بلوچستان کا مشرقی کنارہ

سحر بلوچ

رکھنی سے جھوم کر آؤ، یا کشمور کے کنارے سے آہستہ آہستہ بھاگو، یا پھر سندھو دریا کو پار کر آؤ، دو بڑے شہر آپ کے منتظر ہوتے ہیں۔ عرف عام میں ان کو ڈیرہ جات کہا جاتا ہے۔ جو ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں کی %95 آبادی بلوچ ہے۔ ڈیرہ جات مشرقی بلوچستان کی حدود میں آتے ہیں، لیکن انتظامی طور پر یہ پنجاب کا حصّہ ہیں۔

ڈیرہ جات کی آپ کو کبھی ایک تصویر نہیں ملے گی۔ اگر وفاق کی نظر سے دیکھو تو یہ پنجاب کا پسماندہ ترین علاقہ ہے، اگر دفاعی نظر سے دیکھو تو کوئی اجنبی یہاں قدم نہیں رکھ سکتا اور اگر سرداری نظر سے دیکھ لیں تو پھر انتہائی ترقی کرتا شہر۔

بلوچستان سے یہ اہم ترین علاقے چھین کر پنجاب میں ضم کیے گئے اور اسے اپنے مرکز سے جدا کر دیا گیا۔ سرداروں نے اپنے آباء کی وراثت سمجھ کر اپنے آقا کو خوش کردیا اور یہ تحریری جواز پیش کیا گیا کہ علاقہ کو پنجاب کے باقی شہروں کے ترقی کے برابر لایا جائے گا۔

یہ بات 1949 کی ہوگی، لیکن علاقہ کا حال باقی ماندہ بلوچستان سے بالکل مختلف نہیں ہے۔ میں نے اب تک بیس سالوں میں صرف ایک یونیورسٹی دیکھی ہے، جس کی ڈگری کی عزت لاہور کے کسی پرائمری اسکول سے بھی نیچے ہے۔ جبکہ شہری فلاح و بہبود کے حوالے سے حالت زار یہ ہے کہ لوگ آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور حکومت کی پالیسی ان کے آویزاں کردہ بڑے سائن بورڈز سے واضح نظر آتی ہے، جس پہ لکھا ہے ”بھیڑ بکری پال بلوچا، ہو جا مالا مال بلوچا۔“ یعنی، اکیسویں صدی میں بھی پنجاب ان بلوچوں کو چرواہا بنے رہنے کی ہی متعصبانہ ذہنیت پر عمل پیرا ہے۔

ڈیرہ جات کی بلوچستان میں شمولیت کی تحریکیں روز اول سے جاری ہیں اور بڑی تعداد میں لوگوں میں اس حوالے سے سوچ پائی جاتی ہے۔ محکوم قوم اگر مزاحمت کرنے کی سوچے تو اگلا آپشن حاکم یہ استعمال کرتا ہے کہ وہ آپ سے ہی ایک حکمران آپ پر مسلط کر دیتا ہے، جس کے خلاف قوم بغاوت بھی نہیں کرسکتی اور اس مورتی کی پوجا کرنے میں لگ جاتی ہے.. باقی جو حاکم چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔

ایک اس سے ملتی جلتی کہانی مجھے یاد ہے کہ ایک بار شکاری کے جال میں کبوتر کی جگہ چوہے پھنس گئے۔ شکاری اب ان کو تنگ کرنا چاہتا تھا، جب ان کو بھوک لگتی ان کو ٹماٹر ڈال دیتا اور پھر وہ جال توڑنے کی کوشش میں لگ جاتے۔ جب بھی کوشش تیز ہوتی، وہ پھر ان کو ٹماٹر ڈال دیتا، وہ پھر سے جال چھوڑ کر ٹماٹر کھانے لگ جاتے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا۔

کچھ ایسا ہی ڈیرہ جات کے بلوچوں کے ساتھ ہوا ہے.. جو کبھی بھی سرائیکی صوبے میں شمولیت کے حق میں نہیں تھے لیکن جب ٹماٹر دینے کا وقت آیا تو بلوچستان کی طرح یہاں کا وزیراعلیٰ وسیم اکرم پلس بزدار صاحب کو بنا دیا گیا، جن کو میری طرح لاہور کا راستہ بھی معلوم نہ تھا۔ خیر… پورا ڈیرہ جات معصوم سے بزدار کے تخت لاہور پر بیٹھنے سے خوش ہوگیا کہ اب یہ ضرور ڈیرہ جات کو بلوچستان میں شامل کرائے گا، کیوں کہ بزدار صاحب بلوچ بھی ہے اور بلوچی اسپیکر بھی ہے۔

لیکن بادی النظر میں وفاق اپنی اس چال میں کامیاب ہوگیا. یہاں کے باسی پھر سے سرداری نظام سے امید لگا کر بیٹھ گئے جب کہ بزدار صاحب نے ایک لفظ بھی اس حوالے سے نہیں کہا۔ کسی قوم کو اس کی تحریکوں سے منتشر کرنے کے لیے ایسے حربے کافی کارگر ہوتے ہیں، جو ڈیرہ کے عوام کو بزدارصاحب کی شکل میں عطا کیے گئے ہیں۔

اس وقت نوجوانوں کی اکثریت ان چوہوں کی مانند ٹماٹر پر فوکس ہوگئی ہے، جبکہ جال کی طرف سے ان کا دھیان یکسر ہٹ گیا ہے۔ یہ قبائلی جوان بزدار صاحب کی فوٹو اپنے سوشل میڈیا کی پروفائل پر رکھ کر، ان کی جے جے کر رہے ہیں اور یہ غلط فہمی پالے بیٹھے ہیں کہ بزدار صاحب ان کی زندگیاں سہل بنائیں گے۔

میرا اپنا جتنا ڈیرہ جات سے واسطہ رہا ہے. اس میں بلوچ جوانوں کا کردار قبائلی پایا ہے۔ جس میں وہ اپنے قبیلے اور سردار کا دفاع تو کر رہے ہیں، لیکن کبھی قوم کی شناخت اور سوچ کی طرف خاص توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف میدان کے لوگ اپنی زبان، ثقافت اور شناخت بھولتے جا رہے ہیں، تو دوسری طرف بلوچستان اور ڈیرہ جات کے بیچ کا خلا بڑھتا جا رہا ہے۔ میرے قبائلی بھائی پنجاب کی جامعات میں جا کر خود کے لیے ایک عدد سپورٹ سیکرٹری کی سیٹ تو لے جاتے ہیں، مگر کبھی ڈیرہ جات کی تاریخ اور اس مسئلے کو بلوچستان و بلوچ قومی مسئلے میں نمائندگی دینے میں ناکام رہے ہیں۔

ان سب حالات پر میرا ایک ہی موقف ہے کہ جس طرح بلوچ قوم علاقوں اور قبائل میں تقسیم ہے، یہ قوم کی ایکتا کے لیے زہر قاتل ہے۔ ہمیں نہ صرف ڈیرہ جات سے سوچ کو ترقی دینے اور قومی شعور پر کام کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ بلوچستان کو بھی یہ مسئلہ own کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ مشرقی کنارہ اپنے کل کے بغیر کچھ نہیں۔ ورنہ یہ کنارہ اگر سندھ میں بہہ گیا، تو ہم کوہ سلیمان کے مرکز کو کھو کر قوم کے ایک حصے کو کھو دیں گے۔

بی ایس او جیسے قومی ادارے پر میرا بہت یقین ہے اور میں سمجھتی ہوں ہمیشہ کی طرح یہ قومی ادارہ اس مسئلہ کو قومی سیاست میں نمائندگی دے گا۔ کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ یہاں کونسلز کی علاقہ پرستی اور رقص سے ہٹ کر قومی معاملات میں کوئی توجہ نہیں ہے۔
اس تمام عمل میں اگر ڈیرہ کے قبائلی بلوچ ورناؤں کا کردار جال کے چوہوں جیسا رہا، تو بہت ہی مشکل ہو جائے گی۔ کیوں کہ یہی ہمارا سرمایہ ہیں اور ہمیں ان پر ہی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی شعوری بیداری بے حد ضروری ہے کیونکہ انہوں نے ہی آگے لیڈ کرنا ہے۔ یہ بات کاش میرے قبائلی بھائیوں کو سمجھ آ جائے۔
ورنہ یہ شعر ڈیرہ جات کے قبائلی بھائیوں کے لیے غلط نہیں ہوگا کہ؛
خواب سے بیدار ہوتا ہے گر محکوم ذرا،
سلا دیتی ہے پھر سے اسے حکمران کی ساحری!

"یہ کالم حال حوال کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں”

__________________________

سنگت میگ کے کالم اور بلاگز:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close