منٹو اور فراق جیسی تاریخی تحقیق پر مبنی فلمیں بنانے کے بعد ’زویگاٹو‘ بطور ہدایت کار نندیتا داس کی تیسری فلم ہے۔ ان کی اس فلم میں ٹی وی کی دنیا میں کامیڈی کا بادشاہ کہلانے والے کپل شرما مرکزی کردار ادا کر ہے ہیں
فلم میں کپل شرما نے مانس مہتو کا کردار ادا کیا ہے، جو بھونیشور میں ایک فیکٹری ورکر کی ملازمت سے ہاتھ دھونے کے بعد ’فوڈ ڈیلیوری بوائے‘ بن جاتے ہیں
ایک ایوارڈ شو کا وڈیو کلپ دیکھ کر نندیتا کو اس کردار کے لیے کپل شرما کا خیال آیا۔ اس پروگرام میں کپل مشہور فلمساز کرن جوہر کے ساتھ میزبانی کر رہے تھے
نندیتا داس بتاتی ہیں ”وہ ایک بہت فطری اور بے ساختہ اداکار لگ رہے تھےز جو کسی سے متاثر نہیں تھے۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح نظر آتے تھے“
اس کے بعد نندیتا داس نے کپل شرما کو انسٹاگرام پر فالو کرنا شروع کیا اور ان کے کچھ اور وڈیو کلپس دیکھے۔ تب ہی انہیں اندازہ ہوا کہ کپل شرما خود ایک بڑے اسٹار ہیں اور وہ عام آدمی نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی نندیتا ان میں ایک عام آدمی کا چہرہ دیکھتی رہیں
جب نندیتا نے اپنے کاسٹنگ ڈائریکٹر کو مانس مہتو کے کردار کے لیے کپل شرما کے بارے میں بتایا تو وہ گھبرا گئے
حتیٰ کہ جب یہ فلم خود کپل شرما کو آفر ہوئی تو وہ بھی گھبرا گئے۔ لیکن فلم کی ریلیز کے بعد واضح ہے کہ نندیتا کا یہ یقین درست ثابت ہوا۔ اپنے اعتماد پر قائم رہتے ہوئے، کپل شرما نے ریہرسل میں اپنی زبان اور رویے پر بہت کام کیا
نندیتا داس کہتی ہیں ”کپل شرما نے اپنے گزرے ہوئے دنوں کو یاد کیا اور اس کردار کو پوری طرح سمیٹ لیا۔ وہ کہتے تھے مجھے بھیڑ کی خوشبو بھول گئی تھی“
ایک ایئر کنڈیشنڈ کمرے سے دوسرے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بھاگتے ہوئے وہ چلچلاتی دھوپ کو بھول گئے تھے، لیکن اس فلم نے ان کی یادداشت واپس لوٹا دی
فلم ’زویگاٹو‘ کا تصور اصل میں کورونا بحران کے دوران وجود میں آیا۔ نندیتا داس نے اپنی بیس منٹ کی کہانی کو فیچر فلم کے طور پر تیار کرنے کا ارادہ کیا
بیس منٹ کی یہ کہانی ایک جوڑے کی کہانی تھی۔ نندیتا نے بچوں، خاندان اور ان کی جدوجہد کو یکجا کر کے اسے فلم کی شکل دی ہے
منٹو اور فراق جیسی تاریخی تحقیق پر مبنی فلمیں بنانے کے بعد نندیتا کی خواہش تھی کہ بے ساختہ تعلقات پر مبنی فلم بنانائی جائے
انہوں نے فلم کی اسکرپٹ کے لیے اسکرول ویب سائٹ کے بانی اور دوست سمیر پاٹل سے رابطہ کیا، ابتدائی بات چیت کے بعد فلم کا جو اسکرپٹ تشکیل پایا، وہ بے روزگاری، اس کے خدشات، غیر منظم اور کنٹریکٹ ورکرز کی معیشت، اور نئے اسٹارٹ اپ پر مبنی تھا
فلم کا اسکرپٹ ان مسائل سے متعلق ڈیٹا اور تحقیق پر مبنی ہے۔ اس کے ساتھ فوڈ ڈیلیوری میں کام کرنے والے مختلف نوجوانوں سے بات کر کے ان کی آراء اور اِن پٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ فلم مکمل طور پر متعلقہ نظر آئے
نندیتا داس بتاتی ہیں ”دنیا بھر میں ‘گگ اکانومی‘ یعنی عارضی اجرت کے بارے میں بات ہو رہی ہے، چاہے وہ ایمیزون کے ملازمین ہوں یا اوبر کے ملازمین۔ بھارت میں بھی خواتین ان کمپنیوں کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اس پر بحث بھی بڑھ گئی ہے“
نندیتا داس کے مطابق بھارت میں جنس، ذات پات، طبقے اور مذہب کی بنیاد پر عدم مساوات اور امتیاز کی صورتحال ہے اور نئی معیشت میں یہ فرق بڑھ رہا ہے
نندیتا کا کہنا ہے کہ ان کی فلم ان لوگوں کی کہانی ہے جو نئے شہری یومیہ اجرت والے مزدور ہیں، جن کی وجہ سے کورونا لاک ڈاؤن کے دوران بھی لوگوں کا جینا دوبھر ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان لوگوں کو امتیازی سلوک اور نظر اندازی کا سامنا ہے
وہ کہتی ہیں ”یہ ان لوگوں کی کہانی ہے، جو ہماری زندگی میں ہیں لیکن نظر نہیں آتے، کورونا بحران کے دوران ان لوگوں نے کنٹیکٹ لیس (بغیر چھووے) ڈیلیوری دی، ان لوگوں کو فائیو سٹار ریٹنگ دی، ٹپس دی، ان کے ساتھ تھوڑا سا انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنا چاہیے“
ڈیلیوری بوائے کی روزمرہ زندگی میں کچھ بھی بڑا نہیں ہوتا۔ وہ بہتر ریٹنگ حاصل کر کے کچھ مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے انھیں کئی سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات اپنی عزت سے بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے
نندیتا داس کے مطابق اس کے بعد بھی خواہ انھیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، وہ اپنی زندگی میں خوشی کے مواقع تلاش کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’مجھے فلموں کے ذریعے ایسی باریک چیزیں دکھانے میں دلچسپی رہی ہے۔‘
’زویگاٹو‘ میں ڈلیوری بوائے مانس مہتو کی مشکلات کو دکھایا گیا ہے اور اس کے بعد کوئی حل نہیں نکلتا
نندیتا داس کہتی ہیں ”مجھے نہیں لگتا کہ سینما کچھ بدل سکتا ہے اور نہ ہی یہ مسائل کو حل کر سکتا ہے، آپ صرف آئینہ دکھا سکتے ہیں، بس اتنا کہہ دیں کہ ان لوگوں کی زندگی ایسی ہے، اگر لوگوں کی ہمدردی بڑھے اور یہ چھپی ہوئی باتوں کو سامنے لا سکتے ہیں“
فلم کا مرکزی کردار بھلے ہی مانس مہتو کے روپ میں کپل شرما ہو لیکن شاہانہ گوسوامی نے ان کی بیوی کا کردار بھی اتنے ہی شاندار انداز میں نبھایا ہے
نندیتا کے مطابق شاہانہ گوسوامی میں اتنی ہی توانائی ہے، جتنی کپل شرما میں۔ وہ کہتی ہیں، ’مجھے لگتا ہے کہ مجھے ہمیشہ ہی خواتین کے کردار لکھنے میں مزہ آیا ہے، چاہے مرکزی کردار مرد ہی کیوں نہ ہو۔‘
ویسے کپل شرما کو ایک اور پہلو سے بھی سراہا جانا چاہیے، فلم میں کام کرتے ہوئے وہ مقامی فنکاروں کے ساتھ پوری طرح گھل مل گئے۔ فلم کے پانچ اداکار ممبئی کے ہیں، ان کے علاوہ باقی تمام بھونیشور کے مقامی اداکار ہیں
یہ کہانی جھارکھنڈ کے ایک خاندان کی ہے، جو بھونیشور میں رہ رہا ہے۔ اس نقطہ نظر سے فلم نے ہندی سنیما کو ایک نئی جگہ، نئے لوگوں اور کچھ مختلف حقیقتوں سے جوڑ دیا ہے۔ یہ سب فلم دیکھتے ہوئے ایک تازگی کی طرح محسوس ہوتا ہے
نندیتا داس کہتی ہیں ”ایک انّیا کے اندر بہت سے بھارت ہیں۔ میں نے دس زبانوں میں فلمیں کی ہیں۔ میں ملک کے کئی حصوں میں گئی ہوں۔۔ میں اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں سماجی کاموں میں بھی شامل رہی ہوں۔ میں ہمیشہ محسوس کرتی ہوں کہ فلم سازوں کو نئی جگہ، زبان اور لوگوں کے بارے میں بھی بتانا چاہیے“
ویسے، نندیتا کا بھونیشور سے تعلق ہے، حالانکہ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران انہیں بھونیشور میں رہنے کا موقع ملا۔ وہ بتاتی ہیں ”اب تک مجھے لوگوں کو بتانا پڑتا ہے کہ میں اڈیشہ سے ہوں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ میں بنگالی ہوں اور میں ان سے کہتی ہوں کہ نہیں، میں اڈیشہ سے ہوں۔ میں کوئی فرقہ پرست علاقائی نہیں ہوں“
ویسے نندیتا کی خواہش تھی کہ فلم کی شوٹنگ میٹرو کے علاوہ کسی نئے ابھرتے ہوئے شہر میں کی جائے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے، انھوں نے کہا، ’میرے خیال میں نئے ابھرتے ہوئے شہروں میں روایتی رجحانات اور ٹیکنالوجی کا امتزاج زیادہ واضح ہے
وہ کہتی ہیں ”میں ان شہروں میں حقیقی ’ہندوستانیت‘ محسوس کرتی ہوں۔ تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ بھونیشور جائے میں شوٹنگ کی جائے، جو ابھی تک نہیں دکھائی گئی۔ اس طرح مرکزی دھارے کی ہندی فلموں میں“
نندیتا کہتی ہیں ”میں چاہتی ہوں کہ فلمیں لوگوں تک پہنچیں اور بحث شروع کریں چاہے وہ تمام سوالوں کے جواب کیوں نہ دیں۔۔ امید ہے کہ زویگاٹو ایک ڈیلیوری بوائے کی زندگی اور مشکلات پر بات چیت شروع کرے گی“