سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن التوا کیس میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے منگل کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو اکیس ارب روپے جاری کرے
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے، وہیں حکومت نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے
وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس کے دوران سپریم کورٹ کے فیصلے کو واضح طور پر مسترد کر دیا گیا، یوں حکومتی اتحاد نے واضح طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے
ساتھ ہی سپریم ایگزیکٹو باڈی نے اپنی قانونی ٹیم کو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو واپس لینے کے طریقے تلاش کرنے کی ہدایت کی ہے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے سینیئر وکیل سیف الملوک کا کہنا ہے ”یہ فیصلہ آئین کے مطابق ہے اور اس کے نتیجے میں انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا چاہیے۔ اگر انتخابات نہیں کروائے جاتے تو ملک میں ایک روایت قائم ہو جائے گی کہ جس کے پاس طاقت ہوگی وہ اس جمہوری عمل کو ہمیشہ روکنے کی کوشش کرے گا“
انہوں نے کہا ”اس فیصلے کی تشریح کے لیے آئینی ماہر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک عام آدمی کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی ٹوٹ گئی ہے تو انتخابات نوے دن میں ہونے چاہئیں کیونکہ نگران حکومت کو نوے دن سے زیادہ معاملات چلانے کا اختیار نہیں اور نہ ہی اس کی مدت میں توسیع کا کوئی قانون ہے“
دوسری جانب اس فیصلے کے بعد کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم ہوگا یا مزید بڑھے گا اور کیا حکومت پنجاب میں عام انتخابات عدالتی حکم کے مطابق کروائے گی؟ نیز سیاسی جماعتیں، تجزیہ کار اور وکلا اس فیصلے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ قانونی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ حکومت کے پاس اب کیا آپشنز بچے ہیں
اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کہتے ہیں ”حکومت کے پاس تیس روز کے اندر اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق ہے، لیکن یہی تین رُکنی بینچ حکومت کی اپیل کی سماعت کرے گا۔ لہٰذا ریلیف ملنے کے امکانات کم ہیں۔“
اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے ازخود نوٹس کے اختیار محدود کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ سے قانون سازی کرا رکھی ہے اور یہ بل دستخطوں کے لیے صدر مملکت کے پاس موجود ہے
جسٹس (ر) عباد الرحمٰن کہتے ہیں کہ اگر صدرِ مملکت اس بل پر دستخط کر دیتے ہیں تو یہ قانون بن جائے گا اور پھر حکومت ازخود نوٹس کے تحت سنائے گئے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہوگی
اُن کے بقول اس صورت میں سپریم کورٹ کا پانچ رُکنی بینچ کیس سنے گا، جس میں الیکشن کیس میں فیصلہ سنانے والے تین جج شامل نہیں ہوں گے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ازخود نوٹس کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نون لیگ کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم کی حکومت نے حال ہی میں انتہائی سرعت کے ساتھ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘ منظور کیا تھا، جس میں چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات محدود کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ اس وقت یہ بل منظوری کے لیے صدرِ مملکت کے پاس موجود ہے جن کے دستخطوں کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا
سینئر قانون دان اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں ”حکومت کے پاس اب زیادہ آپشنز نہیں ہیں، کیوں کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے لیے ہے کہ وہ نوے روز میں انتخابات کرائے“
اظہر صدیق کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں حکومت سے الیکشن کمیشن کو وسائل فراہم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر حکومت 10 اپریل تک فنڈز فراہم نہیں کرے گی تو پھر اسے توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا
اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ فیصلہ اچھا لگے یا نہ لگے، اس پر حکومت کو عمل تو کرنا ہی ہوگا
جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس اس فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا ایک ہے راستہ ہے اور وہ ایمرجنسی کا نفاذ
اُن کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی کے لیے بھی ٹھوس وجوہات کا ہونا ضروری ہے کہ ملک کو جنگ کو سامنا تو نہیں یا ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا ہے۔
منگل کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی کہا تھا کہ آئین میں ایمرجنسی لگانے کا آرٹیکل موجود ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب حکومت کے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا تو پھر اس آپشن پر غور ہو سکتا ہے۔ جبکہ وزیر خارجہ کے طور پر حکومت کا حصہ بلاول بھٹو زرداری بھی ایمرجنسی یا مارشل لاء کا عندیہ دے چکے ہیں
جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کا کہنا ہے ”سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آرٹیکل 220 لاگو ہوگا، جو کہتا ہے کہ تمام متعلقہ ادارے الیکشن کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں“
جسٹس (ر) عبادالرحمٰن کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس نظرِ ثانی اپیل دائر کرنے کے لیے تیس روز کا وقت ہے۔ لیکن اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں رکے گا
اُنہوں نے کہا کہ نظرِثانی کی اپیل دائر میں بینچ بھی یہی ہوگا اور فریقین کے وکلا بھی وہی ہوں گے، جنہوں نے پہلے دلائل دیے تھے۔ لہٰذا یہ امکان کم ہے کہ حکومت کو ریلیف ملے گا
س حوالے سے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا کا کہنا ہے ”عدالت کا فیصلہ ابھی آیا ہے۔ اس میں بہت سے مراحل ابھی باقی ہیں۔ ایک تو ہم نظرثانی میں جائیں گے۔ اس دوران 184(3) کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی پر اگر دستخط ہو جاتے ہیں تو حکومت کے پاس اپیل کا حق بھی آ جائے گا“
دوسری جانب پاکستان کی وفاقی کابینہ نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو ہدایات دی ہیں کہ وہ اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں مزید قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے مشاورت کریں۔ اس کے بعد حکومت اتحاد کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بلایا جائے جو اس فیصلے کے خلاف لائحہ عمل کی منظوری دے گا
سیاسی تجزیہ کار مبشر بخاری کہتے ہیں ”اس فیصلے سے سیاسی اور آئینی بحران بڑھے گا۔ اگر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اس فیصلے کو نہیں مانتی اور اپنے اعلانات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، اعجازالاحسن اور منیب اختر کے خلاف ریفرنسز لاتی ہے توسیاسی و آئینی بحران مزید بڑھے گا“
مبشر بخاری کے مطابق ”اگر حکومت اس فیصلے کے خلاف کچھ کرنا چاہے تو 20 اپریل کے بعد نیا قانون نافذ العمل ہو جائے گا اور اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکے گی جس کے لیے بینچ بنانا صرف چیف جسٹس کی صوابدید نہیں ہوگا بلکہ دو سینیئر ترین ججز یعنی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کی مشاورت لازمی ہوگی۔ ایسی صورت میں اگر دو اراکین اپیل کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ کا فیصلہ کرتے ہیں تو انتخابات کے حوالے سے مزید تاخیر ہو سکتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں اس پر حکم امتناع آ جائے گا۔ لیکن اس میں سپریم کورٹ ، جو اب بھی تقسیم کا شکار ہے مزید تقسیم نظر آئے گی، اور اس کا اثر عوام پر بھی پڑے گا۔ نتیجتاً سیاسی عدم استحکام کو مزید تقویت ملے گی۔“