زرداری کا پرو اسٹبلشمنٹ کردار انہیں اگلے سیٹ اپ میں فٹ کر سکتا ہے، تجزیہ نگار

ویب ڈیسک

پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں پرو اسٹبلشمنٹ شناخت کے باعث ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں مسلسل بلاول بھٹو زرداری کے لیے لابنگ بھی دراصل ان کی اسی خواہش کی کڑی ہے

سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ آصف علی زرداری نے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں میں جتنی تیزی سے قبولیت حاصل کی ہے، اس کے پیش نظر بعید نہیں کہ انہیں اگلے انتخابات کے بعد اہم ذمہ داری سونپ دی جائے

پاکستان کے ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر کالم نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کہتے ہیں ”لگتا یہ ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقوں کی توقعات شہباز شریف سے پوری نہیں ہو سکی ہیں اور وہ مریم نواز اور عمران خان سے خائف ہیں۔ آصف علی زرداری کا امیج خراب ہے لیکن ’لوگوں کا ساتھ دینے‘ کے حوالے سے ان کی ساکھ کافی بہتر ہے۔“

انہوں نے کہا ”پاکستان کے مقتدر حلقے نیشنل فنانس کمیشن، اٹھارہویں ترمیم اور معیشت کی بحالی کے حوالے سے جو مشکل اور اہم فیصلے چاہتے ہیں، انہیں عوام میں بھاری مقبولیت کے حامل عمران کر سکتے تھے، لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے فاصلوں کی وجہ سے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اب اگلا آپشن زرداری کا ہے، وہ اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کر سکتے ہیں‘‘

ڈاکٹر عاصم کہتے ہیں ”آصف علی زرداری پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے ان کی رائے درست ثابت ہوئی تھی اور سی پیک کے آغاز کے لیے ان کی کوششیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ آصف زرداری نے پیچھے رہ کر جس طرح مسلم لیگ نون کا ساتھ دیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ نئے سیٹ اپ میں چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتوں، الیکٹیبلز اور پرو اسٹیبلشمنٹ جماعتوں کے ساتھ ساتھ انہیں مسلم لیگ نون کی حمایت بھی میسر رہے گی۔‘‘

تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ مستقبل کے منظر نامے پر زرداری خود سامنے آئیں گے یا اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو سامنے لائیں گے

تجزیہ کار جاوید فاروقی کے بقول اڑسٹھ سالہ آصف علی زرداری عمر کے لحاظ سے نواز شریف، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ بے نظیر بھٹو سے بھی چھوٹے ہیں، لیکن آنے والے دنوں میں ان کی صحت ان کے لیے ایک مسئلہ بن سکتی ہے

واضح رہے کہ آصف علی زرداری آج کل دبئی میں موجود ہیں، جہاں انہوں نے اپنا میڈیکل چیک اپ کروایا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ان کی ایک آنکھ کی سرجری بھی ہوئی ہے اور وہ تیزی سے روبہ صحت ہونے کے بعد ہسپتال سے دبئی میں اپنے گھر منتقل ہو چکے ہیں اور کسی بھی وقت پاکستان واپس آ سکتے ہیں۔ انہیں دل، بلڈ پریشر اور پھیپھڑوں کی تکالیف کا بھی سامنا رہا ہے

تجزیہ کار جاوید فاروقی کہتے ہیں ”اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ سرگرم رابطوں میں ہیں۔ یہ صرف آصف علی زرداری ہی ہیں جو ملک کے موجودہ حکومتی منظر نامے کے آرکیٹیکٹ ہیں۔ انہوں نے جس طرح مسلم لیگ نون، جے یو آئی اور پی ڈی ایم کے دیگر جماعتوں کو ’اکاموڈیٹ‘ کیا ہے، اس سے ان کی ’سیاسی مہارت‘ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔“

جاوید فاروقی سمجھتے ہیں کہ آصف زرداری پاکستان کی سیاست کے ’زمینی حقائق‘ کا ادراک رکھتے ہیں، اور اب ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کا بھی انہیں کافی تجربہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی اور عمران حکومت کی تبدیلی میں جو کردار ادا کیا تھا، اس سے ان کی جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے

بعض مبصرین کے مطابق آصف زرداری کی شخصیت کا اہم پہلو مسائل کے حل کے لیے ان کی ’آوٹ آف باکس‘ سوچ بھی ہے۔ وہ جہاں پیسے سے کام ہو سکتا ہے، وہاں پیسے کو استعمال کر لیتے ہیں، جہاں قوانین کو نظر انداز کرکے صورتحال کو اپنے حق میں لایا جا سکتا ہے، وہاں وہ آنکھیں بند کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close