوانین سے واقفیت رکھنے والے معروف قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کہتے ہیں ”یہ تینوں بل انتہائی مثبت ہیں اور اس سے کرپشن کا راستہ رکے گا۔“

انہوں نے کہا ”آرمی ایکٹ کے اصل قوانین میں ملازمت میں توسیع یا دوبارہ سے تقرری کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ حکومت نے ریگولیشنز کے ذریعے ماضی میں توسیع کرنے کی کوشش کی، تو سپریم کورٹ نے یہ سوال کیا کہ ریگولیشنز کسی شق کی تحت ہوتے ہیں۔ تو پھر دو ہزار بیس میں پارلیمنٹ نے اس میں ترمیم کی تھی‘‘

کرنل انعام رحیم کہتے ہیں ”مشتاق احمد نے یہ تین بل جمع کرا کر اختیار کو ختم کرنے کی بات کی ہے، جو بہت اچھا کام ہے۔ کیونکہ سیاستدانوں آرمی چیف کو توسیع دینے کے بعد ان سے اپنے کرپشن کے مقدمات ختم کراتے ہیں اور اس سے میرٹ کا قتل ہوتا ہے‘‘

انعام رحیم کا کہنا ہے کہ اس طرح کی توسیع صرف حالتِ جنگ میں دی جا سکتی ہے۔ دنیا کی کسی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا کہ فوجی افسران کو ملازمت میں توسیع دی جائے یا ان کی دوبارہ سے تقرری کی جائے‘‘

نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں نہ صرف فوجی افسران کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے بلکہ کسی بھی سرکاری ملازم اور افسر کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونا چاہیے

انہوں نے کہا ”جب سیاستدان اس طرح کی توثیق کرتے ہیں، تو وہ فوجی افسران ان کے احسان تلے دب جاتے ہیں، جس سے کرپشن کے راستے کھلتے ہیں۔ لہٰذا یہ سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے۔ لیکن پیپلز پارٹی اور نون لیگ طاقتور حلقوں کو خوش کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور ان کے مفادات ان سے وابستہ ہیں۔ تو وہ کسی صورت میں اس بل کی حمایت نہیں کریں گے جبکہ جماعت اسلامی کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی اکثریت حاصل نہیں ہے‘‘

جب ان بلوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ سے ان کی رائے جاننے کے لیے سوال کیا گیا تو انہوں نے ”میں نے ان مجوزہ بلوں کو نہیں پڑھا، اس لیے میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔“ کہہ کر جان چھڑا لی

یاد رہے کہ جنوری 2020 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں مجوزہ توسیع میں رکاوٹوں کے بعد پارلیمنٹ نے 3 بلوں کی منظوری دی تھی، جس میں مسلح افواج کے سربراہان کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی گئی تھی، اس سے وزیراعظم کو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار مل گیا تھا

پاکستان آرمی (ترمیمی) بل قانون میں سیکشن 8-بی اور 8-ای کو ختم کرکے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرنے کے لیے ہے، اسی طرح پاکستان ائیر فورس (ترمیمی) بل اور پاکستان نیوی (ترمیمی) بل بالترتیب پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1953 اور پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 میں مختلف سیکشنز کو ترمیم کے ذریعے ختم کرنے کے لیے ہے

پاکستان آرمی (ترمیمی) بل کے ’اعتراضات اور وجوہات‘ کے سیکشن میں کہا گیا ہے کہ سال 2020 میں پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت میں توسیع کی دفعات ڈال دی گئیں، پاکستان آرمی کی قیادت میں میرٹ کی بنیاد پر ترقی و تعیناتی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ترمیمی بل میں ان دونوں عہدوں پر مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے متعلق دفعات کو نظر انداز کرنے کی تجویز دی گئی ہے’

اس میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لیے پاک فوج کی خدمات اور قربانیوں کے جذبے کو بھی اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاک فوج کی بدولت ہم سرحدوں کے اندر محفوظ محسوس کرتے ہیں جس نے ہمیشہ روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کی پوری کوشش کی ہے‘

دیگر دو بلوں کے ’اعتراضات اور وجوہات‘ کے سیکشن میں کہا گیا ہے کہ ’2020 میں پاکستان ایئر فورس ایکٹ اور پاکستان نیوی آرڈیننس میں ایئر اور نیول چیفس کےعہدوں پر دوبارہ تعیناتی یا توسیع کے لیے ترمیم کی گئی تھی، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کی قیادت میں میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی اور ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان دونوں عہدوں پر توسیع اور دوبارہ تعیناتی سے متعلق دفعات خارج کرنے کی تجویز کی جاتی ہے‘

واضح رہے کہ 28 نومبر کو جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے دو روز پہلے سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی توسیع کے احکامات کی معطلی کے بعد اس معاملے پر آئینی بحران موضوع بحث بن گیا تھا، یہ ملک کی عدالتی تاریخ کا پہلا ایسا کیس تھا، جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ماضی میں توسیع کا بھی جائزہ لیا گیا تھا

جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی تین سالہ مدت ختم ہونے سے تین ماہ قبل اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے علاقائی سلامتی کی صورتحال کی پیچیدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں تین برس کی توسیع دے دی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close