خطے کے بہت سے مبصرین کے لیے یہ اعلان کسی حیران کن خبر سے کم نہیں تھا کہ برسوں کی دشمنی اور کشیدگی کے بعد سعودی عرب اور ایران بظاہر اپنے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں
یہ ایک ایسا فیصلہ ہے، جو نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی اثرات کا حامل ہے، کیونکہ بہت سے شعبوں اور بہت سے محاذوں پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور براہ راست یا بالواسطہ ایک دوسرے کے خلاف میدان میں کھڑے رہے ہیں
دونوں ملکوں نے مختلف تنازعات میں مخالف فریقوں کی حمایت کی ہے۔ مثال کے طور پر شام میں خانہ جنگی کے دوران اور یمن کی جنگ میں آج تک عراق، لبنان اور بحرین میں ایران اور سعودی مخالف فریقوں کی مقامی سیاست میں شامل ہو گئے۔ سعودی قیادت کے مطابق ایران خلیج فارس میں اس کی تیل کی تنصیبات پر ہونے والے کچھ راکٹ حملوں کا ذمہ دار ہے
تاہم اب سعودی عرب اور ایران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے تعلقات کا ایک نیا باب کھولنا چاہتے ہیں۔ دونوں کے ایسا کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ ایک دوسرے پر حملوں میں وہ اپنے دشمن سے زیادہ خود کو سیاسی اور اقتصادی دونوں لحاظ سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی بھی فریق دوسرے پر حقیقی بالادستی حاصل کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا
دونوں ممالک میں صلح جوئی کا یہ احساس کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دو سال قبل بھی سعودی عرب اور ایران کے نمائندے بند دروازوں کے پیچھے بات چیت کر رہے تھے
ایک جرمن تھنک ٹینک سنٹر فار اپلائیڈ ریسرچ ان پارٹنرشپ ود دی اورینٹ سے وابستہ ایک سینئیر محقق اور سعودی امور کے ماہر سیباستیان سنز کا دعویٰ ہے کہ اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ سعودیوں کو اب بھی ایرانیوں پر بھروسہ نہیں ہے
اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”لیکن یہی وجہ ہے کہ سعودی قیادت کو ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک معاہدہ (سعودی) مملکت کے لیے سب سے زیادہ ترجیح ہے‘‘
تہران بظاہر چیزوں کو اسی طرح دیکھتا ہے۔ بیروت میں فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کے علاقائی امن اور سلامتی کے پراجیکٹ کے سربراہ مارکس شنائیڈر نئے معاہدے کو ایرانیوں کے لیے ایک سفارتی کامیابی سمجھتے ہیں
شنائیڈر کہتے ہیں ”ایرانی حکومت کے لیے یہ ایک ایسے وقت میں بین الاقوامی تنہائی سے باہر نکلنا ہے، جب مغرب کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں‘‘
بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی نے یقیناً ایران کے رویے میں فرق ڈالا ہے۔ تہران اور ریاض کے درمیان اس نئی بات چیت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ایران کی پسند کا ایک اور عنصر یہ ہے کہ بظاہر اس میں چین کا تعاون شامل ہے
چین کے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بھی حال ہی میں خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ شنائیڈر کہتے ہیں ”ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری لا کر چین، مشرق وسطیٰ میں ایک طاقت کے طور پردکھائی دیتا ہے“
بیروت میں مقیم ماہر نے مزید کہا ”یہ تہران کے مفادات کو بھی پورا کرتا ہے کہ وہ امریکیوں کو خطے سے نکال دے یا کم از کم ان کے اثر و رسوخ کو کم کر دے‘‘
ایران کے ساتھ چین کے تعلقات پچھلے کچھ عرصے سے اچھے ہیں۔ 2021ء کے اوائل میں دونوں فریقوں نے ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت چین اگلے پچیس سالوں میں ایران میں تقریباً چار سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا
دریں اثنا سعودی بھی پچھلے کچھ سالوں سے امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے بھی سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور امریکہ سے منہ موڑ رہے ہیں۔ امریکی رہنما سعودیوں کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب مبینہ طور پر یمنی باغیوں کی طرف سے سعودی تیل کی تنصیبات پر ایرانی ساختہ راکٹ فائر کیے گئے تھے، تو امریکہ نے سعودی عرب کی خاطر خواہ مدد نہیں کی تھی
حالانکہ بظاہر امریکہ ایران کی مخالفت بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ایران نواز حوثیوں کے براہ راست سعودی پر حملوں پر بھی امریکی خاموشی کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں اس صورتحال کو ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘ کے مصرعے سے سمجھا جا سکتا ہے
سعودی عرب نے بھی ثابت کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ ہر معاملے میں امریکہ کی بولی بولے گا۔ مثال کے طور پر گزشتہ ستمبر میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کے اجلاس اوپیک پلس میں سعودی عرب نے امریکی خواہش کے برعکس تیل کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے پیداوار بڑھانے سلسل میں لابنگ نہیں کی
سیباستیان سنز کے مطابق ”اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سعودی عرب مکمل طور پر اپنے مغربی شراکت داروں سے الگ ہو رہا ہے یا اس قسم کی تبدیلی کا کوئی منصوبہ رکھتا ہے، لیکن آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ریاض میں ایران کے ساتھ میل جول بہت زیادہ ترجیح ہے‘‘
بہرحال کچھ بھی ہو، تجزیہ کاروں کے مطابق ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری سے نہ صرف خود دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا بلکہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں استحکام آنے کے بھی واضح امکانات ہیں۔