ڈولتی اور ڈوبتی معیشت، شدیدتر ہوتا مالی بحران، پچاس سالوں کا ریکارڈ توڑتی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام میں گھرا پاکستان۔۔ ان حالات میں گذشتہ چند ماہ سے مالی قرض حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی منتیں کر رہا ہے
یہاں تک کہ حکومت نے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی متعدد سخت شرائط کو بھی نافذ کیا ہے لیکن آئی ایم ایف کے اسٹاف لیول کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی
پاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل کا شکار ہے کیونکہ درآمدات اور برآمدات میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے ملکی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ گراوٹ آئی ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے بیرونی فنانسنگ مکمل طور پر رک چکی ہے۔ صنعتی ادارے بند ہو رہے ہیں اور بے روزگاری پھن پھیلائے کھڑی ہے
پاکستان قرض پروگرام کے تحت آئی ایم ایف سے 1.2 بلین ڈالر کی ادائیگی کا شدت سے منتظر ہے تاکہ ملک کے کم زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں جو اس وقت 4.2 بلین ڈالر ہیں، ایسے میں پاکستان ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے حکومت کو دو سال کی مدت کے دوران چوبیس بلین ڈالرز تک یعنی ماہانہ ایک ارب ڈالر کا قرض دینے کی پیشکش کی ہے
آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت نے چھ ماہ قبل کی گئی اس پیشکش کو زیر غور لانے سے زیادہ آئی ایم ایف کے پیر پکڑنے کو ترجیح دی؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ایکسچینج کمپنیزایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کا کہنا تھا ”ہم نے چھ ماہ قبل حکومت کو یہ پیشکش کی تھی کہ ملک کے وسیع مفاد میں ہم انھیں چوبیس سے پچیس بلین ڈالرز دو سال کے لیے اکٹھا کر دیتے ہیں“ ملک بوستان اس پیشکش کو لفاظی کے بجائے قابل عمل قرار دیتے ہیں
ان کی جانب سے اس پیشکش نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا واقعی ان کی یہ پیشکش پر عمل ممکن ہے، اور اگر ایسا ہے تو حکومت پاکستان ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کی پیشکش کے بجائے آئی ایم ایف کی شرائط کیوں مان کر عوام پر مہنگائی کے پہاڑ کیوں توڑ رہی ہے؟ اور ملک بوستان اس رقم کا بندوبست کیسے کریں گے؟
ملک بوستان کا منصوبہ کیا ہے اور وہ رقم کیسے اکٹھی کریں گے؟
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے اس بارے میں بتایا کہ پوری دنیا میں اس طرح سے پیسے اکٹھے کیے جاتے ہیں اور اس منصوبے کو ’سویپ ارینجمنٹ‘ کہتے ہیں
اس معاہدے کے تحت سمندر پار پاکستانیوں سے آج کے ریٹ پر ڈالر خریدے جائیں گے اور دو سال بعد انہیں ڈالر کے ریٹ میں فرق ادا کر کے واپس کر دیے جائیں گے
ان کے مطابق ”جب پاکستان نے 1998ع میں ایٹمی دھماکے کیے تھے اس وقت حالات اس سے بھی برے تھے۔ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ چکی تھیں۔ ابھی تو پاکستان کو آئی ایم ایف نے انکار نہیں کیا اس وقت تو مالی قرض دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان حالات میں مجھے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بحیثیت ایکسچینج کمپنی ایسوسی ایشن کے صدر بلایا تھا“
ملک بوستان کا کہنا ہے ”انہوں نے ہم سے مدد مانگی تو ہم نے دنیا بھر میں موجود سمندر پار پاکستانیوں کو متحرک کیا اور اس وقت دو سال میں دس بلین ڈالر ’سویپ ارینجمنٹ‘ کے تحت حکومت کو لے کر دیے۔ تب ڈالر کا ریٹ بھی کم ہوا۔ اب بھی ہم یہی کرنا چاہتے ہیں“
اس منصوبے پر کیسے عمل ہو گا اور رقم کی واپسی کا طریقہ کیا ہوگا، اس بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا ”ہم اورسیز پاکستانیوں، جن کے پاس بینک میں ڈالرز پڑے ہیں، انہیں ہم دو طرح کی پیشکش کرتے ہیں کہ وہ ہمیں یہ ڈالر بیچ دیں یا پھر ہمیں دو سال کے لیے ادھار دے دیں۔ دو سال بعد ہم واپس کر دیں گے۔ دو سال بعد ہم انہیں ان کے ڈالر اور اس کی قیمت میں آنے والا فرق بھی ادا کر دیتے ہیں۔ اور (ان کے بقول) یہ معاملات بلا سُود ہوتے ہیں“
ملک بوستان کے مطابق ”اس کے لیے باقاعدہ حکومت سے معاہدہ کرتے ہیں اور یہ بینک اس کی ضمانت دیتا ہے۔ اور یہ سب رقم بینک کے ذریعے ہی منتقل کی جاتی ہے۔ ہمیں یہ رقوم ایک بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جاتی ہیں، جس کے بعد متعلقہ بینک یہ رقم اسٹیٹ بینک میں منتقل کرتا ہے‘‘
ملک بوستان کا کہنا ہے ”ہم نے اس بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ میں نے تو چھ ماہ پہلے یہ مشورہ اسحاق ڈار کو زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں دیا تھا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا۔ ہمارے پاس فارن ایکسچینج کی کمی نہیں، بس اعتماد کی کمی ہے“
ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کاروباری لوگ خوفزدہ ہو کر پیسے باہر لے گئے ہیں۔ ”ہم نے حکومت سے کہا کہ مارکیٹ میں لوگوں کو فری ہینڈ دیں، میری تریپن تجاویز تھیں کہ کس طرح فارن ریزرو کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ کمیٹی ارکان نے مجھ سے اتفاق کیا اور کہا کہ ہم یہ بات حکومت تک پہنچائیں گے‘‘
ملک بوستان کا کہنا تھا ”میری سمندر پار پاکستانی شہریوں سے بات ہوئی ہے سب پیسے دینے کے لیے تیار ہیں۔ ایک ارب ڈالر ماہانہ دیں گے۔ دو سال میں چوبیس ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ ہم چار سو ملین پہلے سے دے رہے ہیں“
کیا یہ واقعی ممکن ہے؟
معاشی امور کے ماہر اور ایکسچینج کمپنی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے خیال میں ملک بوستان کا پیش کردہ منصوبہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ”یہ سب اتنا آسان نہیں۔ ہر آدمی کے اپنے خیالات ہیں۔ میں ان کی بات کو مکمل مسترد نہیں کرتا لیکن یہ اتنا آسان نہیں“
ظفر پراچہ نے کہا ”1.2 بلین کے لیے پوری حکومت ادھر ادھر دھکے کھا رہی ہے۔ اگر یہ اتنا آسان ہے تو ہر ایکسچینج کمپنی بذاتِ خود آئی ایم ایف ہے۔ یہ میرا خیال ہے کہ ممکن نہیں ہے“
ظفر پراچہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں شریک تھے۔ انہوں نے اجلاس میں ملک بوستان کی جانب سے کی گئی پیشکش پر بتایا ”کچھ تجاویز کے ساتھ ہم زرِمبادلہ اور ترسیلاتِ زر کی شرح تو بڑھا سکتے ہیں۔ ابھی سالانہ چھ بلین ڈالرز ترسیلاتِ زر ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آ رہے ہیں۔ یہ پیسہ عوام سے لے کر عوام کو دیتے ہیں“
ان کا مزید کہنا ”اب ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ بڑھانے کے لیے کچھ تجاویز پر عمل ہو سکتا ہے۔ چھ سے بارہ بلین بن سکتے ہیں۔ لیکن سویپ کرنا یعنی آج 285 کے ریٹ پر ڈالر لیں اور دو سال بعد کے ریٹ پر واپس کر دیں اور فرق ادا کریں۔ اب یہ فرق حکومت کہاں سے دے گی“
ظفر پراچہ کے مطابق ”میں ملک بوستان کی تجاویز میں سے چند سے متفق ہوں، لیکن زیادہ تر باتیں غلط ہیں۔ یہ نہ ملک کے فائدے کی بات ہے نہ عوام کے فائدہ کے بات ہے۔ اگر ہم اوورسیز پاکستانی کو ایکسپورٹ انڈسٹریز کا درجہ دیں تو ہم ترسیلاتِ زر بڑھا سکتے ہیں۔ اس سے حوالہ اور اسمگلنگ کو روک سکتے ہیں“
ان کا کہنا تھا ”کمیٹی نے ان سے تجاویز سننے کے بعد یہی کہا تھا کہ ہم ان پر غور کریں گے۔۔ اس پر غور ضروری ہے لیکن آئی ایم ایف کا پروگرام ملکی ساکھ کا معاملہ ہے“
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر سے جب اس تجویز پر رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ نئی تجویز ہے اور اس کو جانچنا ضروری ہے تاہم پاکستان اس وقت ایک مشکل صورت حال میں ہے اور اس وقت ہم کسی دوسرے ذریعے پر جانے کا نہیں سوچ سکتے
محمد زبیر نے کہا ”میری نظر میں اس کے امکانات بہت کم ہیں لیکن ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ ابھی ملک بوستان نے قائمہ کمیٹی میں ایک تجویز دی ہے ان کی رائے کو ضرور سننا چاہیے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام تو ہم کو مکمل کرنا ہی ہے۔ ہم پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں“
ان کا کہنا تھا ”ہماری ساکھ کا دارومدار بھی اس پر ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ کب اور کتنے اچھے طریقے سے واپس جا سکتے ہیں“
محمد زبیر عمر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو واپس لانے کے لیے اتنے عرصے سے جاری کوشش کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہمیں یہ رقم مل جائے بلکہ آئی ایم ایف دوست ملکوں سمیت تمام ممالک کے لیے ایک سرٹیفیکیٹ کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
’جو اہداف بھی معیشت کی بہتری کے لیے پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر طے کیے ہیں وہ آئی ایم ایف کا سرٹیفیکیٹ ہے جو ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ ’پاکستان کو ایک قابل اعتماد ملک ظاہر کرتا ہے۔‘
ان کے مطابق موجودہ صورت حال میں ہم آئی ایم ایف کو چھوڑ کر کسی اور طرف دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر کسی بھی دوسرے طریقے پر جانے کا سوچیں تو وہ چاہے سمندر پار پاکستانی ہوں یا کوئی بھی دوسرا طریقہ اگر قابل عمل ہے تو اس کو ساتھ ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں ان کی سمندر پار پاکستانیوں میں ایک مضبوط لابی تھی جو پڑھے لکھے اور سرمایہ دار تھے۔ انھوں نے بھی اپنے دور میں سمندر پار پاکستانیوں کے کیے اسکیم متعارف کروائی تھی مگر ان تعلقات کے باوجود وہ کامیاب نہیں ہو سکے
محمد زبیر کا کہنا تھا ’بیرون ملک پاکستانی ہوں یا سرمایہ کار وہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ہاں سیاسی و معاشی استحکام کی صورت حال کیا ہے۔اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کے دباؤ کی وجہ سے بیرون ملک (فارن) کمپنیوں کو ان کا منافع بھیجنے سے بھی تقریباً روکا ہوا ہے۔ اور دوسری جانب ایسے میں سمندر پار پاکستانیوں کو کہا جائے کہ آپ پیسہ بھیجیں۔‘
دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر شیخ کہتے ہیں کہ سینٹ کی کمیٹی کے بعد اب یہ بریفنگ رواں ہفتے قومی اسمبلی کی کمیٹی میں بھی لی جائے گی، جس میں اس تجویز کے قابل عمل ہونے سے متعلق غور کیا جائے گا جہاں وزارت خزانہ، ایف بی ار اور دیگر متعلقہ حکام موجود ہوں گے
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر اس تجویز میں قباحت نہیں۔
’ترکی نے ایسے ہی ایک ماڈل پر کام کیا تھا جس کے تحت انھوں نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ ڈالر حکومت کو دیں اور ایکسچینج ریٹ میں فرق کو حکومت واپس ادا کرنے کی پابند ہو گی تو ایکچینج کمپنیوں کی جانب سے دی گئی اس تجویز میں بظاہر قباحت نہیں جس میں ایکچینج کمپنیاں سمندر پار پاکستانیوں سے رقوم ارینج کر کے معاہدے کے تحت حکومت کو دے سکتی ہیں۔‘
معاشی ماہر اور ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری بھی ملک بوستان کی حکومت کو کی گئی پیشکش کو قابل عمل نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ کتابی طور پر تو ممکن ہو سکتا ہے، لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے
عابد سلہری کہتے ہیں ’ملک بوستان کہتے ہیں کہ اس منصوبے کے تحت پندرہ ہزار ڈالر سے کم رقم بھیجنے والی کی شناخت کا نہ پوچھا جائے، ایسا کرنا پاکستان کے لیے ممکن نہیں کیونکہ ابھی حال ہی میں ملک بڑی مشکل سے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلا ہے۔ اور حکومت ایسا کوئی اقدام اٹھانا نہیں چاہے گی جو دوبارہ اسے اس لسٹ کی جانب لے جائے۔‘
ان کا کہنا تھا ’دوسرا اہم پہلو ڈالر کے ریٹ کا ہے، جو رقم باہر سے آئے گی اس کے ڈالر ریٹ کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ اور تیسرا اہم پہلو رقم دینے والوں کو کتنی جلدی اور کس ریٹ پر وہ رقم واپس مل گی۔‘
عابد سلہری کا کہنا ہے کہ ’قلیل مدت میں اس پر عمل کرنا آسان نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس آئی ایم ایف ہی آخری آپشن موجود ہے اور اس میں پاکستان کے دوست ممالک کی جانب سے رول اوور (قرضوں کی ادائیگی موخر کرنا) اور فنانشل گارنٹی پر معاملات پھنسے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اس تاخیر کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ دوست ممالک کسی ایک فرد نہیں بلکہ حکومت کو مدد فراہم کرتے ہیں اور گذشتہ ایک برس سے یہ پتا نہیں چل رہا کہ اصل حکومت کسی کی ہے
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں ممالک کے درمیان بننے والے نئے تعلقات میں بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری کتنی اہمیت ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے اب سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو غیر مشروط امداد ملنا کم ہو جائے گی ’اگر سعودی عرب کو پاکستان کی پہلے کی طرح ضرورت نہیں ہوگی تو وہ کیوں ہمیں غیر مشروط مدد فراہم کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا ”دوست ممالک کے ساتھ رول اوور معاملات کا دراومدار پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ملکی سیاسی استحکام پر منحصر ہے“