بجاؤ تالی!!!

کلیم عبدالرحمٰن

ملک ایک طویل سیاسی بحران اور اقتصادی بحران کے بعد اب آئینی اور عدالتی بحران کی زد میں ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ تجزیہ نگار اس ہمہ جہت بحران کو 1970 کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا بحران قرار دے رہے ہیں۔

اس وقت سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کے حوالے سے ایک ازخود نوٹس زیر سماعت ہے۔۔ لیکن زیر سماعت کا لفظ محض رسماً استعمال کیا جا رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی، کہ ہو کیا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان اپنے ہی چیف کے خلاف صف آرا نظر آ رہے ہیں۔ روزانہ کوئی جج اس کیس کو سننے والی بنچ سے الگ ہو رہا ہے، بنچ ٹوٹ رہا ہے، بن رہا ہے اور ٹوٹ رہا ہے

یہ از خود نوٹس چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے لیا تھا، اور پی ڈی ایم حکومت اس کے خلاف اس حد تک چلی گئی کہ دو دنوں میں تمام ایوانوں سے نہ صرف از خود نوٹس کے خلاف قانون منظور کرا لیا بلکہ سپریم کورٹ کے خلاف باقاعدہ قرارداد بھی منظور کرا لی

دلچسپ بات یہ ہے کہ ازخود نوٹس کے خلاف یہ پھرتیاں جس کثیرالجماعتی اتحادی حکومت کی جانب سے دکھائی جا رہی ہیں، وہ خود اسی چیف جسٹس کے لیے گئے ایک ازخود نوٹس کی وجہ سے وجود میں آئی، اور تب ان تمام جماعتوں کے سربراہان نے یہ زبان ہو کر آدھی رات کے اس ازخود نوٹس کو عدالت کا تاریخی اقدام اور جمہوریت کی جیت قرار دیا تھا

میرے ہاتھوں کے تراشے ہوۓ پتھر کے صنم،
آج بُت خانوں میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔۔

اور

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں،
آج ان کو زبان ملی تو ہم پر برس پڑے!

یہ سب کچھ صرف ایک مقصد کے تحت کیا جا رہا ہے اور وہ ہے انتخابات کا التوا۔۔ اس وقت حکومت کی ترجیحات میں پچاس سال کی تاریخی مہنگائی سے پستے اور آٹے کی قطاروں میں کچل کر مرتے لوگ نہیں ہیں۔ تمام برسر اقتدار جماعتیں جس مسئلے کو لے کر سر جوڑے بیٹھی ہیں، وہ ہے کسی صورت انتخابات نہیں ہونے دینے

قطر میں منعقدہ فیفا ورلڈکپ میں سیکورٹی سنبھالنے والے ہمارے لا انفورسمنٹ اداروں نے اپنے ملک میں انتخابات کے لیے سیکورٹی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے لیے بنائے گئے ادارے الیکشن کمیشن کی ایک ہی ضد ہے ”الیکشن نہیں کرانے۔۔!“

بجاؤ تالی!

نوے دن میں انتخابات کے انعقاد کا واضح آئینی حکم موجود ہونے کے باوجود آئین کی تشریح کرنے والے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اس آئینی حکم کے نفاذ کو روکنے کے لیے باقاعدہ صف آرا ہیں

اسی صف میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی موجود ہیں۔ جن کے گزشتہ سالوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے ایک کیس کی سماعت میں دیے گئے ریمارکس کو موجودہ صورتحال میں رکھ کر پڑھیں تو دانتوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ تب سمجھ آتا ہے کہ اصولوں کی بے یہ بے اصولی کس انتہا کو چھو رہی ہے

ان کے ماضی کے ریمارکس ملاحظہ کیجیے اور ان کے موجودہ موقف کو دیکھ کر سر دھنیے

28 جنوری 2021:
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے پنجاب ،سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول طلب کر لیا، بلدیاتی انتخابات نہ کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ لگتا ہے جمہوریت اب ترجیح ہی نہیں رہی، الیکشن کمیشن آئین سے نہیں کہیں اور سے ہدایات لے رہا ہے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے جا رہے؟ عوام کو جمہوریت سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ بلدیاتی انتخابات نہ کرا کر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، کیا چیف الیکشن کمشنر اور ممبران نے اپنا حلف نہیں دیکھا؟ کیا چیف الیکشن کمشنر نے آئین نہیں پڑھا!؟

جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ آئین پر عمل نہیں کروا سکتے تو صاف بتا دیں! الیکشن کمیشن بتائے کب لوکل باڈی الیکشن کرانے ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا: لگتا ہے جمہوریت اب ترجیح ہی نہیں رہی، الیکشن کمیشن آئین سے نہیں کہیں اور سے ہدایات لے رہا ہے

جسٹس قاضی فائز عیسی نے دیگر صوبوں کی تاریخیں دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن نہیں کروا سکتے تو مستعفی ہو جائیں، قوم پربہت ظلم ہو چکا، مزید نہیں ہونا چاہیے، آپ آئین نہیں کسی اور کے تابع لگتے ہیں۔۔ جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے ہی ملک برباد ہوا۔۔ چیف الیکشن کمشنرکا نام آئین میں موجود ہے، اپنی طاقت پہچانیں۔۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ملک میں خطرناک صورتحال ہے، قدرت نے موقع دیا ہے اپنی ذمہ داری پوری کریں!

بجاؤ تالی!

4 فروری 2021:
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے ’ملک میں میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے‘

عدالت عظمیٰ میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’ملک کو منظم طریقے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے، حکومت مخالف بات کرنے والے ہر فرد کو غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محب وطن بتایا جا رہا ہے‘

انہوں نے کہا ’جب میڈیا تباہ ہوتا ہے تو ملک تباہ ہو جاتا ہے۔۔ صبح لگائے گئے پودے کو کیا شام کو اکھاڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ جڑ کتنی مضبوط ہوئی ہے؟‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’اٹارنی جنرل صاحب ہاں یا ناں میں جواب دیں کہ کیا ملک میں میڈیا آزاد ہے؟‘

اٹارنی جنرل نے کہا ’ہاں یا ناں کے علاوہ کوئی اور آپشن دیں۔‘ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں موجود میڈیا نمائندگان سے پوچھا ’میڈیا والے ہاتھ کھڑا کریں کہ کیا آپ لوگ آزاد ہیں؟‘

کمرہ عدالت میں موجود میڈیا کے کسی نمائندے نے ہاتھ کھڑا نہ کیا

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ”ججز کو ایسی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن کیا کریں ملک میں آئیڈیل صورت حال نہیں ہے، ہم کب تک خاموش رہیں گے؟“

چیف الیکشن کمشنر نے کہا این سی او سی کے ہدایات کے باوجود ہم نے ضمنی انتخابات کرائے۔

قاضی فائز عیسی نے کہا این سی او سی کیا ہے، وہ ادارہ کونسے قانون کے تحت بنا ہے؟ کیا آپ اس ادرے کے ماتحت ہیں یا پھر وہ آپ کے ماتحت ہے؟

عدالت کو بتایا گیا کہ این سی او سی ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بنا ہے۔ جج نے کہا افسوس ہے کہ ایک آئینی ادارے کے افراد کا یہ لیول ہے!

جی ہاں۔۔۔ ایک آئینی ادارے کے فرد کا بس یہی لیول ہے۔۔ کیونکہ یہی تو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ ہے۔۔! ان کے ماضی کے یہ ریمارکس پڑھ کر، کیا مزید کسی تبصرے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔۔!؟ اگر رہتی ہے تو انہی ریمارکس سے ایک تبصرہ اخذ کیے دیتے ہیں ”الیکشن کمیشن آئین سے نہیں کہیں اور سے ہدایات لے رہا ہے!“
بجاؤ تالی۔۔۔!!!

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close