سستا پیٹرول فراہم کرنے کا حکومتی منصوبہ: قابلِ عمل بھی ہے یا صرف لولی پاپ؟

ویب ڈیسک

حکومت نے مہنگائی کے اثرات کم کرنے کے لیے موٹر سائیکلز اور 800 سی سی تک کی گاڑیاں رکھنے والے صارفین کو سو روپے فی لیٹر سبسڈی دینے کی اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔

مجوزہ اسکیم کے تحت امیر طبقے کو سو روپے مہنگا پیٹرول فروخت کر کے سبسڈی پوری کی جائے گی

لیکن ماہرین اس سبسڈی کے قابلِ عمل ہونے پر سوالات اٹھاتے نظر آ رہے ہیں

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے پیر کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سستا پیٹرول اسکیم کے تحت موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیاں رکھنے والوں کے لیے پیٹرول پر فی لیٹر سو روپے کی سبسڈی دی جائے گی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ چھ ہفتوں کے دوران اس اسکیم کو نافذ العمل کر دیا جائے گا

اسکیم کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ”ہمارے پاس عوام کا ڈیٹا موجود ہے، جس کے تحت اوسطاً ایک کم آمدنی والا صارف اپنی موٹر سائیکل پر ماہانہ21 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے“

اُن کے بقول حکومت کی کوشش ہوگی کہ سبسڈی کے اہل شہری کو ایک وقت میں دو لیٹر پٹرول فراہم کیا جائے، لیکن ساتھ انہوں نے کہا یہ مقدار ماہانہ اکیس لٹر ہوگی۔ اس طرح یہ روزانہ کے حساب سے محض 0.7 لٹر مقدار بنتی ہے

انہوں نے کہا 800سی سی یا اس سے کم والی گاڑی کو پیٹرول پر 30 لیٹر ماہانہ تک سبسڈی دی جائے گی۔ ایک وقت میں گاڑی میں 5 سے 7 لیٹر پیٹرول ڈالا جائے گا۔ یعنی 800 سی سی کار والوں کو روزانہ صرف ایک لٹر پٹرول

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس اسکیم کے اہل افراد کو ان کے موبائل پر میسج موصول ہوگا اور وہ اس میسج کو پیٹرول پمپ پر دکھا کر پیٹرول وصول کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرول پمپس مالکان کو بھی ایک ڈیوائس فراہم کی جائے گی، جس پر سبسڈی حاصل کرنے والے کا رکارڈ موجود ہوگا

لیکن ماہرین اس مجوزہ اسکیم کے قابلِ عمل ہونے پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسی کسی اسکیم پر عمل درآمد کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ اس حوالے سے کوئی ڈیٹا نہ ہونے کے باعث اس سبسڈی کو مستحق افراد ہی کو دینے کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار اپنانا مشکل دکھائی دیتا ہے

ماہرِ معاشیات اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ یہ خیال تو اچھا ہے، جس کے تحت حکومتی خزانے پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر امیر طبقات کو زیادہ قیمت ادا کر کے کم آمدنی والے طبقات کو رعایت دی جائے گی، لیکن اس حوالے سے اعداد و شمار کی کمی ہے اور ہمارے ہاں موٹر سائیکل عام طور پر اوپن لیٹر پر مالک کے بجائے کوئی اور بھی چلا رہے ہوتے ہیں

سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ اگر یہ اعداد و شمار ٹھیک طور پر حاصل بھی کر لیے جائیں تب بھی اس قسم کی سبسڈی کی تقسیم ایک مشکل امر ہوگی

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تجویز پر تحریکِ انصاف کی سابق حکومت بھی غور کر رہی تھی، جس کے لیے کئی مہینوں تک پائلٹ پراجیکٹ بھی چلایا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت اہل شخص کو سبسڈی کارڈ دیا جانا تھا اور وہ پٹرول اسٹیشن پر یہ کارڈ دکھا کر 30 فی صد رقم کارڈ (حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی) اور بقایا پیسے کیش میں ادا کر سکتا تھا

خرم شہزاد کے مطابق فیول سبسڈی کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا بیس سے منسلک نہ کرنا اس ملک کے غریبوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی

انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے غریب لوگ بھی ہیں جو موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیوں کے مالکان سے بھی زیادہ مستحق ہیں

ان کے بقول تمام مصنوعات بشمول پیٹرولیم مصنوعات اور سروسز کا تعین مارکیٹ کی قیمتوں پر ہی مبنی ہونا چاہیے۔ حکومت کو ہر قسم کی مداخلت سے نکل کر مستحقین کو براہ راست سبسڈی فراہم کرنے کی ضرورت ہے

انہوں نے اس نکتے کی جانب بھی نشان دہی کی کہ حکومتی اسکیم کے تحت کسی بھی صورت میں اس سبسڈی کی رقم ، کار مالکان اور زیادہ فیول چارجز ہی سے آرہی ہے، حکومت کی جیب سے نہیں

اُن کے بقول ایسے میں حکومت درحقیقت ایک طبقے سے پیسے لے کر دوسرے کو دے رہی ہے، جسے کراس سبسڈی کہا جاتا ہے۔ کراس سبسڈی کبھی بھی اچھا خیال نہیں رہا، یہ اچھی سیاست تو ہو سکتی ہے لیکن اچھی معاشیات بالکل نہیں

دوسری جانب زیادہ تر صارفین کو بھی حکومت کی یہ اسکیم ناقابل عمل دکھائی دے رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک پیٹرول پمپ پر اپنی موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوانے والے شہری ندیم شیخ کا کہنا تھا ’پیٹرول کی قیمت بہت زیادہ ہے لیکن حکومت کو چاہیے کہ کوئی مستقل پالیسی بنائے تاکہ پیٹرول، ڈیزل اور دیگر اشیا عوام کو سستی میسر آ سکیں۔ یہ چیزیں عوام کو سستی ملنی چاہییں، ان کی وجہ سے عوام پر بوجھ پڑ رہا ہے، ہمارے لیے ایک موٹر سائیکل کو چلانا مشکل ہو گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ اس وقت عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پندرہ سال کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے ،لیکن اس کے باوجود پاکستان میں اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے

پاکستان میں 16 مارچ 2023 سے پیٹرول کی قیمت 272 روپے فی لیٹر مقرر ہے، پیٹرول پر 50 روپے فی لیٹر لیوی وصول کی جارہی ہے

16 مارچ 2022 کو پیٹرول کی قیمت 149 روپے 86 پیسے فی لیٹر تھی ایک سال میں پیٹرول 122 روپے 14 پیسے فی لیٹر مہنگا ہوا ہے

ایک اور موٹر سائیکل صارف عاشر بھٹی کا کہنا ہے ’یہ اسکیم نا ممکن ہے، یہ بہت مشکل ہے، یہ صرف ان کے منہ کی باتیں ہیں جب دیں گے تو پتہ چلے گا، پہلے یہ سستا آٹا دے رہے تھے تو آٹا ختم ہوگیا اب پیٹرول سستا دیں گے تو پیٹرول ختم ہو جائے گا ان کو ہر چیز سستی ملتی ہے تو یہ انہیں یہ آسان لگتا ہے“

انہوں نے کہا ’یہ حکومت غریبوں پر بھی سیاست کرے گی اور دنیا کو بتائے گی کہ دیکھو ہم غریبوں کو سستا پیٹرول دے رہے ہیں، سستا پیٹرول ایسے نہیں ملے گا، کچھ چیزیں درکار ہوں گی، یہ جھوٹ ہے۔‘

اقتصادی ماہر طاہر عباس نے بتایا کہ پاکستان میں ماہانہ ساڑھے پانچ لاکھ ٹن پیٹرول استعمال ہوتا ہے۔

’ایک اندازے کے مطابق موٹر سائیکل، رکشہ، پک اپ اور 800 سی سی سے کم گاڑی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 45 سے 50 فیصد ہے، ان صارفین کو 100 روپے سستا پیٹرول ملے گا، جب کہ باقی صارفین کو 100 روپے مہنگا پیٹرول ملے گا یہ کراس سبسڈی ہوگی۔‘

طاہر عباس کا کہنا ہے کہ سکیم پر عمل درآمد مشکل ہوگا، حکومت کے لیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ پیٹرول کے درست استعمال کا اندازہ لگا سکے، یہ پتہ کرانا مشکل ہوگا کہ صارف اس کا حقدار ہے یا نہیں اور ہر پیٹرول پمپ پر اس کے عمل درآمد سے متعلق سہولیات فراہم کرنا بھی مشکل ہوگا

طاہر عباس کا کہنا ہے کہ ’اس سکیم کے تحت ماہانہ 37 ارب روپے درکار ہوں گے اور اگر حکومت اس اسکیم کو چار ماہ کے لیے لا رہی ہے تو تقریباً 150 ارب روپے درکار ہوں گے۔

ماہر معیشت خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک پیچیدہ منصوبہ ہے اور اصل سوال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ممکن ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح سے منصوبہ بنایا گیا ہے اور جیسے اعلان کیا گیا ہے اس سے پیسے اکھٹا کرنا تو ممکن ہے لیکن سوال عمل پر ہے کہ کیسے حقداروں تک اس رقم کا فائدہ پہنچایا جائے گا۔‘

تاہم خرم حسین کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر اگر کامیابی سے عمل درآمد ہو بھی جائے تو اس سے مجموعی طور پر مہنگائی کے اثرات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ماہر معاشی امور ثنا توفیق بھی اس بات سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا کہ کون سا طبقہ کتنا تیل استعمال کر رہا ہے اور اس طرز کے طریقہ کار میں غلط استعمال کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔‘

’دوسرا، اگر ایک طبقے کے لیے پیٹرول کی قیمت بڑھائی جائے گی تو وہ طبقہ بھی تو زیادہ ٹیکس اور مہنگائی کے بوجھ تلے ہے، اس پر کیوں زیادہ ٹیکس کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔‘

ثنا توفیق نے کہا کہ ’اگر آپ 50 فیصد طبقے کے لیے بھی پیٹرول کی قیمت بڑھائیں گے تو اس کا اثر پڑے گا، پیٹرول کی قیمت بڑھے گی تو ٹرانسپورٹیشن کی قیمت بڑھے گی اور اس کا منفی اثر زیادہ ہوگا۔‘

ثنا توفیق کے نزدیک حکومت اس پروگرام پر بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر عمل نہیں کر سکے گی

تاہم ثنا توفیق نے کہا ’اب الیکشن سے قبل عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات سامنے آ سکتے ہیں۔‘

جبکہ خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’رعایتی پیٹرول فراہم کرنے کا منصوبہ پی ڈی ایم کے لیے سیاسی طور پر زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close