وفاقی وزیر داخلہ اور نون لیگی رہنما رانا ثناءاللہ نے حال ہی میں کچھ ایسے بیانات دیے ہیں، جنہیں پاکستان تحریک انصاف دھمکیوں سے تعبیر کرتی ہے
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا ”اب یا تو وہ (عمران خان) رہیں گے یا ہم، اگر ہم سمجھیں گے کہ ہمارے وجود کی نفی ہو رہی ہے تو پھر ہم ہر حد تک جائیں گے۔ اب ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ کیا اصولی ہے یا کیا غیراصولی، جمہوری ہے یا غیرجمہوری، صحیح ہے غلط نہیں رہا“
رانا ثناءاللہ نے کہا ”جب تک عمران موجود ہیں، ’ملک میں سکون‘ نہیں آ سکتا“
ان کے اس بیان کے بعد پاکستان میں پہلے سے جاری سیاسی بحران میں بھونچال آ گیا ہے۔ تحریک انصاف نے وزیر داخلہ کے اس بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر دی ہے۔ جبکہ کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں عمران خان نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا ”ہماری خواہش تو ہے کہ دونوں رہیں، لیکن اگر بات یہاں تک پہنچ گئی ہے تو پھر یہ (مسلم لیگ ن) نہیں رہیں گے“
وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے بیان پر اپنے ردعمل میں تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا کہ آپ گینگ چلارہے ہیں یا حکومت؟ کیا آپ بدمعاش ہیں۔۔ ایسے حکومت نہیں چلتی۔“
لیگی رہنما عطاءاللہ تارڑ نے رانا ثناءاللہ کے بیان کی عجیب و غریب توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہا ”بات بالکل سادہ ہے۔ رانا صاحب نے جو کہا ہے وہ نوشتہ دیوار ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ’اگر اب عمران خان کے خلاف ان مقدمات کا کوئی فیصلہ ان کے خلاف نہیں ہوتا اور وہ اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ہمیں چھوڑیں گے؟‘ میرا خیال ہے کہ اگر ہم سے کچھ نہ ہو سکا تو پھر ہماری باری ایسے ہی آئے گی“
عطاءاللہ تارڑ سے جب پوچھا گیا کہ کیا رانا ثناءاللہ کے بیان کو پارٹی پالیسی سمجھا جائے؟ تو ان کا کہنا تھا ”رانا صاحب مسلم لیگ ن کے فیصلہ سازوں میں ہے۔ ان کی طرف سے بیان ظاہر ہے مسلم لیگ ن کی قیادت کا بیان ہے“
سیاسی تجزیہ نگار لیگی قیادت خاص طور پر وزیر داخلہ کی طرف سے بیانات میں سختی اور دھمکی آمیز لب و لہجے کو آنے والے دنوں میں انتخابات کو مزید تاخیر سے جوڑتے ہیں۔ اگرچہ ایسے بیانات پہلی بار نہیں دیے گئے، جیسا کہ اس سے قبل جاوید لطیف اور طلال چوہدری گزشتہ کئی ہفتوں سے ایسی ہی جارحانہ پریس کانفرنس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کو پارٹی کے اندر مریم نواز کیمپ میں شمار کیا جاتا ہے
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما کا کہنا ہے ”ہماری پارٹی میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اب کسی بھی طرح دفاعی پوزیشن نہیں لی جائے گی اور جارحانہ رویہ اپنایا جائے گا۔ آنے والے دنوں میں پارٹی کے اندر ہونے والے اس فیصلے کے اثرات ملکی سیاست میں بھی نظر آئیں گے۔ رانا ثناء اللہ نے جو کہا ہے یہ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ اب پارٹی کا بیانیہ اسی طرف ہی جائے گا“
لاہور میں پیر کو مسلم لیگ ن کے رہنما سعد رفیق نے ایک پریس کانفرنس میں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سیاست میں موجودہ تلخی کا ذمہ دار قرار دیا تاہم آخر میں یہ بھی کہا ”سیاست جتنی بھی تلخ ہو جائے معاملہ آخر میں میز پر ہی حل ہوتا ہے“
لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بیانات کی تلخی سے لگتا ہے کہ سعد رفیق جس میز کی بات کر رہے ہیں، اس میز کو دیمک لگ چکی ہے، ایسے میں معاملات کے حل کے لیے صرف ایک ہی راستہ انتخابات کا رہ جاتا ہے لیکن سیاسی میدان کے تیور دیکھتے ہوئے برسر اقتدار ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتیں اس راستے پر چلنے سے کتراتی نظر آتی ہیں، تو ایسے میں یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ معاملہ ’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ پر پہنچ چکا ہے۔