حکومت کی جانب سے روس سے خام تیل کی درآمد کے دعوے تو بڑے سامنے آئے، لیکن جہاں تک اس پر عمل شروع کرنے کی بات ہے تو اس میں پیش رفت پر پاکستانی حکومت کی سستی دیکھ کر روس مایوس ہو گیا ہے
ذرائع کے مطابق روس پہلے ہی پاکستان کی جانب سے خام تیل درآمد کرنے کے اقدام پر شبہات کا اظہار کر چکا ہے اس لیے اس نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ پہلے خام تیل کا ایک کارگو درآمد کرے، تاکہ پاکستان کی سنجیدگی کی نشاندہی ہو سکے
پاکستان نے اگلے ماہ ایک کارگو درآمد کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم حالیہ پیش رفت میں روس یہ جان کر مایوس ہوا کہ پاکستان نے روس سے خام تیل خریدنے کے حوالے سے کی گئی یقین دہانیوں کے باوجود ابھی تک کسی قسم کے اقدام کا آغاز نہیں کیا
پاکستان نے روس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک نئی اسپیشل پرپز وہیکل (SPV) کمپنی قائم کرے گا، جو پاکستانی ریفائنریوں کو روسی تیل کی درآمد کی ذمے دار ہوگی۔ تاہم موجودہ حکومت نے اس منصوبے پر کام ہی شروع نہیں کیا اور (SPV) کو رجسٹر کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا، جس کے باعث روس ناراض ہوا، پاکستان کو اس کمپنی کو سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) میں رجسٹر کرنا تھا
وزیر پٹرولیم نے اعلان کیا تھا کہ روس سے خام تیل کی پہلی کھیپ اپریل کے پہلے ہفتے تک پہنچ جائے گی۔تاہم ایس پی وی کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے ذرائع نے بتایا کہ پہلی کھیپ اب اس سال مئی میں آنے کی امید ہے۔ لیکن اگر یہی صورتحال برقرار رہی، تو یہ بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ روس کے ساتھ خام تیل کی قیمتوں کے بارے میں گفت و شنید سب سے اہم مسئلہ رہا ہے
امریکا نے حال ہی میں پاکستان کو کہا تھا کہ وہ روس کے ساتھ قیمت پر بات چیت کے لیے G7 تیل کی قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار پر عمل کرے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ خام تیل کی قیمتوں کو حتمی شکل دینے میں بہت سی پیچیدگیاں تھیں
ذرائع نے بتایا کہ عربین خام تیل نے ڈیزل زیادہ اور فرنس آئل کم پیدا کیا۔ لیکن روسی خام تیل کے معاملے میں یہ اس کے برعکس تھا جو زیادہ فرنس آئل اور کم ڈیزل پیدا کرے گا۔ لہٰذا ڈیزل کی کم پیداوار روس کی طرف سے خام تیل کی تجارت پر پیش کردہ مراعات کو ختم کر دے گی۔
ذرائع کے مطابق عربی تیل 45 فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل (HSD) اور 25 فیصد فرنس آئل پیدا کرتا ہے۔ روسی خام تیل 32 فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل اور 50 فیصد فرنس آئل پیدا کرے گا
ماسکو پہلے ہی اسلام آباد کو یومیہ ایک لاکھ بیرل خام تیل برآمد کرنے کی پیشکش کر چکا ہے۔ چونکہ پاکستان کو ڈالر کی کمی کا سامنا ہے، اس لیے ملک کے لیے روسی خام تیل کی اسی کرنسی میں ادائیگی کرنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل ایک غیر ملکی کمپنی نے پاکستانی ریفائنری کو روسی خام تیل درآمد کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن پاکستانی بینکوں نے ادائیگی سے انکار کر دیا تھا
روس نے اب پاکستان کو خام تیل کی سپلائی کے بدلے تین کرنسیوں روسی روبیل، چینی ین اور یو اے ای درہم میں ادائیگی حاصل کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان روس کے ساتھ تیل کا معاہدہ کرنے اور ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں ادائیگی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا ریلیف ہو گا، لیکن فی الحال حکومتی اقدامات کو دیکھ کر یہ اتنا جلد ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا۔