یورپ کا تاریک دور کتنا تاریک تھا؟

ڈاکٹر مبارک علی

اگرچہ تاریخ ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے مگر مورخین اس کو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں

عام طور پر تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: قدیم عہد، وسطیٰ اور جدید، لیکن ان تینوں کے درمیان زمانے کے فرق کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں میں تینوں ادوار کو مختلف انداز سے پیش کیا جاتا ہے

میسوپوٹامیہ، مصر اور یونان کی تہذیبوں میں قدیم عہد کی حیثیت تہذیبی برتری کی ہے۔ عہد وسطیٰ مسلمانوں کی تاریخ کا شاندار عہد ہے، جبکہ جدید تاریخ میں یورپ کی تہذیب سب سے آگے بڑھ گئی ہے

پندرہویں صدی تک یورپ کی تاریخ عہد وسطیٰ کے دائرے میں آتی ہے۔ اس میں چرچ کا بےانتہا غلبہ تھا۔ اس لیے جب نشاۃ الثانیہ کا عہد آیا تو اس کے عالموں کو ترقی کے لیے نئی تہذیب اور نئے علوم کی ضرورت تھی

وہ خود اور ان کی پچھلی نسلیں چرچ کی پابندیوں اور عمل داری کا شکار رہی تھیں اس لیے انہیں اپنے عہد وسطیٰ میں ترقی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا

یہی وجہ ہے کہ نشاۃ الثانیہ کے عالموں نے، جن میں مشہور شاعر فرانچیسکو پیترارکا (وفات 1374) شامل تھے، نے عہد وسطیٰ کو ’تاریک عہد‘ کہا ہے جس کے پاس اگلے زمانوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے

عہد وسطیٰ کے بارے میں یہ رائے ایک طویل عرصے تک مورخوں میں مقبول رہی، لیکن جیسا کہ تاریخ میں ہوتا ہے، اس میں کوئی رائے مستند نہیں ہوتی۔ نئے مواد کی روشنی میں تاریخ کے واقعات کو مختلف انداز سے دیکھا جاتا ہے، لہٰذا رومانوی عہد میں عہد وسطیٰ کے بارے میں رائے تبدیل ہوئی اور مورخوں نے اسے تاریخ میں ایک اہم عہد ثابت کیا

اس وقت امریکہ اور یورپ کی جامعات میں عہد وسطیٰ پر نئی تحقیق ہو رہی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جدید عہد کے بہت سے ادارے اور روایات عہد وسطیٰ کا تسلسل ہیں

کلیسا کا غلبہ

عہد وسطیٰ میں کلیسا کا اثر و رسوخ بہت گہرا تھا۔ رومی سلطنت کے زوال کے بعد روم کا شہر پوپ کے تسلط میں تھا۔ یہ پوری مسیحی دنیا کو متحد کر کے ایک اکائی کے طور پر رکھنا چاہتا تھا۔ اس کی روحانی حیثیت اس قدر مستحکم ہو چکی تھی کہ پوری مسیحی دنیا میں اس کے احکامات کی تعمیل ہوتی تھی

اس دور میں کلیسا کا یہ حق بھی تھا کہ وہ یورپ کی حکمرانی کو نامزد کرے یا انہیں تخت و تاج سے محروم کر دے۔ یورپ کی جامعات بھی، جن میں پادووا، پیسا، پیرس کراکو چرچ کے ماتحت تھیں۔ ان کا نصاب مذہبی تھا اور سینٹ ٹامس ایکوائنس (وفات 1274) نے ارسطو کے فلسفے کو بھی مسیحی عقیدے میں تبدیل کر دیا تھا، جو جامعات کے نصاب کا اہم حصہ تھا

کیتھولک چرچ کی یہ کوشش تھی کہ پوری مسیحی دنیا متحد رہے تاکہ طاقت اور قوت کی بنیاد پر وہ اپنے وجود کو برقرار رکھ سکے، اس لیے کسی بھی ملک کی علیحدہ سے آزاد حیثیت نہیں تھی۔ چرچ کے عہدیدار بادشاہ کی مرضی سے نہیں بلکہ پوپ کی مرضی سے منتخب ہوتے تھے۔ اس نے علاقائی تاریخ اور آزادی کا خاتمہ کر دیا تھا

چرچ کی یہ پالیسی تھی کہ اگر کوئی نیا مذہبی فرقہ پیدا ہوتا تھا تو اتحاد کی خاطر اسے سختی سے کچل دیا جاتا تھا۔ تعلیم کے شعبے میں فلسفے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس کی جگہ علم کلام کے ذریعے عقیدے کا تحفظ کیا جاتا تھا۔ چونکہ عیسائیت تبلیغ کے ذریعے لوگوں کے مذہب کو تبدیل کرنا چاہتی تھی اس لیے چرچ کے عالموں نے یونانی اور عربی کتابوں کے ترجمے کیے

قرآن پاک کا ترجمہ لاطینی زبان میں اسی زمانے میں ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ پیگن مذہب اور اسلام کا مقابلہ کرتے ہوئے دلائل اکٹھے کیے جائیں۔ علم کی تمام قسموں کو اکٹھا کر کے انسائیکلو پیڈیا ٹائپ کتاب بھی تیار کی گئی۔ سوسائٹی میں اگرچہ رومی قوانین موجود تھے، مگر مذہبی قوانین پر زیادہ عمل ہوتا تھا

عہد وسطیٰ میں اب تک پورا یورپ مسیحی نہیں ہوا تھا، مگر مبلغوں نے اپنی کوششوں سے وائیکنگ گاتھ اور ویزی گاتھ قوموں کو مسیحی کر دیا، جس کی وجہ سے تقریباً سارے یورپ (اندلس کو چھوڑ کر) پر مسیحی مذہب کا تسلط قائم ہو گیا

مذہبی عقیدت کے اظہار کے لیے چرچوں کو گاتھک طرز پر تعمیر کرایا گیا۔ چرچ کے اندر کھڑکیوں کے شیشوں پر ایسے رنگ تھے جن سے سورج کی روشنی چھن کر آتی تھی۔ چرچ کی دیواروں پر بائبل کی کہانیاں پینٹ کرائی گئیں، تاکہ عوام کی اکثریت جو ناخواندہ تھی

ان پینٹنگز کے ذریعے ان میں مذہبی عقیدت پیدا ہو۔ چرچ کے کونوں میں اولیا کے مجسمے تراش کر رکھے جاتے تھے، لہٰذا چرچ کا ایک ایسا ماحول بن گیا تھا کہ عوام میں عقیدت کے جذبات پیدا ہوتے تھے

صلیبی جنگیں

چرچ نے اپنے اثرورسوخ اور طاقت کو بڑھانے کے لیے گیارہویں صدی سے تیرہویں صدی تک صلیبی جنگیں لڑیں، تاکہ بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھڑایا جائے۔ ان جنگوں نے یورپی مسیحی دنیا میں مذہبی جذبے کو شدت سے ابھارا۔ بیت المقدس پر قبضے کے بعد دو مسلح جماعتیں پیدا ہوئیں

ان میں سے ایک ہاسپٹلرز اور دوسرے ٹیمپلارز تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جو مسیحی زائرین بیت المقدس آئیں ان کا تحفظ کیا جائے۔ صلیبی جنگوں کا اس وقت خاتمہ ہو گیا جب صلاح الدین ایوبی نے 1187 میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے وہاں سے صلیبیوں کو نکال دیا

تین طبقے

عہد وسطیٰ جنگجو (نائٹس) کی دنیا تھی اس لیے اس میں جنگجوؤں کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی۔ ان حالات میں جنگجوؤں کا طبقہ وجود میں آیا۔ یہ پیشہ ور جنگجو تھے۔ ہر نائٹ کی اپنی جماعت ہوتی تھی جس کے قوانین کا وہ تابع ہوتا تھا۔ یہ اخلاقی قدروں کی پابندی کرتے تھے

اپنے وعدے کا پاس کرتے تھے اور کمزوروں کا تحفظ ان کا نصب العین تھا۔ نائٹس کے آپس کے مقابلوں کے لیے ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ ایک ایسے ہی ٹورنامنٹ کا حال والٹر اسکاٹ نے اپنے ناول Ivanhoe میں کیا ہے

رومی سلطنت کے زوال کے بعد یورپ میں فیوڈل لارڈز یا جاگیرداروں کا طبقہ ابھرا۔ یہ فیوڈل لارڈز اپنے تعمیر شدہ قلعوں میں رہتے تھے۔ ان کی اپنی سوچ ہوا کرتی تھی۔ امرا کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک رسم کے ذریعے ان سے وفاداری کا عہد لیتے تھے

یہ لوگ مزارع یا Vassal کہلاتے تھے۔ یہ اپنے فیوڈل لاڈز کی جانب سے جنگیں لڑتے تھے، اس کے عوض لارڈز انہیں بطور معاوضہ جاگیر دے دیا کرتے تھے

اس کے علاوہ ایک اور طبقہ وہ تھا جو سرف (serf) کہلاتا تھا۔ یہ وہ کسان تھے جنہیں زمین چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں تھی، گویا یہ ایک طرح کے غلام تھے

اس زمانے میں شہروں کی آبادی بہت کم ہوا کرتی تھی، لیکن تجارت کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یورپ کے حکمرانوں نے تاجروں کو شہر آباد کرنے کے چارٹر دیے اور تاجروں نے شہر کے انتظام کے لیے ٹیکس بھی لگائے اور شہر کو صاف ستھرا بھی رکھا

آہستہ آہستہ شہروں کی آبادی بڑھتی گئی، جس کی وجہ سے نئے نئے کاریگروں کا طبقہ وجود میں آیا۔ شہروں کی ترقی کے لیے نئی عمارتیں تعمیر کی گئی اور آرٹ اور ادب میں بھی اضافہ ہوا۔ شہروں کی سرگرمیوں میں عہد وسطیٰ کو ایک نئی تہذیب دی

کیونکہ رینے ساں کے عالموں نے چرچ کے تسلط کی وجہ سے عہدے وسطیٰ کو تاریک کہا تھا اس لیے چرچ کے مورخین نے اس دلیل کو رد کرتے ہوئے عہد وسطیٰ کی تعریف کی کہ اس عہد میں لوگ عقیدے کے پابند تھے۔ مذہب ان کو روحانی طور پر سکون اور اطمینان دیتا تھا

وہ دنیاوی خواہشات میں الجھے ہوئے نہیں ہوتے تھے اور سادہ پرامن زندگی گزارتے تھے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close