موبائل فون کے موجد موبائل فون کے استعمال کے لیے لوگوں کو کیا مشورہ دیتے ہیں؟

ویب ڈیسک

مارٹن کوپر سیل فون کے موجد ہیں اور انہیں ’بابائے سیل فون‘ کہا جاتا ہے، جنہوں نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں پچاس سال قبل دنیا کے پہلے سیل فون سے پہلی کال کی روداد سنائی ہے

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ آج موبائل فون کا یہ موجد موبائل فون صارفین کو دیکھ کر دُکھی ہوتے ہیں۔۔ اس کی وجہ جاننے سے پہلے ہم ان کی زبانی پہلی کال کی روداد سنتے ہیں

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ انٹرویو میں چورانوے سالہ امریکی انجینیئر مارٹن کوپر نے پہلا سیلولر ٹیلیفون دکھاتے ہوئے کہا ”یہ سب سے پہلا سیلولر ٹیلیفون ہے۔ ہم نے اس کا نام موبائل فون رکھا۔ اس فون میں ایک صلاحیت تھی کہ آپ بات کر سکتے تھے اور بات سن سکتے تھے“

دنیا کے پہلے سیل فون سے پہلی کال کی روداد سناتے ہوئے مارٹن نے بتایا ”سیل فون کے ذریعے سب سے پہلی کال نیو یارک کے سکستھ ایونیو کی گلیوں سے ہلٹن ہوٹل کے قریب سے ملائی گئی“

انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا ”آخری وقت تک میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں کسے کال ملاؤں گا۔۔ پھر مجھے لگا کہ مجھے بیل سسٹم کمپنی میں اپنے ہم منصب کو کال ملانی چاہیے“

مارٹن کوپر کہتے ہیں کہ ’اس موبائل سے میں نے بیل کمپنی کے انجینیئر ڈاکٹر جوئل اینگل کو کال کیا

اس کال کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے مارٹن کا کہنا تھا ”میں کال پر کہا ’جوئل میں مارٹن کوپر بات کر رہا ہوں۔‘ انہوں نے کہا ’ہائے مارٹی۔‘ میں نے کہا ’جوئل میں ہاتھ میں پکڑنے والے سیل فون سے بات کر رہا ہوں۔ ایک اصلی سیل فون جو چھوٹا ہے اور ہاتھ میں تھاما جا سکتا ہے‘۔“

مارٹن کہتے ہیں: یہ سننے کے بعد لائن کی دوسری جانب ’خاموشی‘ تھی۔ ’میرا خیال ہے وہ اپنے دانت پیس رہے تھے۔‘

تاہم آج کی نسل سمارٹ فون پر جتنا وقت گزارتی ہے اس سے بابائے سیل فون افسردہ ہیں

مارٹن کہتے ہیں ”سمارٹ فونز رکھنے والے ان پر بہت وقت گزارتے ہیں، جیسے وہ سمارٹ فونز میں قید ہو گئے ہوں۔۔“

”مجھے کہنے دیں کہ جب میں کسی شخص کو سیل فون پر نظریں جمائے گلی پار کرتے دیکھتا ہوں تو انتہائی افسوس ہوتا ہے۔ یہ بہت عام سی بات ہے اور ایسا کرنے والے درست ذہنی حالت میں نہیں۔“

انہوں نے مذاقاً کہا ”لگتا ہے جب کچھ لوگ (اسی حالت میں) گاڑیوں کے نیچے آئیں گے، تو انہیں احساس ہوگا“

پچاس سال قبل موبائل فون ایجاد کرنے والے سائنسدان مارٹن کوپر نے مشورہ دیا ہے کہ ”صارفین ہر وقت موبائل کی سکرین کو ہی دیکھتے رہتے ہیں، کبھی نظریں ہٹا بھی لیا کریں“

مارٹن نے اس کیفیت کا موازنہ ٹیلی وژن کی ایجاد کے بعد کے زمانے سے کیا، جب لوگ اس کے سامنے ہی بیٹھے رہتے تھے ”یہ ایسا ہی ہے، جیسا ٹیلی وژن کی ایجاد پر ہوا تھا۔ ہم کبھی نا کبھی اس کا حل نکال لیں گے۔“

تاہم مارٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آپ کو انسانیت پر یقین رکھنا ہوگا۔ جلد یا دیر انسان اس کا حل نکال لیں گے“ مارٹن کوپر کو یقین ہے کہ مستقبل میں سیل فون ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے

انہوں نے بتایا ”مستقبل میں ہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ سیل فون تعلیم میں انقلاب لا سکتا ہے۔ یہ صحت کے میدان میں بھی انقلاب لا سکتا ہے“

مستقبل میں سیل فون میں آنے والی متوقع تبدیلیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”ایک چیز جو تبدیل ہوگی، وہ یہ ہے کہ آپ کا سیل فون مصنوعی ذہانت کنٹرول کرے گا۔۔ جو آپ کی اپنی مصنوعی ذہانت ہوگی۔ جب بھی آپ کو کوئی چیز درکار ہوگی تو وہ ایک ایپ آپ کو بنا کر دے گی یا پھر لاش کر کے دے گی“

مارٹن نے کہا ”کہا جاتا ہے، نے بتایا کہ آج ہماری جیب میں جو صاف ستھرا آلہ موجود ہے یہ بہت صلاحیت کا حامل ہے اور ایک دن بیماری پر قابو پانے میں بھی مدد دے گا لیکن فی الحال اس نے ہم کو کسی حد تک ’جنونی‘ بنا رکھا ہے۔“

مارٹن کوپر خود بھی ایپل کی گھڑی پہنتے ہیں اور آئی فون کا استعمال کرتے ہیں

ان کا کہنا ہے ”میں سمجھ سکتا ہوں کہ میں موبائل کو آج اس طرح سے استعمال نہیں کر سکتا، جس طرح میرے نواسے اور پوتیاں پوتے کرتے ہیں۔“

مارٹن کوپر طویل محنت کے بعد تین اپریل 1973 کو ایسا موبائل فون بنانے اور اس پر کال کرنے میں کامیاب ہوئے تھے جو کہ بہت بڑا تھا اور اس میں بہت زیادہ تاریں اور سرکٹس تھے

اس وقت وہ موٹورولا کمپنی کے ساتھ کام کرتے تھے جو موبائل فون بنانے پر کام کر رہی تھی

کمپنی نے اس امید کے ساتھ منصوبے میں لاکھوں ڈالر لگائے کہ وہ بیل کمپنی سے پہلے یہ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی جو 1877 سے کام کر رہی تھی

بیل کے انجینیئرز نے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد ہی موبائل فون کا آئیڈیا پیش کیا تھا اور ساٹھ کی دہائی کے آخر تک کار کے اندر رکھنے والا فون بنانے میں کامیاب ہوئے کیونکہ اس کی بیٹری بہت بڑی تھی اور چلتے پھرتے ہوئے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا

تاہم مارٹن کوپر کے نزدیک یہ موبیلٹی کے اس تصور سے بہت دور تھا جس کا مطلب ہے کہ کہیں بھی فون کو آسانی کے ساتھ لے جایا جا سکے

1972 کے آخر میں انہوں نے ایسا ہی فون بنانے کا ارادہ کیا، جس کو کوئی بھی کہیں بھی لے جا سکے گا

ان کو موٹورولا کمپنی کی جانب سے جتنے بھی وسائل دستیاب تھے وہ انہوں نے اپنی تحقیق میں لگا دیے اور تین ماہ بعد یعنی اگلے سال کے مارچ تک انہوں نے یہ کام کر دکھایا اور ڈائنا ٹیک فون بنانے میں کامیاب ہوئے

اس کے بارے میں کوپر نے بتایا ”اس کا وزن ایک کلو سے زائد تھا اور اس کی بیٹری پچیس منٹ تک ہی کام کرتی تھی۔“

”اصل مسئلہ بیٹری ٹائمنگ کا نہیں تھا بلکہ وزنی ہونے کا تھا اور اس کو پچیس منٹ تک مسلسل اٹھائے رکھنا مشکل تھا۔“

ابتدائی موبائل فونز کی قیمت پانچ ہزار ڈالر تک تھی۔
کوپر کا کہنا ہے کہ اس موبائل فون کو خریدنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اس کے لیے جائیدادیں بیچ ڈالی تھیں۔
”اگرچہ آج موبائل سب کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے تاہم اس کا فائدہ اٹھانے میں ہم ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ مستقبل میں اس کو اس تعلیم اور صحت کے میدانوں میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close