طلال نے یونیورسٹی کے آخری سمسٹر تک اپنی کزن کے بارے میں نہیں بتایا اور نہ ہی کبھی یہ عندیہ ظاہر کیا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کرے گا۔ یہ بات اس نے اس وقت ظاہر کی، جب ہم نتیجے کا انتظار کر رہے تھے اور اس کے بعد عملی زندگی کی کٹھنائیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔ پورے پانچ سال تک میں اور طلال اس طرح ساتھ تھے، جیسے جڑواں سائے۔ ہم دونوں پروفیسرز کا لیکچر تحریر کرتے اور کلاس کے بعد اس کا تقابل کرتے۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ دونوں کی تحریر بالکل ایک جیسی ہوتی۔ یہاں تک کہ اگر کسی بات کی توضیح کرتے تو اس میں بھی سرِ مُو فرق نہ ہوتا۔ ہم دونوں یہ دیکھ کر ایک ہی بات کرتے: یہ تو کوئی خاص بات نہیں۔۔
یونیورسٹی میں ہمیں جو بھی دیکھتا، وہ یہی گمان کرتا کہ امتحان کے خاتمے پر ہم دونوں اپنے اپنے گھر جا کر اپنے رشتے کا اعلان کریں گے اور ہمیشہ کے لیے ازدواجی بندھن میں بندھ جائیں گے۔ وہ سب ہمیں ساتھ دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے۔ اگر ہم دونوں غائب ہو جاتے تو کوئی ہمیں ڈھونڈنے نہ آتا، بلکہ میری سہیلی یا طلال کا دوست بس یہ کہہ دیتے کہ طلال ماہا کے ساتھ ہوگا۔
غیرملکی ہم جماعت طلال کا تلفظ عجیب انداز سے کرتے اور میں بہت ہنستی۔۔ میں اسے چھیڑتی کہ تم طیلال (عربی میں پہاڑی کو طیلال کہا جاتا ہے) ہو، میری اپنی پہاڑی۔۔ اور وہ جھگڑالو لہجے میں کہتا کہ جو بھی کہو، تم میری ہو۔
میں اس کی بات پر یقین کر لیتی اور شرمانے لگتی۔ تاہم اس وقت میں بالکل بھی خوش نہیں تھی، جب طلال نے یونیورسٹی کے اختتام پر سچ اُگل دیا۔ اس نے تجویز دی کہ وہ اپنی کزن سے شادی کرے گا اور کچھ مہینوں بعد کزن کے غیر مناسب رویے پر احتجاج کر کے قبیلے کے سامنے اسے قصور وار اور خود کو معصوم ثابت کر دے گا۔ میں نے رُکھائی بلکہ کرختگی سے یہ تجویز رد کر دی۔ میں کسی اور عورت کو اپنی جگہ کیسے دے سکتی تھی۔۔ میں اُسے ان رسومات کی اجازت کیسے دے سکتی تھی، جو میں اپنے خوابوں میں طلال کے ہم راہ نہ جانے کتنی بار منا چکی تھی؟ طلال نے تو سب کے لیے قابلِ قبول حل پیش کیا تھا مگر مجھے یہ کسی صورت منظور نہ تھا۔ دونوں اپنی پروازوں پر واپس لوٹے۔
میں اپنا بکھرا وجود اور اکیلا پن لیے اپنے والد کے پاس آ گئی۔ میرے والد واحد شخصیت تھے، جن کی محبت کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ پیار ایسا نہ تھا کہ کسی اور کی وجہ سے کم ہو جائے۔ جلد ہی طلال کی شادی کی خبر آئی اور میں دکھ، افسردگی اور خاموشی کی چادر تان کر جیون بتانے لگی۔ برسوں تک میرے والد ہی میری محبت کے اہل رہے تھے۔ ماں کے گزرنے کے بعد انہوں نے صرف میرے لیے دوسری شادی نہیں کی۔ ان کے عزیز و اقارب نے انہیں بہت سمجھایا، مگر وہ مجھ پر اپنی محبت نچھاور کرتے رہے۔ ان کی عمر بڑھتی جا رہی تھی، توانائی کم ہوتی جا رہی تھی، مگر وہ مجھے دیکھ دیکھ کر جیتے رہے۔ جب میں نے احمد کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو مجھے یوں لگا، جیسے میرے والد اس کا برا منائیں گے۔
احمد کی شخصیت کا اختصاص اس کی جذبات سے بھرپور گفتگو اور اس کے لہجے سے پھوٹنے والی سچائی تھی۔ اُس کے دل میں صرف ایک جذبہ تھا؛ محبت! اور وہ اسی جذبے کے زیرِ اثر بولتا۔ احمد اس ادارے کا سربراہ تھا، جس میں میرا تقرر ہوا تھا۔ وہ بے حد متاثر کُن شخصیت، گفتگو، تجربے کا حامل تھا اور اس کی سربراہی میں کام کے طویل اوقات خوش گوار انداز میں گزر جاتے۔ اس کی انتظامی صلاحیتیں بہت سے پوشیدہ پہلو بھی کھوج کر درست کر دینے کی اہل تھیں۔ میں اس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی جا رہی تھی۔ اس کا سب سے رویہ بیحد مشفقانہ تھا، اس لیے یہ پتا چلانا بے حد دشوار تھا کہ اس کے دل میں میرے لیے کیا تھا؟ مثال کے طور پر میرے دفتر پہنچتے ہی انٹر کام پر اس کی آواز آتی: ’’صبح بخیر میڈم!‘‘
اس کی آواز میں کچھ ایسا ہوتا، گویا وہ کچھ اور کہنا چاہ رہا ہے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ مجھ سے اس دن ہونے والی میٹنگ میں ہونے والی گفتگو پر قانونی رائے کا طالب ہوتا۔۔ اور مزید کوئی بات کہے بغیر فون بند کر دیتا۔ اس کی یہی ادا مجھے اس کی طرف مائل ہونے پر مجبور کر گئی۔
ایک طرف جہاں میں اس کی عزت کرتی، وہیں میرے پورے جسم میں بھرپور جذبہ بھر جاتا، خوشی کی لہریں پھوٹنے لگتیں۔ مجھ پر طاری دکھ کی چادر اُترنا شروع ہو گئی اور بنجر زمین پر نئے پودے اگنا شروع ہو گئے۔ سال چٹکیوں میں بیت گیا اور ہمارے ادارے کو تفویض کردہ کام تکمیل کے قریب پہنچا۔ میں نے اسے موخر کرنے کی کوشش کی تاہم رپورٹ جمع کروانے کا سمے آہی گیا۔ احمد نے سب کو طلب کیا اور پوری ٹیم کو اپنی اور ادارے کے بڑوں کی طرف سے شاباش دی۔
پوری میٹنگ میں ہم یعنی میں اور وہ ایک دوسرے کو دُزدیدہ نظروں سے دیکھتے رہے۔ آخر اس نے سب کو یہ کہہ کر رُخصت کر دیا ’’انشااللہ! جلد ہی کسی اور پراجیکٹ میں دوبارہ ملاقات ہوگی‘‘
سب اس کا شکریہ ادا کرتے، ایک ایک کرکے رُخصت ہو گئے۔ میں اپنے کمرے میں ہی رہی۔ احمد میرے کمرے میں آیا ’’مس ماہا‘‘
’’جی‘‘
’’آپ جانتی ہیں کہ میں شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ ہوں، مگر میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘
اس بار انکار کی گنجائش نہ تھی۔ میں نے طلال والے واقعے کے بعد آئیڈیل وغیرہ کے خواب دیکھنے چھوڑ دیے تھے۔ میرے والد کو دُکھ تھا کہ میں کسی کی سوتن بن رہی ہوں مگر میں نے یہ سودا منظور کر لیا۔ پہلی بیوی اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ رہے گی، جب کہ میں علاحدہ تو پھر کیا پریشانی ہو سکتی ہے۔ یوں میں احمد سے باقاعدہ شادی کر کے اس کی بیوی بن گئی۔ جاننے والوں نے الٹی سیدھی باتیں بھی کیں مگر میں نے شادی کی تھی، کوئی گناہ نہیں۔
احمد کی پہلی بیوی نے بچوں کی خاطر مجھے برداشت تو کر لیا مگر تین ماہ بعد اس نے طلاق لے لی۔ اس کے مطابق وہ یہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی کہ اس کے شوہر میں کوئی اور عورت اس کی شراکت دار ہو چکی ہے۔ احمد نے اسے سمجھایا بجھایا کہ وہ اس کے بچوں کی ماں ہے اور رہے گی، مگر وہ خاموشی سے علاحدہ ہو گئی۔ مجھے احمد کے اس طرح اسے روکنے پر مایوسی ہوئی مگر میں اپنی سوتن کی روانگی پر خوشی سے نہال ہو گئی۔ ہاں دل کے نہاں گوشے میں ایک وسوسہ جاگا، مگر میں نے اسے نظر انداز کر دیا۔
اب میرا خاوند صرف میرا ہو چکا تھا۔ میرے گھر میں کوئی اور شریک نہیں رہا تھا اور مجھے وہ جگہ آخر کار مل چکی تھی، جو میری والدہ کی وفات سے پہلے انہیں حاصل تھی۔ وہ جگہ، جو میرے والد کسی اور عورت کو دینے پر تیار نہیں تھے۔ اب وقت آ چکا تھا کہ میں اپنے شوہر کے پیار بھرے سمندر میں گھومتی پھروں۔ یہ ڈر ذہن سے نکل چکا تھا کہ احمد کے پیار پر کوئی بند باندھ لے گا۔ میری خوشی چھپائے نہ چھپ رہی تھی اور اسی خوشی میں دو برس بیت گئے۔
سارا عرصہ نہ میں نے، نہ احمد نے بچے کے بارے میں سوچا۔ میرے لیے تو یہی بہت تھا کہ میں احمد کی اکلوتی بیوی، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھ رہی ہوں، مگر احمد نے غائب رہنا شروع کر دیا تھا۔ میرے شوہر کو میری خوشی چُبھ رہی تھی کہ اس خوشی کے ساتھ اس کا غم جُڑا تھا۔ بچوں کی آنکھوں میں میرے لیے نفرت اور الزام نظر آتا۔ وہ ہر رات عقبی باغیچے میں خود سے باتیں کرتا اور سگرٹیں پھونکتا رہتا۔ وہ میرے پاس آنے سے کترانے اور شاید میرے قرب سے اُلجھن محسوس کرنے لگا تھا۔ میری خواہش تھی کہ گھر کا ماحول خوش گوار رہے، جس میں مجھے برابر کی تکریم ملے مگر وہ مجھے گھر پر محدود کرنے کے در پے تھا۔ بچوں کے سامنے وہ بہت رکھائی سے پیش آتا۔ میں ہر جگہ خود کر مسز احمد کہلوانا پسند کرتی مگر وہ ایسی محفلوں سے پہلو تہی کرنے لگا تھا۔ میری نظر میں اس کے بچے اسے مجھ سے چھین رہے تھے۔ میں خاموش رہی اور اس سے ذرا بھی نہ جھگڑی کہ بچے اسی کے تھے۔
تاہم اندر ہی اندر ایک ڈر دل میں بیٹھ چکا تھا۔
میرے والد کہاں تھے؟ میں ان سے کیا مشورہ کرتی؟ انہیں کیا بتاتی؟ دوسری بیوی بننا میری غلطی تھی۔۔ مجھے علم تھا کہ وہ اپنے کام میں مشغول ہے مگر میری چَھٹی حِس کچھ اور اشارے کر رہی تھی۔ یہ واہمہ نہ جانے کیسے دل میں جاگا مگر آہستہ آہستہ اس نے میری پَور پَور میں گھر کر لیا۔
احمد کو مجھ سے ایک بچے کی خواہش تھی مگر شاید وہ اب سرد ہو چکی تھی۔ میں نے ہر بار اپنے دل سے اس کی وجہ پوچھی مگر جواب نہ ڈھونڈ سکی۔ بعض اوقات کسی مسئلے کاحل نہ تلاش کرنا ہی مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ جو شے ہم دیکھ نہیں پاتے، اسی میں ہی سب سے زیادہ کشش ہوتی ہے۔ میں نے احمد کی خاموشی کا احترام کیا۔ اپنے قرب سے اجتناب پر اس سے کوئی شکوہ نہ کیا۔ وہ اپنی مصروفیات میں گُم رہا اور میں ماتھے پر شکن لائے بغیر اس کی خادمہ بنی رہی۔ دل میں مسلسل بڑھتے اندیشوں اور احمد کی بے رخی کے باوجود میں نے مستقل چپ طاری کی ہوئی تھی۔
آخر ایک صبح اس نے مجھے مخاطب کیا۔ میں ابھی ناشتے کی میز سمیٹ رہی تھی کہ وہ بولا ’’ماہا! مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے، مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ کیسے شروع کروں۔۔“
میرا وجود کرچی کرچی ہوگیا اور میرے منہ سے نکلا
”میں جانتی ہوں احمد یہ کسی عورت کے بارے میں ہے۔“
مصنفہ کا تعارف: دوہا کے قریبی قصبے میں پیدا ہونے والی ھدیٰ النعیمی پیشے کے لحاظ سے Medical Physicst ہیں۔ انہوں نے یہ ڈگری قاہرہ سے حاصل کی۔ مصر میں قیام کے دوران انہوں نے افسانے لکھنے شروع کیے اور وہیں ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ ان کی ایک کہانی ’لیلیٰ اور میں‘ ریڈ رائڈنگ ہُڈ کا منظر نامہ پیش کرتی ہے، جس میں ہیرو کا کردار کسی بھیڑیے کی مانند دکھلایا گیا ہے۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’اباطیل‘ کو جدید قطری افسانے کا سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے۔ آج کل وہ حماد میڈیکل کارپوریشن میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔