چارسدہ میں جدید طریقے سے کاشت کی گئی اسٹرابیری سائز میں بڑی اور مہنگی بھی

ویب ڈیسک

چارسدہ میں کچھ کاشتکار سٹرابیری کی کاشت میں پلاسٹک کا استعمال کر رہے ہیں، جس سے پھل جلدی تیار ہوتا ہے اور بڑا اور صاف ہونے کی وجہ سے گاہکوں کو پسند آتا ہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا میں اسٹرابیری کی پیداوار کے لیے مشہور ضلعے چارسدہ میں کاشت کاروں نے بتایا کہ جدید طریقے سے تیار اسٹرابیری سائز میں بڑی اور صاف ستھری ہونے کی وجہ سے تقریباً تین گنا مہنگی فروخت ہو رہی ہے

چارسدہ کے علاقے سرکی اتمانزئی میں اسٹرابیری کے کاشتکار کامران خان کے مطابق نئے طریقے سے تیار اسٹرابیری سات سو روپے کلو فروخت ہوتی ہے، جبکہ پرانے روایتی طریقے سے تیار یہ پھل تقریباً ڈھائی سو روپے کلو میں بک رہا ہے

کامران نے بتایا کہ پچھلے دو تین سال سے کچھ کاشتکاروں نے اسٹرابیری پھل کی کاشت کاری میں اس کی حفاظت کے لیے پلاسٹک کا استعمال شروع کیا ہے، جس سے پھل جلدی تیار ہوتا ہے اور سائز میں بڑا اور صاف ستھرا ہونے کی وجہ سے گاہکوں کو پسند آتا ہے

انہوں نے اس کے طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کاشت کار اکتوبر میں اسٹرابیری کی فصل لگاتے ہوئے نیچے زمین پر پلاسٹک لگاتے ہیں، جبکہ پودے کو سردی سے بچانے کے لیے اسے اوپر پلاسٹک سے ڈھک دیا جاتا ہے، جس سے فصل جلد یعنی جنوری میں تیار ہو جاتی ہے

کامران نے بتایا ”پرانے طریقے سے کاشت ہونے والا پودا فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں پھل دیتا ہے۔ جدید طریقے سے اگائی جانے والی اسٹرابیری پنجاب کے علاقوں سے بھی پہلے تیار ہو جاتی ہے اور اس کا نرخ فی کلو سات سو روپے تک ہے“

انہوں نے بتایا نئے طریقے میں پلاسٹک کے اضافی استعمال کی وجہ سے فی ایکڑ ڈھائی لاکھ روپے تک خرچہ آ جاتا ہے جو مقامی غریب کاشت کاروں کے لیے زیادہ ہے، لہٰذا اکثریت روایتی طریقہ اپناتی ہے۔

ان کا کہنا تھا ”آج کل ہر چیز مہنگی ہے، اگر پچھلے سال کا موزانہ کریں تو اس سال فصل پر دگنا خرچہ ہوا اسی طرح ریٹ بھی زیادہ ہے۔ پچھلے سال پھل سو روپے فی کلو تھا اور آج کل دو سو بیس سے ڈھائی سو روپے فی کلو چل رہا ہے“

کامران نے زور دیا کہ کاشت کار نئے طریقے سے استفادہ حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور کاشتکاروں کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کریں

ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر حکومت کاشتکاروں کو اسٹرابیری برآمد کرنے میں مدد کرے تو کثیر زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے اور مقامی کسان بھی خوش حال ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close