یوں تو گھروں میں روزانہ کی صفائی ایک معمول ہے لیکن کچھ تہواروں کی آمد آمد ہوتی ہے، تو اکثر گھروں میں ’ہفتہِ صفائی‘ بھی زور و شور سے شروع ہو جاتا ہے۔ گھر کے کونے کھدرے، کافی عرصے سے ادہر ادہر پڑی چیزیں بھی اس آپریشن کی زد میں آتی ہیں
ایک طرح سے یہ صفائی آپریشن ہماری گھریلو ثقافت کا ایک حصہ بن چکا ہے اور اس کی روایت آج بھی قائم ہے، جس کا ایک مقصد جہاں گھر کی خوبصورتی ہے وہیں مکینوں کی صحت بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے
ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے نیشنل کلیننگ انسٹیٹیوٹ کے ایک سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ ستر فی صد لوگ سالانہ اپنے گھروں کی تفصیلی صفائی کرتے ہیں
بہت سے لوگ حفظان صحت کو مد نظررکھتے ہوئے صفائی کے لیے سب سے اہم جگہ باورچی خانے یا کچن کو تصور کرتے ہیں، جبکہ بیشتر افراد باتھ روم کی صفائی بہت باریک بینی سے کرتے ہیں۔ اس کے قالین یا فرش پر بچھی چٹائیاں، ٹیبل پر بچھے میٹ وغیرہ کو جراثیم، پھپوندی، بیکٹیریا اور کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ جان کر ان کی صفائی کو کافی سمجھتے ہیں
لیکن ممکن ہے کہ آپ یہ سن کر حیران ہوں کہ اس کے باوجود ہم اپنے گھروں میں ایک طرح سے جراثیم کی فارمنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ جی ہاں، کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں، جن کی صفائی کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا
ان میں سے ایک چیز برتن صاف کرنے والا اسپنج ہے، جس میں باتھ روم سے زیادہ جراثیم ہو سکتے ہیں۔ باورچی خانے میں برتن دھونے اور سلیب صاف کرنے کے لیے اسپنج ہمارا اہم ہتھیار ہوتا ہے جو برتنوں کی سخت ترین گندگی کو دور کرتا ہے اور چکنی سطحیں صاف کر دیتا ہے، لیکن اکثر اوقات یہ خود جراثیم کی آماجگاہ بن جاتا ہے
کئی لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ چونکہ اس اسپنج میں صابن ہوتا ہے، جو گندگی کو صاف کرتا ہے تو ہمیں اس اسپنج یا فوم کو صاف کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ بھی ان میں سے ہیں تو یہ غلط فہمی دور کر لیں
کیونکہ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ برتن دھونے والے اسپنج میں انسانوں کے لیے خطرناک جراثیم اور بیکٹیریا کی تعداد سینک کے مقابلے میں زیادہ ہو سکتی ہے
کچن کے اسپنج میں پائے جانے والے جراثیم کے لیے کیے جانے والے اس مطالعے میں ساڑھے تین سو سے زائد مختلف قسم کے بیکٹیریا پائے گئے، جن کی تعداد بیت الخلا میں پائے جانے والے جراثیم سے بھی زیادہ تھی
تحقیق کے مطابق جراثیموں کی بڑی تعداد کا سبب جہاں اسپنج میں پائی جانے والی مسلسل نمی ہے، وہیں اس کی ساخت اسے بیکٹیریا اور جراثیم کی افزائش کے لیے ایک بہترین جگہ بنا دیتی ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپنج کو ہفتے میں کم از کم ایک بار کلورین یا بلیچ سے دھویا جائے تاکہ بیکٹیریا کی افزائش کے اس خطرناک عمل کو روکا جا سکتا ہے
اس فہرست میں دوسرا نام آپ کے بیڈ پر موجود گدّے (میٹرس) کا ہے۔۔ یہ سچ ہے کہ گدا صاف کرنا بالکل بھی آسان نہیں لیکن جب یہ جاننے کے بعد کہ آپ کا گدا کتنے جراثیم کو پال رہا ہے تو اس کی صفائی بھی آپ کو مشکل نہیں لگے گی
کیا آپ جانتے ہیں کہ انسانی جسم ہر روز ایک اعشارعہ پانچ گرام جلد کے مردہ خلیے (ڈیڈ سیلز) خارج کرتا ہے، جو نیند کے دوران آپ کے آرام دہ گدے پر خاموشی سے جھڑتے رہتے ہیں
اس ضمن میں رائل سوسائٹی اوپن سائنس جرنل میں 2018ع میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ایک چمپینزی کے مقابلے میں ان گدوں کی صفائی کا موازنہ کیا گیا، جہاں انسان سوتا تھا
نتیجہ سامنے آیا کہ انسان کے زیر استعمال گدا چمپینزی کے زیر استعمال بستر کے مقابلے میں تقریباً تیس فیصد زیادہ گندا تھا
جِلد سے جھڑنے والے ڈیڈ سیلز، گرد و غبار اور پسینے نے انسان کے زیر استعمال گدے کو بیکٹیریا کو پھلنے پھولنے کے لیے زرخیز زمین بنا دیا تھا
حالیہ برسوں میں گدوں کی صفائی کے نئے اور جدید طریقے دریافت کیے گئے ہیں۔ ماہرین گدے اور بستروں کو ہر کچھ دن بعد دھوپ میں رکھنے پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ ان میں پیدا ہونے والی نمی کو کم کیا جا سکے، جبکہ ویکیوم کلینر کے ساتھ بھی ان میں جذب ہونے والے گرد و غبار کو صاف کیا جا سکتا ہے
اب ذکر ہو جائے اس تیسری چیز کا، جو آپ کے گھر میں جراثیم کی افزائش کرتی ہے
یہ تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ پرانے دور میں شاپنگ کے لیے جاتے وقت کپڑے کے بنے تھیلے (شاپنگ بیگز) ساتھ رکھے جاتے تھے، تاکہ سامان اٹھانے میں آسانی ہو، لیکن اب ان کی جگہ پلاسٹک کے بیگز نے لے لی ہے
تاہم حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے پیش نظر ڈسپوزیبل پلاسٹک بیگز کے بجائے ایک بار پھر ماحول دوست سمجھے جانے والے کپڑوں سے بنے تھیلے استعمال کرنے کا رجحان سامنے آ رہا ہے، جنہیں بار بار استعمال کیا جا سکتا ہے
بار بار استعمال ہونے والے یہ بیگز صفائی کی ترجیحات میں اکثر شامل ہونے سے محروم ہی رہ جاتے ہیں
یونیورسٹی آف ایریزونا کے مائیکروبائیولوجسٹ چارلس پی گربا کہتے ہیں ”شاپنگ کے لیے استعمال یہ تھیلے لمبے عرصے صاف نہ ہونے کی صورت میں اپنے اندر جراثیم کی افزائش کا سبب بن جاتے ہیں اور یہ اتنے ہی خطرناک بن سکتے ہیں، جیسے ہمارے زیر جامہ (انڈرویئر) میں موجود ای کولی بیکٹیریا، جس سے انفیکشن ہو سکتا ہے“
اس کے نتائج کو چارلس پی گربا یوں بیان کرتے ہیں ”اگر آپ کچے گوشت کی مصنوعات اور کچی سبزیاں لے جانے کے لیے ایک ہی تھیلے کا استعمال کرتے ہیں تو آپ آنتوں میں انفیکشن کرنے والے بیکٹریا ’سلمونیلا‘ کی سلاد بہت آسانی سے بنا سکتے ہیں“
یو ایس نیشنل کلیننگ انسٹیٹیوٹ کا عملہ تجویز کرتا ہے کہ ان بیگز کو ہفتے میں کم از کم ایک بار لازمی دھویا جائے، وہ بھی مشین کے بجائے ہاتھ سے کیونکہ واشنگ مشین میں دھونے کی صورت میں یہ خراب ہو سکتے ہیں“
اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کافی مشین، دیگر مصنوعات کی صفائی نظر انداز کرنا مہنگا پڑ سکتا ہے
امریکہ میں آرگنائزیشن آف ہیلتھ اینڈ پبلک سیفٹی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق آپ کے باورچی خانے میں سب سے زیادہ جراثیم آپ کی کافی مشین، الیکٹرک کیٹل اور دیگر بجلی سے چلنے والی مصنوعات میں پائے جاتے ہیں
محققین کو اپنے مطالعے میں کافی کے برتنوں کے اندر 67 مختلف اقسام کے جراثیم ملے
چائے یا کافی بنانے کے عمل میں کیا جانے والا گرم پانی تمام جراثیم کو ختم نہیں کر سکتا اور کیفین بیکٹیریا کے بڑھنے میں معاون ہوتی ہے
اس کے علاوہ کافی بنانے کے عمل کے دوران معدنیات (منرلز) کی موجودگی کافی مشین کے کام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کافی میکر کو کم از کم ہر تین ماہ بعد مکمل صاف کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔