وہ کیمرے، جن سے بالی وڈ کے بڑے ستارے بھی خوف کھاتے ہیں

ویب ڈیسک

بھارتی فلمی صنعت کی راج دھانی ممبئی سے لگ بھگ چھیانوے کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ساحلی شہر علی باغ کے ایک ہیلی پیڈ پر وریندر چاولہ دم سادھے کسی کا انتظار کر رہے ہیں

وریندر کو اپنے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بالی وڈ کے سپر اسٹار شاہ رخ خان وہاں ہیلی کاپٹر لینے آئيں گے، جس سے وہ ممبئی میں اپنے محل نما گھر ’مَنّت‘ جائيں گے

یہ دو نومبر سنہ 2022 کی بات ہے جو کہ سپر سٹار مسٹر خان کی سالگرہ کا دن ہے۔ شاہ رخ ہمیشہ ان ہزاروں مداحوں کو سلام کرنے کے لیے اپنے گھر کی بالکونی پر آتے ہیں، جو ان کی یوم پیدائش پر انہیں مبارکباد دینے کے لیے پر باہر جمع ہوتے ہیں

وریندر چاولہ کو یقین تھا کہ خان انہیں مایوس نہیں کریں گے، اس لیے وہ پورے صبر کے ساتھ ان کا انتظار کر رہے تھے

آخر کار ایک گاڑی وہاں نمودار ہوتی ہے، جس کے اندر شاہ رخ خان موجود ہیں۔ چاولہ نے اداکار کی طرف اشارہ کیا اور انھوں نے جواب میں ہاتھ ہلایا۔ اور اسی کے ساتھ چاولہ نے اپنے کیمرے کا بٹن دبا دیا اور کلک کی آواز ابھری

وریندر چاولہ کہتے ہیں ”یہ ایک حقیقی پیسہ وصول تصویر تھی۔ یہ میری کوششوں کا نتیجہ تھا۔“

وریندر چاولہ بالی وڈ میں پاپارازیوں (ایسے فوٹو جرنلسٹ جو لوگوں کا تعاقب کرتے ہیں اور مرضی کے ساتھ یا چھپ کر ان کی تصاویر بناتے ہیں) کی بڑھتی ہوئی تعداد میں سے ایک ہیں جو مشہور شخصیات کی عام صورت حال میں تصاویر لینے کے لیے نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں

ایک پاپارازی کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے؟

وہ بائیک پر ان کا پیچھا کرتے ہیں، ان کے مینیجرز اور ڈرائیوروں سے ان کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے دوستی کرتے ہیں، ہوائی اڈوں اور ریستوراں میں گھومتے پھرتے ہیں، اور یہاں تک کہ فلمی ستاروں کی گاڑیوں کی رجسٹریشن پلیٹس یاد کرتے ہیں تاکہ ان کا پیچھا کر سکیں

شاہ رخ خان کے سابق پبلسسٹ (تشہیرکار) مانڈوی شرما اب اپنی پبلک ریلیشن کمپنی چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاپارازی اور بالی وڈ کی مشہور شخصیات کا ایک دوسرے پر ‘انحصار باہمی’ کا رشتہ ہے

فلمی ستارے پبلسٹی (تشہیر) کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں اور وہ اپنی روزی کمانے کے لیے ان ستاروں پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن یہ رشتہ زہریلا بھی ہو سکتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں اس کے متعلق بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں

فروری میں اداکارہ عالیہ بھٹ نے فوٹوگرافروں کو ان کے کمرے میں ان کی تصاویر لینے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ان کی پرائیویسی پر ‘سخت حملہ’ قرار دیا تھا

رواں ماہ کے شروع میں اداکار سیف علی خان اس وقت سرخیوں میں آئے جب انھوں نے پاپارازیوں کو طنزیہ انداز میں کہا کہ ’بیڈ روم تک ہمارا پیچھا کریں۔‘

انہوں نے ایسا اس وقت کہا، جب وہ ان کی اور ان کی اہلیہ کرینہ کپور خان کی تصاویر کے لیے ان کے گھر تک ان کا پيچھا کرتے چلے گئے تھے

سیف کی یہ وڈیو ایک مشہور پاپارازی وائرل بھیانی کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر نمودار ہوئی اور اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی

سنہ 2019 میں سیف علی خان نے کہا تھا کہ انھوں نے پاپارازیوں کو اپنے گھر کے باہر تعینات پایا جو ان کے بچے کی تصاویر لینے کے وہاں تھے۔ انھوں نے اسے ‘کم از کم پریشان کن’ قرار دیا

سوشل میڈیا کی بھوک
مناو منگلانی تقریباً دو دہائیوں سے پاپارازی ہیں اور اب ان کے لیے پندرہ فوٹوگرافر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے مشہور شخصیات کے متعلق مواد کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی بھوک پیدا کر دی ہے

وہ کہتے ہیں کہ چند دہائیاں پہلے صرف اخبارات اور رسائل ہی پاپارازی سے تصاویر خریدتے تھے

شرما کا کہنا ہے کہ سنہ 2015ع میں بھارت میں ڈجیٹل میڈیا بھرمار سے حالات ڈرامائی طور پر بدل گئے، کیونکہ میڈیا اور مشہور شخصیات نے کام کے لیے سماجی پلیٹ فارمز کا فائدہ اٹھانا سیکھا۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا ’بہت بڑا پبلسٹی گیمٹ بن گیا‘

منگلانی کا کہنا ہے کہ آج پاپارازیوں کو متعدد پلیٹ فارمز کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے جہاں لاکھوں انڈینز اپنی پسندیدہ مشہور شخصیات کی تازہ اپڈیٹ کے لیے موجود ہیں

وہ کہتے ہیں: ’ہم فیسبک، یوٹیوب، انسٹاگرام، روپوسو اور سنیپ چیٹ جیسے متعدد ایپس کے لیے تصویر لیتے ہیں، اپ لوڈ اور پوسٹ کرتے ہیں، شیئر کرتے ہیں یا لائیو سٹریمنگ کرتے ہیں۔‘

درحقیقت بہت سے مشہور پاپارازی اپنے انتہائی مقبول انسٹاگرام اکاؤنٹس پر ہی مواد شیئر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھیانی کے پچاس لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں، منگلانی کے تقریباً چھبیس لاکھ فالوورز ہیں جبکہ چاولہ کے تیرہ لاکھ ہیں

پانی کو گدلا کرنے والے شوقیہ فوٹوگرافرز اور یوٹیوبرز ہیں جو مانگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

چاولہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بعض اوقات جوش و خروش سے ’حدیں پار ہو جاتی ہیں‘ کیونکہ ہر کوئی بہترین یا انتہائی خصوصی شاٹ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسا مواد پوسٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں جس سے کسی کو تکلیف ہو

انیتا (بدلا ہوا نام) ایک سابق فوٹوگرافر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں پاپارازی کا کام دباؤ والا اور بعض اوقات تکلیف دہ بھی محسوس ہوتا ہے

وہ کہتی ہیں ”اگر مجھ سے کوئی شاٹ چھوٹ جاتا ہے جسے کوئی اور حاصل کر لیتا ہے تو میرا باس مجھ پر چیختا ہے۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ خصوصی تصاویر لینے والوں کو بڑی بخشش دی جاتی ہے“

منگلانی کا کہنا ہے کہ دباؤ نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی چینلز کی طرف سے بھی آتا ہے جو حریف پلیٹ فارمز پر دیکھی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز کا مطالبہ کرتے ہیں

’پہلے اداکاروں کے ساتھ دوستی ہوتی تھی اب نہیں‘

سنہ 1990ع کی دہائی تک حالات بہت مختلف تھے۔ چاولہ، جن کے والد بھی ایک مشہور فوٹوگرافر تھے، ان کے ساتھ انھیں فلموں کے سیٹ پر جانا آج بھی یاد ہے جہاں انھیں ایک اسٹار کے مینیجر نے پروموشنل تصاویر لینے کے لیے مدعو کیا تھا

وہ کہتے ہیں: ’ہم مشہور شخصیات کے ساتھ سیٹ پر رات کا کھانا یا دوپہر کا کھانا کھاتے تھے۔ ہماری ان کے ساتھ گپ شپ ہوتی اور دوستی پروان چڑھتی۔ اداکار شوٹنگ سے وقفہ لیتے اور طرح طرح کے ملبوسات میں تصویریں کھنچواتے۔۔۔ اس وقت کوئی ‘پاپارازی کلچر’ نہیں تھا۔‘

رنجنا بنرجی میڈیا اور سیاست پر لکھنے والی ایک آزاد صحافی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ نوے کی دہائی میں تبدیلی آئی جب انڈیا نے دنیا کے لیے اپنے دروازے کھولے

وہ کہتی ہیں ’نجی ٹی وی چینلز کے پھیلاؤ نے مزید تفریح، مزید معلومات کی خواہش کا بیج بویا۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ سینے بلٹز اور سٹار ڈسٹ جیسی فلمی میگزین بھی مشہور شخصیات کی گپ شپ اور خبروں کی کوریج میں زیادہ دلیر ہوتی گئیں

وہ کہتی ہیں ‘مشہور شخصیت کی تصویریں اب کوئی بناوٹی شکل و صورت نہیں رہیں، وہ زیادہ واضح اور سادہ ہو گئیں۔’

اسی دوران بالی وڈ تیزی سے کارپوریٹائز ہوتا رہا۔ بینکوں اور سٹوڈیوز نے فلموں کی مالی اعانت شروع کردی، اور ستارے، جن کے پاس عام طور پر ایک ہی پبلک ریلیشن آفیسر ہوتا تھا، اب ان کے کام کو پی آر ٹیموں کے ذریعہ سنبھالا جانے لگا

ستاروں اور فوٹوگرافروں کے درمیان دوری

وریندر چاولہ کا کہنا ہے کہ ‘اس سے مشہور شخصیات اور فوٹوگرافروں کے درمیان ایک عجیب قسم کی دوری پیدا ہو گئی۔ اگرچہ ہماری اب بھی ان تک رسائی ہے، شاید پہلے سے زیادہ ہی ہے لیکن ہم وہ دوستی والی گرمجوشی کھو چکے ہیں۔’

اندازوں کے مطابق بھارت میں پاپارازی کلچر ممکنہ طور پر سنہ 2000 کی دہائی کے وسط میں ابھرا

چاولہ کا کہنا ہے کہ وہ ابھیشیک بچن کی شادی میں پہنچ گئے اور چُپکے سے تصویر لے کر اس ٹرینڈ کا آغاز کیا، کیونکہ فوٹوگرافروں اس مقام پر آنے سے باز رکھا گیا تھا

تجربہ کار پاپارازی یوگین شاہ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس ٹرینڈ کو شروع کیا تھا۔ انھوں نے ایک پارٹی سے نکل کر اپنی کاروں تک جاتے ہوئے مشاہیر کی تصاویر لی تھیں کیونکہ اس پارٹی میں فوٹوگرافروں کا داخلہ ممنوع تھا

امریکہ اور برطانیہ میں کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جہاں مشہور شخصیات نے کامیابی کے ساتھ پرائیویسی پر حملے کے لیے پاپارازیوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے

مسٹر شرما کا کہنا ہے ‘ہم جلد ہی [بھارت میں] ایسا معاملہ دیکھ سکتے ہیں، جہاں یہ مشہور شخصیات، پاپارازیوں اور مینیجرز اور پبلسٹیز کے لیے ایک مثال قائم کریں گے تاکہ ایک بہتر نظام تیار ہو جو سب کے حق میں ہو“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close