یہ اگست 2021 کی بات ہے، جب عراق جنگ لڑنے والے ایک سابق امریکی فوجی نے عراق میں امریکی حملے کو جھوٹ کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگ قرار دیتے ہوئے اپنے تمام اعزازات واپس کرنے کا اعلان کیا تھا
سابق فوجی کا کہنا تھا ”عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا، وہ سب جھوٹ تھا۔“
کسی سابق امریکی فوجی کی جانب سے ایسا اقدام پہلی بار نہیں اٹھایا گیا تھا، اس سے قبل 2012ع میں بھی عراق جنگ کے خاتمے پر جنگ میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے سروس میڈل واپس لوٹانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمغے، فیتے اور جھنڈے انسانوں کی بربادی کا مداوا نہیں کر سکتے
کہا جاتا ہے کہ سنہ 2001 کے اواخر میں برطانوی خفیہ ایجنسی ’ایم آئی سکس‘ کے ایک اعلیٰ افسران بھی اس وقت حیرت زدہ رہ گئے تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ امریکہ عراق پر حملہ کرنے کے لیے سنجیدہ ہے
یہ خبر جلد ہی برطانوی وزیر اعظم کے دفتر ’10 ڈاؤننگ اسٹریٹ‘ تک پہنچ گئی اور اسے پہنچانے والے سفارتکار نہیں، بلکہ خفیہ ایجنسیوں کے جاسوس تھے
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے اس وقت کے سربراہ سر رچرڈ ڈیئرلو کے بقول ”میں غالباً پہلا شخص تھا جس نے وزیر اعظم سے کہا کہ ’چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں، آپ تیاری پکڑ لیں کیونکہ ایسا لگتا ہے، جیسے وہ (امریکہ) حملے کی تیاری کر رہے ہیں“
امریکہ کے لیے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا مسئلہ ثانوی نوعیت کا تھا، کیونکہ اُن کا اصل ہدف عراقی صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا
اس بات کا ثبوت سی آئی اے کے عراق آپریشنز گروپ کے سربراہ لوئیس روئیڈا کی اس بات سے ملتا ہے، جس میں وہ کہتے ہیں ”اگر صدام حسین کے پاس ربڑ بینڈ اور پیپر کلپ بھی ہوتا، تب بھی ہم نے عراق پر یہ کہتے ہوئے حملہ کرنا تھا کہ صدام حسین اُن کی مدد سے آپ کی آنکھ نکال سکتے ہیں“
بعد کے حقائق نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ برطانیہ کی حکومت کے ان ہتھیاروں کے بارے میں دعوے من گھڑت تھے، لیکن اس وقت کے وزرا مُصر تھے کہ انہیں ان کے اپنے انٹیلیجنس اہلکاروں نے یقین دلایا تھا کہ ہتھیار موجود ہیں
سابق برطانوی وزیر اعظم سر ٹونی بلیئر کے بقول ’یہ سمجھنا واقعی اہم ہے کہ مجھے جو خفیہ معلومات حاصل ہو رہی تھیں میں ان پر انحصار کر رہا تھا، اور مجھے لگتا ہے کہ میں ان معلومات پر بھروسہ کرنے میں درست تھا“
انہوں نے کہا کہ عراق پر حملے کی شام کو انھوں نے جوائنٹ انٹیلیجنس کمیٹی سے اس متعلق یقین دہانیاں مانگی تھیں اور انھیں اس حوالے سے یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ وہ انٹیلیجنس سروسز کے غلط ہونے پر تنقید کو مسترد کرتے ہیں
تاہم باقی وزرا کا کہنا ہے کہ ان کے ذہنوں میں اس متعلق شکوک و شبہات تھے۔ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ جیک سٹرا کا کہنا ہے ”تین مواقعوں پر میں نے ایم آئی سکس کے سابق سربراہ سر رچرڈ ڈیئرلو سے اس خفیہ معلومات کے مستند ہونے اور ان کے ذرائع کے متعلق سوال کیا تھا۔ میں اس معلومات کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار تھا لیکن ہر مرتبہ مجھے ڈیئرلو نے یقین دلایا کہ یہ خفیہ معلومات دینے والے ایجنٹس قابل اعتماد ہیں“
اس سوال پر کہ کیا وہ عراق آپریشن کو انٹیلیجنس کی ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں، سر رچرڈ کا جواب سادہ تھا یعنی ’نہیں۔‘ حد تو یہ ہے کہ ان کا اب بھی یہ ماننا ہے کہ عراق کے پاس کسی قسم کا ہتھیاروں کا پروگرام تھا اور ’ہو سکتا ہے‘ کہ ان کو سرحد پار شام منتقل کیا گیا ہو
دوسرے اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ سر ڈیوڈ اومنڈ جو اس وقت برطانیہ کے سکیورٹی اور انٹیلیجنس کوآرڈینیٹر تھے کہتے ہیں ”متعصب معلومات کو حکومتی ماہرین ٹکڑوں میں سننے پر مجبور ہوئے جس نے اس خیال کی تائید کی کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے“
ایم آئی سکس کے چند افسران کا کہنا ہے کہ انہیں بھی اس متعلق خدشات تھے۔ ایک افسر، جس نے عراق پر کام کیا تھا اور جنہوں نے اس سے پہلے کبھی کوئی بات نہیں کی ہے اور اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے، کا کہنا ہے ”اس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ ہم جو کر رہے تھے، وہ غلط تھا“
سنہ 2002ع کے اوائل کے عرصے کے متعلق بات کرتے ہوئے سابق افسر کا کہنا تھا ”ہمارے پاس اس متعلق کوئی نئی اور مصدقہ خفیہ اطلاع یا تخمینہ نہیں تھا، جس سے یہ ظاہر ہو سکتا کہ عراق نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام پر کام دوبارہ شروع کر دیا ہے اور یہ کہ اس سے خطرہ لاحق تھا“
ان کا کہنا ہے ”میرے خیال میں حکومتی نقطہ نظر سے یہ وہ واحد چیز تھی جسے وہ ڈھونڈ سکے تھے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہی وہ واحد چیز تھی، جس کا وہ قانونی طور پر سہارا لے سکتے تھے“
ایم آئی سکس کے ایک اور اہلکار ایک پیغام کو ڈی کوڈ کرنے کے بارے میں یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس میں کہا گیا تھا کہ انٹیلیجنس سروس کے لیے برطانوی عوام کو (عراق میں) کارروائی کے لیے قائل کرنے سے زیادہ کوئی ’اہم کردار‘ نہیں تھا
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں سوالات اٹھائے گئے کہ کیا یہ درست ہے اور اس پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا گیا
12 ستمبر کو سر رچرڈ ایک اہم نئے ذریعے کی خبر کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پہنچے۔ اس شخص نے دعویٰ کیا کہ عراقی صدر صدام حسین کے پروگرام دوبارہ شروع کیے جا رہے تھے اور جلد ہی اس بارے میں نئی تفصیلات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا
اگرچہ خفیہ معلومات کا یہ ذریعہ مکمل جانچ پڑتال سے نہیں گزرا تھا اور ماہرین کے ساتھ اس کی معلومات کا اشتراک نہیں کیا گیا تھا، پھر بھی یہ تفصیلات برطانوی وزیر اعظم کے حوالے کر دی گئیں
انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ لیکن اگلے چند مہینوں میں، اس نئے ذریعہ نے کبھی کوئی معلومات شیئر نہیں کیں اور بالآخر سمجھا جاتا ہے کہ وہ انہیں اپنی طرف سے گھڑ رہا تھا
سنہ 2002 کے آخر تک اقوام متحدہ کے معائنہ کار ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ کی تلاش میں عراق واپس آ گئے تھے۔ ان میں سے کچھ معائنہ کار ان سائٹس کے معائنے کے بارے میں یاد کرتے ہوئے، جہاں مغرب کی طرف سے انٹیلیجنس معلومات نے تجویز کیا تھا کہ وہاں موبائل لیبارٹریاں ہو سکتی ہیں بتاتے ہیں ”وہاں ہمیں صرف مکڑی کے جالوں میں ڈھکے ہوئے ’بڑے آئس کریم ٹرک‘ ہی ملے تھے“
اس وقت تک عوام کو کچھ علم نہیں تھا اور جیسے جیسے جنگ قریب آ رہی تھی انٹیلیجنس کے ذرائع اس متعلق معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے تھے اور معائنہ کاروں کو بھی کوئی سراغ نہیں ملا تھا
ایک اندرونی ذرائع کے بیان کے مطابق عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے شواہد سے متعلق بڑھتے دباؤ کے پیش نظر برطانوی وزیر اعظم نے سنہ 2003 جنوری کو ’گبھرائے‘ ہوئے سر رچرڈ سے کہا کہ ”میرا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے“
سر رچرڈ اب یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”اس وقت یہ بہت مایوس کن تھا“ وہ تباہ کن ہتھیاروں کی عدم موجودگی کو تسلیم کرنے کی بجائے معائنہ کاروں پر کچھ نہ ڈھونڈ نکالنے پر ’نااہل‘ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں
لیکن پھر وہی ہوا، جیسا کہ سی آئی اے کے عراق آپریشنز گروپ کے سربراہ لوئیس روئیڈا نے کہا تھا ”اگر صدام حسین کے پاس ربڑ بینڈ اور پیپر کلپ بھی ہوتا، تب بھی ہم نے عراق پر یہ کہتے ہوئے حملہ کرنا تھا کہ صدام حسین اُن کی مدد سے آپ کی آنکھ نکال سکتے ہیں“ یوں ہتھیاروں کی عدم موجودگی کے باوجود مارچ 2003 میں امریکہ اور اتحادیوں نے عراق پر حملہ کر دیا
لیکن اس کے بعد عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کوئی ہتھیار نہیں ملے۔ ایم آئی سکس کے ایک سابق افسر نے جنگ کے بعد ادارتی سطح پر انٹیلیجنس ذرائع کے جائزے کو یاد کرتے ہوئے کہا ”یہ سب ناکام ہوا“ اور اس نے جاسوسوں اور سیاستدانوں دونوں کے لیے گہرے اور دیرپا نتائج چھوڑے
مارچ 2022 میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بی بی سی ریڈیو فور کو دیے گئے انٹرویو میں عراق اور افغانستان پر حملہ کرنے کے فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر درمیان میں لٹکتے ہوئے نظر آئے
یوکرین کے معاملے پر انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ یوکرین یورپ کی دہلیز پر ایک آزاد خود مختار ملک ہے، اس پر حملہ اور قبضہ بڑے پیمانے پر ہمارے مفادات کے خلاف ہے
لیکن سابق برطانوی وزیر اعظم نے کہا ”عراقی اور افغانستان کے معاملے پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میں نے غلط فیصلہ لیا۔ ہو سکتا ہے کہ میں غلط ہوں، لیکن میں نے اس وقت وہی کیا، جو درست لگا“
امریکی انٹیلیجنس کی بے بنیاد رپورٹ پر عراق پر حملہ کر کے لاکھوں عراقیوں کو خون میں نہلانے اور پورے عراق کو کھنڈر بنانے کے فیصلے کو درست کہنے والے مسٹر بلیئر نے یوکرین پر روسی حملے کی صبح ریکارڈ کیے گئے انٹرویو میں یوکرین کے تنازع پر بھی بات کی اور کہا ”یہ بڑے پیمانے پر ہمارے مفادات کے خلاف ہے کہ یورپ کی دہلیز پر ایک آزاد خود مختار ملک پر حملہ کیا جائے اور اس پر قبضہ کر لیا جائے“
لیکن مسٹر بلیئر نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کے اپنے فیصلوں کا دفاع کیا
ان کا کہنا تھا ”لوگ اکثر عراق یا افغانستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں نے غلط فیصلہ کیا لیکن آپ کو وہی کرنا پڑتا ہے، جو آپ کو صحیح لگتا ہے۔۔ آپ صحیح ہیں یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے۔ ان بڑے فیصلوں میں آپ کو واقعی نہیں معلوم ہوتا کہ (اس میں شامل) تمام عناصر کیا ہیں، اور آپ کو آخر کار اپنی جبلت کی پیروی کرنی ہوتی ہے“
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عراق اور افغانستان کے بارے میں ”غلط ہو سکتے ہیں“ لیکن انہوں نے اصرار کیا: ”مجھے وہی کرنا پڑا، جو میں نے صحیح سمجھا“
عراق پر حملہ اور ’’چلکوٹ کمیشن‘‘ کی رپورٹ
زندگی میں ایسے بہت سے موقع آتے ہیں جب انسان اپنی حیثیت اور اقتدار کی طاقت کو دیکھ کر بلا سوچے سمجھے وہ فیصلے کرجاتا ہے، جن کا خمیازہ لاکھوں لوگوں اور آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ گوکہ بعد میں ایسے لوگوں میں سے کچھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ سب کے سامنے اُس کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں، لیکن کچھ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے کیے پر قائم رہتے ہیں اور اُسے ہی صحیح گردانتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ ہوا
عراق کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر برطانیہ پر ویسے بھی شروع سے تنقید ہوتی رہی ہے، خاص طور پر برطانوی عوام اس فیصلے کو انتہائی غلط کہتے آئے ہیں
2016 میں اس حوالے سے قائم کمیشن کی رپورٹ نے تو ٹونی بلیئر اور اُن کے رفقا کی غلط پالیسیوں کا بھانڈا ہی پھوڑ دیا تھا
سر جان چلکوٹ Sir John Chilcot کی سربراہی میں قائم کمیشن نے جسے ’’چلکوٹ کمیشن ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، واضح کر دیا تھا کہ عراق کی جنگ میں برطانیہ کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا اور عراق پر حملے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے جو جواز پیش کیے تھے، وہ غلط تھے۔ واضح رہے کہ یہ چلکوٹ کمیشن 15 جون 2009ع کو اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے قائم کیا تھا، جس نے اپنی رپورٹ 6 جولائی 2016 کو جاری کی تھی
اس رپورٹ کے پہلے 2014 میں منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن کچھ قانونی رکاوٹوں اور امریکا سے تعلقات میں خرابی کے خطرے کے پیشِ نظر اس میں تاخیر ہوتی رہی۔ برطانوی دفترخارجہ نے عدالت میں ایک اپیل کی، جس کے تحت عراق پر حملے سے ایک روز قبل ٹونی بلیئر اور اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مندرجات رپورٹ میں شامل نہ کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا، کیونکہ برطانوی حکومت کے مطابق بلیئر اور بش کی گفتگو کے مندرجات سامنے آنے سے دونوں ممالک کے تعلقات خطرے میں پڑ سکتے تھے
چوبیس لاکھ سے زاید الفاظ پر مشتمل چلکوٹ رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں، انہی نکات نے ٹونی بلیئر کے عجلت میں کیے گئے فیصلوں، ہر بات میں واشنگٹن کی ہاں میں ہاں ملانے کی عادت اور غیرضروری ایڈونچر میں اپنے فوجیوں اور عراقی عوام کو جھونکنے کی خواہش کو واضح کر دیا
رپورٹ میں ٹونی بلیئر کی غلط فیصلہ سازی، منصوبہ بندی اور دوراندیشی کے فقدان اور جنگ کے اثرات سے نمٹنے میں ناکامی پر شدید تنقید کی گئی
چلکوٹ رپورٹ کے اہم نکات یہ تھے
٭ جس وقت عراق پر چڑھائی کا فیصلہ کیا گیا اُس وقت صدام حسین سے فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا
٭ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی بھی ایک بہانہ تھی
٭ ٹونی بلیئر نے عراق جنگ میں کودنے کے لیے بہت عجلت کا مظاہرہ کیا
٭ عراق کا مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جاسکتا تھا، لیکن امریکا اور برطانیہ نے جنگ و جدل کا راستہ اختیار کیا
٭ برطانیہ جو مقاصد لے کر عراق کی جنگ میں گیا تھا، وہ حاصل نہیں کیے جاسکے
٭ فوجی کارروائی آخری آپشن نہیں تھا، برطانیہ نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ تخفیف اسلحہ کے آپشن کو استعمال کرنے سے قبل ہی کرلیا تھا
٭ جنگ کے فیصلے نے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی ساکھ اور اتھارٹی کو بھی نقصان پہنچایا
٭ جنگ کے دوران وزارت دفاع کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ فوجیوں کے بچانے اور ان کی امداد کے لیے لاجسٹک سہولتوں کا فقدان رہا تو کہیں انٹیلیجنس کی ناکامی نے برطانوی فوجیوں کو وہ نقصان پہنچایا، جو صحیح حکمت عملی سے نہ ہوتا
٭ مختلف عراقی صوبوں میں عجلت میں فوجی آپریشن کیے گئے، منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے برطانوی فوجیوں کو کافی نقصان اٹھا پڑا
٭ امریکا کا ساتھ دینے کے لیے لارڈ گولڈ اسمتھ نے جو قانونی بنیاد پیش کی، وہ بھی اتنی ٹھیک نہیں تھی کہ اُس پر فوری عمل کیا جاتا
٭ بلیئر حکومت نے جنگ کے بعد بحالی کے کاموں کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں بنائی تھی ، ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے کیا گیا، وہ تعمیر نو کے لیے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں بھی ناکام رہی
سرجان چلکوٹ نے 2016 میں سامنے آنے والی اپنی رپورٹ میں برطانوی حکومت کو تجویز دی تھی کہ مستقبل میں جنگِ عراق کی غلطیاں دہرانے سے اجتناب کرے۔ ہر اہم معاملے میں مشاورت اور صلاح مشورہ ضروری ہوتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگِ عراق میں ایسا نہیں ہوا
رپورٹ میں برطانوی خفیہ ایجنسیوں پر بھی شدید تنقید کی گئی تھی کہ انہوں نے حکومت وقت کو صحیح معلومات نہیں دیں۔ وہ اس پر مصر رہیں کہ عراق میں مہلک ہتھیار ہیں اور صدام نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار حاصل کرلیے ہیں، جب کہ عراق جنگ کے بعد وہاں سے ایسے کوئی ہتھیار نہیں ملے۔ برطانیہ عراق کی جنگ میں شامل ہوکر بین الاقوامی قوانین کو توڑنے کا مجرم ہوا ہے
ٹونی بلیئر نے اس وقت بھی چلکوٹ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آج دنیا کی حالت بہت ”خراب“ ہوتی۔ ٹونی بلیئر نے اپنے اس ’’جنگی جرم‘‘ کے بہت سے جواز پیش کیے تھے۔ وہ اس بات پر ڈٹے رہے کہ ہم نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل صحیح تھا
جبکہ سابق نائب برطانوی وزیراعظم جان پریسکوٹ نے چلکوٹ رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے غلطی کا اعتراف کیا تھا اور ٹونی بلیئر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا
جان پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ بلیئر اراکین ِ کابینہ کو جنگِ عراق کے قانونی یا غیرقانونی ہونے پر بحث سے منع کرتے تھے. اب ہمیں زندگی بھر اس غلط فیصلے کے تحت وقت گزارنا ہوگا
برطانیہ کے سابق نائب وزیر اعظم جان پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی اس بات سے متفق ہیں کہ جنگ غیرقانونی تھی۔ ٹونی بلیئرکا جارج بش کو یہ پیغام کہ ’’چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم آپ کے ساتھ ہیں‘‘، انتہائی تباہ کن تھا، جس نے پوری دنیا پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔ جنگ کے جائز ہونے کے حوالے سے میرے خیالات بدل گئے ہیں، مجھے اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ نہیں ہونا چاہیے تھا
انہوں نے کہا تھا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو اب بھی اس جنگ پر کوئی پشیمانی نہیں۔ وہ اب بھی اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ میں نے جو کیا ٹھیک کیا۔ درجنوں برطانوی فوجی اس جنگ میں مارے گئے، معیشت کو شدید دھچکا لگا ، سیکڑوں فوجی زخمی بھی ہوئے، اس کے باوجود ایک سربراہ مملکت کا حقیقت سے انکار، حقیقتوں سے چشم پوشی اور اپنے غلط فیصلوں کو صحیح گرداننے کی روش برطانوی نظام حکومت پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے
پریسکوٹ کے مطابق برطانوی عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ ٹونی بلیئر عراق کی جنگ میں مرنے والے ڈیڑھ سو سے زاید برطانوی فوجیوں اور ڈیڑھ لاکھ سے زاید عراقی شہریوں کی ہلاکت کے خلاف فوج داری مقدمے کا سامنا کریں، کیونکہ یہ جو نقصان ہوا، وہ ٹونی بلیئر کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہی ہوا.