جرمنی کی حکومت ملک میں مختلف شعبوں میں بیس لاکھ خالی آسامیوں کے لیے بیرون ممالک سے پیشہ ورانہ افراد کو خصوصی ویزے دینا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے اسکلڈ لیبر امیگریشن قانون کا ایک نیا مسودہ پیش کیا گیا ہے
واضح رہے کہ جرمنی مختلف شعبوں میں ہنرمند افراد کی شدید کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ نرسنگ کا عملہ، آئی ٹی ماہرین، ہاتھ سے کام کرنے والے کاریگر، لاجسٹک ماہرین اور دیگر کئی شعبہ جات میں بھی کام کرنے والے ہنرمند ملازمین کی قلت ہے
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کو اپنی لیبر مارکیٹ کو مستحکم رکھنے کے لیے ہر سال چار لاکھ ہنر مند افراد کو ملک میں امیگریشن کے لیے متوجہ کرنا پڑے گا۔ اس کمی کی ایک بڑی وجہ سن 1960ع کی دہائی میں پیدا ہونے والی ‘بے بی بومر جنریشن‘ ہے، جو بہت جلد ریٹائر ہونے جا رہی ہے
واضح رہے کہ بے بی بومرز کی اصطلاح 1945 یعنی دوسری عالمی جنگ کے اختتام اور 1960 کی دہائی کے وسط کے میں پیدا ہونے والوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اپنے کیریئر کے دوران ان کی زیادہ تعداد اور معیشت کی نسبتاً خوشحالی کی وجہ سے، بے بی بومرز اقتصادی طور پر ایک بااثر نسل ہیں
جرمن حکومت نے ہنرمند افراد کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اب پہلا قدم اٹھایا ہے اور وفاقی کابینہ نے ‘ہنر مند لیبر امیگریشن قانون‘ کا مسودہ منظور کر لیا ہے۔ وزیر داخلہ نینسی فیزر کا کہنا ہے کہ اس کے لیے جرمن معاشرے میں کھلے ذہن کا رویہ اور غیر ملکی لوگوں کو خوش آمدید کہنے کا کلچر بہت اہم ہے تاکہ ہنر مند افراد اور ان کے ساتھ آنے والے خاندان دونوں ہی یہاں راحت محسوس کر سکیں
وفاقی وزارت داخلہ کا قانونی مسودہ ایسے غیر ملکی پیشہ ورانہ تربیت یافتہ افراد کے لیے روزگار کے نئے مواقع کھولنا چاہتا ہے، جو جرمنی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے کابینہ نے ’اسکلڈ امیگریشن ایکٹ‘ میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے
اس قانونی مسودے میں کہا گیا ہے کہ ان اصلاحات سے یورپی یونین سے باہر کے ممالک کے ہنرمند تارکینِ وطن کی تعداد میں سالانہ ساٹھ ہزار افراد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ مسودہ غیر ملکی کارکنوں کو ملک میں داخل ہونے کے لیے تین راستے فراہم کرتا ہے
امیگریشن کے لیے جرمنی میں تسلیم شدہ پیشہ ورانہ یا یونیورسٹی کی ڈگری، اور ملازمت کا معاہدہ (جاب کانٹریکٹ) درکار ہوگا۔
ڈگری یا پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبے میں کام کرنے کے کم از کم دو سال کے تجربے کی ضرورت ہوگی۔
نیا ’چانس کارڈ‘ اُن افراد کے لیے ہے، جن کے پاس نوکری کی پیشکش نہیں ہوگی، لیکن وہ کام تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
’چانس کارڈ‘ پوائنٹس پر مبنی نظام کی پیروی کرتا ہے جو قابلیت، زبان کی مہارت، پیشہ ورانہ تجربہ، جرمنی سے تعلق اور عمر کو مدنظر رکھتا ہے
مستقبل میں زیادہ لوگ نام نہاد ‘ای یو بلیو کارڈ‘ حاصل کر سکیں گے، کیونکہ تنخواہ کی مقررہ حد کم کی جائے گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین کے لیے یورپی یونین کا ’بلیو کارڈ‘ دس سال قبل جرمنی میں متعارف کرایا گیا تھا
اس کارڈ کی بدولت ماہرینِ تعلیم کسی قسم کی ابتدائی جانچ کے بغیر ملازمت کے لیے جرمنی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یعنی انہیں زبان کی مہارت ثابت کرنے اور اس شعبے میں جرمنی یا یورپی یونین کے شہری دستیاب ہیں یا نہیں، جیسی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن انہیں ’بلیو کارڈ اسکیم‘ میں مقرر کردہ کم از کم آمدنی حاصل کرنا ہوگی، جس کی حد کو اب کم کیا جائے گا
اس سے قبل سالانہ آمدن کم از کم 58,400 یورو جبکہ ملازمین کی قلت سے دوچار پیشے میں 45,552 یورو ثابت کرنی پڑتی تھی۔ آئی ٹی ماہرین یونیورسٹی کی ڈگری کے بغیر ’ای یو بلیو کارڈ‘ حاصل کر سکتے ہیں تاہم ان کے پاس وسیع تر پیشہ ورانہ تجربہ ہونا ضروری ہے
جرمنی کی مخلوط حکومت کی کابینہ نے البانیہ، بوسنیا ہرزیگووینا، کوسووو، جمہوریہ شمالی مقدونیہ، مونٹی نیگرو اور سربیا سے ملازمت کے متلاشی افراد کے حوالے سے ضوابط میں توسیع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، جن کی مدت اس سال کے آخر میں ختم ہونے جا رہی تھی۔ اس اقدام کے ذریعے جرمنی میں کاروباری صنعت سالانہ پچاس ہزار افراد کو بھرتی کر سکے گی
اس حوالے سے بائیں بازو کی جماعت دی لنکے کی لیبر مارکیٹ کی ماہر سوزان فرشل کا کہنا ہے ”غیر محفوظ روزگار اور استحصالی حالات میں امیگریشن کو توسیع دینے کے بجائے اسے مضبوطی سے روکا جانا چاہیے“
دوسری جانب قدامت پسند جماعت سی ڈی یو اور سی ایس یو کے پارلیمانی نائب ہیمان گروہے نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا قانونی مسودہ زیادہ پڑھے لکھے افراد کو جرمنی ہجرت کرنے کی ترغیب دینے کے لیے بالکل بھی موثر نہیں ہے
ہیمان گروہے کہتے ہیں ”نئے ضابطوں سے زیادہ اہم بات ان پر بہتر عمل درآمد کرنا ہے۔ امیگریشن کے خواہش مند ہزاروں ہنرمند افراد کو جرمنی کے ویزے یا اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کی تصدیق کے لیے مہینوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ہمیں بیرونِ ملک سفارتی مشنوں میں عملے کی ضرورت ہے، ناکہ کسی نئے ضابطے کی“
رائنشے پوسٹ کے ایک ماہر گیرڈ لانڈسبرگ نے تیز تر ڈیجیٹائزڈ ویزا جاری کرنے کے طریقہ کار کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ تمام صنعتی ممالک ہنر مند افراد کے لیے مقابلہ کر رہے
گیرڈ لانڈسبرگ کہتے ہیں ”اگر پاکستان یا بھارت کے آئی ٹی ایکسپرٹ کو ویزے کے لیے قونصل خانے میں ملاقات کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، تو وہ کسی اور ملک کا انتخاب کریں گے“
اس کے علاوہ بعض ناقدین نے جرمنی میں بیوروکریسی کو کم کرنے اور انتظامی معاملات کو تیز کرتے ہوئے ہنر مند کارکنوں کی امیگریشن کے طریقہ کار کو یکسر آسان بنانے کے مطالبے پر بھی زور دیا ہے
اسکلڈ مائیگرینٹس کے قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے کابینہ کے مسودہ قانون کو اب جرمن وفاقی پارلیمان میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا۔