انسانی اسمگلر اب پاکستانیوں کو پھانسنے کے لیے کون سا نیا جال بچھا رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

انسانی اسمگلر اب پاکستانیوں کو بیرونِ ملک بھیجنے کے لیے نئے طریقوں سے پھانسنے کی کوششیں کر رہے ہیں، ان طریقوں کا پتا آپ کو ملائیشیا میں موجود ایک پاکستانی مستنصر حسین کی کہانی پڑھ کر لگے گا

مستنصر ملائیشیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بے چینی اور پریشانی کے عالم میں ایک ایسی ڈاک کا انتظار تھے، جس میں ان کو اپنا پاسپورٹ ملنا تھا

بالآخر وہ دن آ ہی گیا، جب ان کو ڈاک موصول ہوئی اور اس میں ان کا پاسپورٹ تھا۔ اس پاسپورٹ پر آسٹریلیا کا ویزا لگا ہوا تھا۔ ویزا دیکھ کر مستنصر نے سکھ کا سانس لیا

اگرچہ انہیں ویزا مل گیا تھا، لیکن ابھی ان کی فکر پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے پاکستان سے اپنے قریبی دوستوں اور خاندان کے اور افراد کے پاسپورٹ بھی ویزا لگوانے کے لیے سہیل صدیقی نامی ایک ایجنٹ کو دے رکھے تھے، جو کئی ملکوں میں کام کر رہا تھا

جب ساتوں افراد کو پاسپورٹ مل گئے تو ایجنٹ نے بقایا رقم کی مانگ کرنا شروع کر دیا، لیکن اس سے پہلے ہی مستنصر پر ایک ایسا انکشاف ہوا، جس نے انہیں مزید پریشان کر دیا۔۔ انہیں پتا چلا کہ ان کے پاسپورٹ پر لگنے والا ویزا تو جعلی ہے

مستنصر بتاتے ہیں ”ایجنٹ سہیل صدیقی کے ساتھ میں نے سات ویزوں کا اَسی لاکھ روپیہ طے کیا تھا، یہ ورک ویزے کے لیے تھا۔ ہم اس کو پینسٹھ لاکھ روپے دے چکے تھے، باقی پیسے پاسپورٹ ملنے کے بعد دینا تھے، لیکن اس سارے عمل میں غیر معمولی تاخیر ہو رہی تھی“

مستنصر کے مطابق ”جب پاسپورٹ مجھے ملا تو دو دن کے بعد پاکستان میں میرے کزنز کو بھی ملے، تو ہم سے سہیل نے باقی کے پیسوں کا تقاضا کیا۔ تو اس وقت ایسے ہی ہمارے دل میں خیال آیا کہ ویزوں کو چیک کروا لیا جائے۔ ہم کون سا دو نمبر کام کر رہے تھے، ہم نے جینوئن کام کے پیسے دیے تھے۔ جب ہم نے اپنے آسٹریلین ویزوں کو چیک کروایا تو وہ جعلی تھے“

مستنصر نے ایجنٹ سے رابطہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ ’کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی، آپ پاسپورٹ واپس دیں‘ پاسپورٹ واپس دیے تو وہ سہیل نامی شخص پاسپورٹ اور پیسے سمیت غائب ہو چکا ہے۔ اس وقت ملائشیا میں پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے ایف آئی اے کو درخواست دی گئی جو اب اس شخص کی کھوج میں ہے“

پنجاب کے ضلع قصور میں ایف آئی اے کی ٹیم نے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا ہے، جو اس وقت تک مختلف لوگوں سے ورکنگ ویزوں کی مد میں دس کروڑ روپے اکھٹے کر چکا ہے۔ طیب علی نامی شخص نے شہر میں جگہ جگہ بینر لگوا رکھے تھے کہ مختلف ملکوں کے ورک پرمٹ ویزے دستیاب ہیں

تاہم ایف آئی اے کے اینٹی ہیومین اسمگلنگ ونگ نے طیب علی کو اس وقت گرفتار کیا، جب وہ مختلف لوگوں سے دس کروڑ سے زائد رقم اینٹھ چکا تھا اور اب فرار ہونے کے لیے پر تول رہا تھا

یونان میں کشتی ڈوبنے کے واقعات کے بعد پاکستان میں کام کرنے والے انسانی اسمگلروں اور ایجنٹس نے اپنے طور طریقوں میں خاصی تبدیلی کی ہے اور بظاہر انہیں قانونی بنا لیا ہے، یعنی ورکنگ پرمٹ اور ویزا دلانا۔۔ لیکن دراصل اب وہ لوگوں کو ورکنگ پرمٹ اور جعلی ویزوں کے ذریعے سے بے وقوف بنا رہے ہیں

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل منعم چودھری کے مطابق ”یونان کشی حادثے کے بعد بڑے پیمانے پر آپریشن کیے گئے اور ان افراد کو پکڑا گیا جو اس مکروہ دھندے میں ملوث تھے، لیکن اب انہوں نے اپنے طریقوں میں تبدیلی کی ہے“

منعم چودھری بتاتے ہیں ”اب ایف آئی اے ان افراد پر بھی کڑی نظر رکھتی ہے جو عمرہ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں ایسے بہت سے افراد کو سفر سے روکا گیا، جن پر شک گزرا اور بعد میں یہ بات ثابت ہوئی کہ انہیں وہاں سے ساؤتھ افریقہ بھیجا جانا تھا“

یوں انسانی اسمگلر اپنے پرانے طریقے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظر میں آنے کے بعد شکار پھانسنے کے لیے نیا جال لے کر آئے ہیں

منعم چودھری کہتے ہیں ”یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس میں پے درپے واقعات ہونے بعد ہی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اب انسانی اسمگلر کون سا نیا طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close