یہ کہانی ایک چینی شاعر ہین فُک (Han Fook ) کے بارے میں ہے، جو نوجوانی میں فنِ شاعری میں مہارت حاصل کرنے اور اس سے جڑی ہر چیز کے متعلق سب کچھ جاننے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔
ان دنوں وہ زرد دریا Yellow River کے کنارے اپنے آبائی شہر میں رہتا تھا اور اس کی منگنی ایک اچھے خاندان کی لڑکی سے ہو چکی تھی۔ اس رشتے میں اس کی اپنی مرضی کے ساتھ والدین کی مرضی بھی شامل تھی، جو اس سے بے پناہ پیار کرتے تھے۔ انہیں شادی کے اعلان کے لئے نیک شگون والے کسی اچھے دن کا انتظار تھا۔
ہین فُک اس وقت بیس سال کا خوبرو نوجوان تھا، فرمانبردار اور پاکیزہ اخلاق کا مالک، نوجوان ہونے کے باوجود وہ کئی علوم سیکھ چکا تھا۔ اپنے علاقے میں کئی شاندار نظموں کی وجہ سے پہچانا جانے لگا تھا۔ اگرچہ وہ زیادہ امیر نہیں تھا لیکن اتنے ذرائع ضرور رکھتا تھا، جو ایک آرام دہ زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور دلہن کے جہیز سے ان ذرائع میں اور بھی اضافہ ہوتا تھا۔ چونکہ دلہن خوبصورت اور نیک تھی اس لئے نوجوان شاعر کے پاس کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ خوش نہ ہو مگر اس کا دل کامل شاعر بننے کی خواہش سے بھرا ہوا تھا۔
پھر ایک شام جب دریا کے کنارے روشنیوں کا تہوار منایا جارہا تھا، ہین فُک دریا کے دوسرے کنارے پر اکیلا ٹہل رہا تھا ۔ وہ پانی کے اوپر لٹکے ہوئے درختوں کے ایک تنے کی جانب جھکا، اس نے پانی کے عکس پر ہزاروں کی تعداد میں تیرتی اور کانپتی روشنیوں کو دیکھا، اس نے مردوں عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کو کشتیوں بجروں پر دیکھا، جو والہانہ انداز سے ایک دوسرے کا خیر مقدم کر رہے تھے۔ ان سب لوگوں نے تہوار کے لباس زیبِ تن کر رکھے تھے اور دل کش پھولوں کی مانند دمک رہے تھے ۔ اس نے لڑکیوں کے گیتوں، سنطور، موسیقی اور بانسری نوازوں کی مدھر تانوں کو سنا، اس نے دیکھا کہ اس سارے منظر کو نیلگوں رات نے کسی مندر کے گنبد کی طرح ڈھانپ رکھا ہے۔
نوجوان نے جیسے ہی اس حسن کو اپنے اندر جذب کیا، اس کا دل تیزی سے دھڑکا۔ وہ اپنے من کی موج میں مست اس سب کو دیکھ رہا تھا لیکن جتنی شدت سے اس نے دریا پار کرنے ، تہوار میں شریک ہونے، اپنی ہونے والی دلہن اور دوستوں کے ساتھ رہنے کی خواہش کی ، اس سے کہیں زیادہ اسے اس آواز نے گھیر لیا کہ وہ دیکھنے کے اس احساس کو اپنے اندر جذب کرے اور ایک کامل نظم کی شکل میں اسے دوبارہ جنم دے۔ رات کی نیلاہٹ، پانی کی سطح پر روشنی کا کھیل، مہمانوں کی خوشی اور درخت کے ایک تنے کے اوپر جھکے ہوئے ایک خاموش تماشائی کی آواز اسے یوں لگا، جیسے وہ تمام تہواروں اور زمین کی تمام خوشیوں کے ساتھ ہی اطمینان اور دلی سکون حاصل کرنے سے ہمیشہ بیگانہ رہے گا۔ اسے محسوس ہوا کہ اوروں کے برعکس اس کی روح کچھ اس طرح بنائی گئی ہے کہ اسے دریا کے حسن اور ایک اجنبی کی دبی ہوئی آرزوؤں کا تجربہ کرنے کے لئے تنہا رہنا ہوگا، اس پر اسے اداسی نے گھیر لیا۔۔ اس نے اس معاملے پر کافی سوچ بچار کیا۔ اس کے خیالوں کا حاصل یہ تھا کہ اسے سچی خوشیاں اور گہرا اطمینان تب ہی مل سکتا ہے، اگر وہ کبھی دنیا کی عکاسی اپنی نظموں میں اتنی خوبی سے کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ ان عکسی تمثیلوں میں دنیا کا ادبی جوہر پا سکے۔
ہین فُک کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس وقت جاگ رہا ہے یا نیند میں ہے، جب اس نے ایک ہلکی سی سرسراہٹ سنی اور درخت کے تنے کے ساتھ ایک اجنبی کو کھڑے ہوئے دیکھا ۔ وہ ایک قابلِ احترام بوڑھا تھا، جس نے بنفشی رنگ کا چغہ پہنا رکھا تھا ۔ ہین فُک کھڑا ہوا اور اس اجنبی کو اس انداز سے سلام کیا، جو بزرگ اور اہم لوگوں کے شایانِ شان ہوتا ہے۔
اجنبی مسکرایا اور اس نے چند اشعار پڑھے۔ ان اشعار میں اس کیفیت کا، جو ابھی نوجوان کے دل پر گزری تھی، اس قدر خوبی اور کمال مہارت کے ساتھ اظہار کیا گیا تھا اور یہ عظیم شاعروں کے وضع کردہ اصولوں سے اس قدر ہم آہنگ تھا کہ نوجوان کا دل عالمِ حیرت میں ساکن ہو گیا۔۔ ”اوہ، تم کون ہو؟“ وہ جُھکتے ہوئے چلایا، ”تم میری روح کے اندر جھانک سکتے ہو اور ان سے بھی اچھے اشعار کہہ سکتے ہو، جو میں نے اپنے اساتذہ سے سنے۔“
اجنبی ایک بار پھر مسکرایا اور پھر کہنے لگا ’’اگر تم شاعر بننا چاہتے ہو تو میرے پاس آ جاؤ۔۔ تم شمال مغربی پہاڑوں میں عظیم دریا کے منبع کے پاس میری کٹیا کو پاؤ گے ۔ مجھے دنیائے کامل کا استادِ عظیم کہا جاتا ہے“
چند روز بعد ہین فُک کے والد نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعو کرنے کی تیاری شروع کر دی تا کہ شادی کی تاریخ کا تعین کیا جا سکے۔ اس پر دولہے نے احتجاج کیا اور کہا ”میں معافی چاہتا ہوں اگر یہ محسوس ہو کہ بیٹا باپ کی طرف فرض سے غفلت برت رہا ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ مجھے فنِ شاعری میں مقام حاصل کرنے کی کس قدر لگن ہے۔ اگرچہ میرے دوست میری کچھ نظموں کی تعریف کرتے ہیں لیکن میں بخوبی جانتا ہوں کہ یہ ابھی ابتداء ہے اور میں سفر کی پہلی منزل پر ہوں، لہٰذا میں التماس کرتا ہوں کہ آپ کچھ عرصے کے لئے مجھے اکیلے ہی جانے دیجئے اور مجھے تعلیم پر پوری توجہ دینے دیجئے، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ بیوی اور گھر گرہستی کا خیال مجھے ان چیزوں سے دور رکھے گا، میں ابھی جوان ہوں اور مجھ پر کچھ خاص ذمہ داریاں ہیں لہٰذا میں چاہوں گا کہ کچھ عرصہ اپنی شاعری کے لئے زندگی گزاروں، جس سے مجھے خوشی اور شہرت حاصل ہونے کی امید ہے۔“
باپ، جو حیرت سے یہ سب کچھ سن رہا تھا، بولا ’’یہ فن یقیناً تمہیں ہر شے سے عزیز ہو گا کیونکہ اس کی خاطر تم اپنی شادی ملتوی کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔۔ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہارے اور دلہن کے بیچ کوئی گڑبڑ ہوئی ہو۔ اگر کوئی ایسی بات ہے تو مجھے صاف صاف بتا دو تا کہ میں تم دونوں میں صلح کرا سکوں یا پھر تمہارے لئے کوئی اور لڑکی تلاش کر سکوں۔“
تاہم بیٹے نے قسم اٹھائی کہ وہ آج بھی اپنی ہونے والی دلہن کو اتنا ہی چاہتا ہے، جتنا کہ وہ اسے پہلے چاہتا تھا اور یہ کہ ان دونوں میں اختلاف کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ پھر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ روشنیوں کے تہوار والے دن اس نے استادِ عظیم کو دیکھا تھا اور دنیا کی ساری خوشیوں کے حصول سے زیادہ اسے لگن اس بات کی ہے کہ وہ اس کا شاگرد ہو جائے۔
”ٹھیک ہے۔۔“ اس کے باپ نے کہا، ”میں تمہیں ایک سال دوں گا، اس عرصہ میں تم اپنے خواب کی تکمیل کرو، جو تمہیں شاید کسی دیوتا نے بھیجا تھا“
’’کون جانے شاید اس میں دو سال لگ جائیں۔‘‘ ہین فُک نے ہچکچاتے ہوئے کہا
اس طرح اس کے باپ نے اسے جانے دیا اور پریشان رہا۔ نوجوان نے دلہن کے نام ایک خط لکھا ، الوداع کہا اور رخصت ہو گیا۔
ایک طویل عرصہ سرگرداں رہنے کے بعد وہ دریا کے منبع پر پہنچ گیا۔ اس نے بانس کی ایک جھونپڑی دیکھی، جو بالکل الگ تھلگ تھی۔ جھونپڑی کے سامنے بنی ہوئی چٹائی پر وہی بوڑھا شخص بیٹھا تھا، جسے اس نے دریا کے کنارے درخت کے ساتھ دیکھا تھا۔ وہ بیٹھا ہوا رُباب بجا رہا تھا اور جب اس نے اپنے مہمان کو آتے ہوئے دیکھا، وہ کھڑا ہوا اور نہ ہی سلام کیا، وہ صرف مسکرا دیا اور اپنی کومل انگلیوں سے تاروں کو چھیڑ دیا اور ایک جادوئی موسیقی نقرئی بادلوں کی طرح وادی میں بہتی رہی۔ نوجوان عالمِ حیرت میں گُم کھڑا رہا اور خوشگوار حیرانی سے وہ ہر شے سے بیگانہ ہو گیا۔ حتیٰ کہ استاد عظیم نے رُباب چھوڑا اور جھونپڑی میں داخل ہو گیا۔ ہین فُک نے احترام کے ساتھ اس کی پیروی کی اور اس کے شاگرد اور خادم کے طور پر اس کے ساتھ رہا۔
ایک ماہ کے دوران اس نے اپنی پہلے سے کہی ہوئی نظموں کو حقیر جانا اور اپنی یاداشت سے مٹا دیا۔ اگلے چند ماہ میں اس نے وہ تمام گیت بھی بھلا دیے، جو اس نے اپنے اساتذہ سے سیکھے تھے۔ اس کا یہ عظیم استاد کم ہی کلام کرتا۔ وہ اسے خاموشی سے رُباب بجانے کا فن سکھاتا اور اس کا یہ شاگرد موسیقی سے سرشار ہو جاتا۔ ایک دفعہ ہین فک نے ایک چھوٹی سی نظم کہی، جو خزاں رسیدہ آسمان میں دو پرندوں کی پرواز کے متعلق تھی اور وہ اس سے خوش تھا، مگر اس میں اتنی ہمت پیدا نہ ہوئی کہ وہ یہ نظم عظیم استاد کو دکھائے۔
ایک شام اس نے یہ نظم جھونپڑے کے باہر گانا شروع کی۔ عظیم استاد نے بغور سنا، تاہم اس نے کوئی لفظ نہ بولا۔ اس نے اپنے رُباب کو بجانا شروع کیا۔ اچانک ہوا سرد ہو گئی اور روشنی مدھم پڑ گئی۔ تیز ہوا چلنا شروع ہو گئی حالانکہ ابھی گرمیاں تھیں اور سرمئی آسمان پر دو بگلے ہجرت کے دوران پرواز کر رہے تھے۔ منظر کی ہر چیز شاگرد کے شعروں سے زیادہ خوبصورت اور مکمل تھی۔ وہ خاموش اور اداس تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک بے کار چیز ہے اور قدیم سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔
سال گزرنے کے بعد اگرچہ ہین فُک رُباب بجانے پر خاصی دسترس حاصل کر چکا تھا مگر فن شاعری ابھی بھی اسے مشکل اور ماورائی دکھائی دیتا تھا۔
دو سال گزر جانے کے بعد اس نے اپنے گھر، شہر اور اپنی دلہن کے پاس جانے کی شدید خواہش محسوس کی اور عظیم استاد سے درخواست کی کہ وہ اسے واپس جانے کی اجازت دے دے۔
استاد نے مسکراتے ہوئے سر کو جنبش دی اور کہا ’’تم آزاد ہو، جہاں چاہو جا سکتے ہو۔ تم واپس بھی لوٹ سکتے ہو۔ جیسا تمہیں مناسب لگے ویسا ہی کرو۔‘‘
شاگرد سفر پر روانہ ہوا اور بغیر رکے سفر کرتا رہا اور ایک صبح کی مدھم روشنی میں اپنے مقامی دریا کے کنارے پہنچ گیا۔ وہ اپنے شہر کی جانب جانے والے پل کو دیکھ رہا تھا۔ وہ چوری چوری اپنے باپ کے باغیچے میں داخل ہوا اور کمرے کی کھڑکی سے باپ کے خراٹوں کی آواز سنی، جو سو رہا تھا۔ پھر وہ اپنی دلہن کے گھر سے جڑے باغ میں داخل ہو گیا اور ایک ناشپاتی کے درخت پر چڑھ کر اپنی دلہن کو دیکھا، جو اپنے کمرے میں کھڑی بالوں میں کنگھا پھیر رہی تھی۔ اس نے ان تمام مناظر کا، جن کو وہ دیکھ رہا تھا، ان مناظر سے موازنہ کیا، جو حالت افسردگی میں وہ ذہن پر گھر کے لئے بناتا تھا، تو اس پر عیاں ہوا کہ شاعر بننا بہرحال اب اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے اور اس نے دیکھا کہ شاعروں کے سپنوں میں ایک ایسا سحر اور حُسن ہوتا ہے، جو ہم اس ظاہری دنیا میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ درخت سے اُترا، باغ سے نکل کر بھاگا اور پُل عبور کیا۔ وہ اپنے شہر سے دور ہوتا چلا گیا اور اپنی اس بلند وادی میں واپس پہنچ گیا۔
بوڑھا استاد اپنے جھونپڑے کے سامنے چٹائی پر معمول کے مطابق بیٹھا تھا اور اپنی انگلیاں رُباب کے تاروں سے ٹکرا رہا تھا۔ اس کو خوش آمدید کہنے کی بجائے استاد نے فن کے فیض کے حوالے سے دو اشعار پڑھے۔ ان اشعار کی گہرائی اور ہم آہنگی نے نوجوان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر دیں۔
اس طرح ایک مرتبہ پھر ہین فُک نے کامل دنیا کے عظیم استاد کے ساتھ بسیرا کیا۔ استاد جانتا تھا کہ اس کا شاگرد اب رُباب بجانے میں مہارت حاصل کر چکا ہے، اسے اب سنطور کی تعلیم دینا شروع کی۔
جیسے برف مغربی ہوا سے پگھلتی ہے، ویسے مہینے گزرتے گئے۔ اس دوران وہ دو مرتبہ پھر سے گھر جانے کے لئے افسردہ ہوا۔ ایک مرتبہ تو وہ چوری چھپے رات کو بھاگ نکلا تھا مگر وہ ابھی وادی میں ہی تھا کہ رات کی ہوا نے جھونپڑے کے دروازے پر لٹکے سنطور کو بجانا شروع کر دیا۔ سنطور سے پھوٹنے والی دھنوں نے اسے واپس بلا لیا اور وہ مزاحمت نہ کر سکا۔۔ لیکن اگلی دفعہ اس نے ایک خواب دیکھا کہ وہ باغ میں ایک پودا لگا رہا ہے اور اس کی بیوی اور بچے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے بچے درخت میں شراب اور دودھ ڈال رہے ہیں۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو چاند کی روشنی کمرے میں آ رہی تھی۔ اس نے خود میں بہت بے چینی محسوس کی ۔ اس نے ساتھ والے کمرے میں جھانکا۔ استاد لیٹا ہوا تھا اور اس کی خاکستری داڑھی نمایاں تھی۔ تب اس نے اس شخص کے ساتھ شدید نفرت محسوس کی۔ اسے لگا کہ اس شخص نے میری زندگی تباہ کر دی اور اس کے مستقبل کے حوالے سے اسے دھوکا دیا ہے۔ وہ عظیم استاد کو مار دینے والا تھا کہ استاد نے آنکھیں کھولیں، افسردگی، مٹھاس اور نرمی سے مسکرایا، جس نے اس کے شاگرد کو غیر مسلح کر دیا۔ بوڑھے شخص نے نرمی سے کہا، ”ہین فُک! یاد رکھو، تم اپنے عمل میں آزاد ہو۔۔ تم اپنے گھر جا سکتے ہو اور پودا لگا سکتے ہو، تم مجھ سے نفرت کر سکتے ہو اور مجھے مار سکتے ہو، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔“
’’میں تم سے کیسے نفرت کر سکتا ہوں؟‘‘ شاعر چلایا اور اسے ایک دم جھٹکا لگا، ’’یہ تو اپنے آپ سے نفرت کرنے جیسا ہوگا۔“
اس کے بعد وہ وہاں رک گیا اور سنطور بجانا سیکھا اور پھر بانسری بجانا سیکھی اور پھر استاد کی رہنمائی میں نظمیں لکھنا شروع کیں۔ اس نے آہستہ آہستہ سادہ اور گھریلو چیزوں کو بیان کرنے کا پوشیدہ فن سیکھا۔ اس کا فن سننے والوں کی روح پر اس طرح ارتعاش پیدا کرتا تھا، جیسے پانی کی سطح پر ہوا۔۔ وہ صبح کے وقت نکلتے ہوئے سورج کی منظر کشی کرتا کہ کس طرح یہ پہاڑ کی چوٹی پر آ کر جھکتا ہے۔ وہ مچھلیوں کی اِدھر سے اُدھر خاموش اور تیز حرکت کو بیان کرتا کہ وہ کس طرح پانی کے اندر سایوں کی مانند دوڑتی پھرتی ہیں۔ وہ موسمِ بہار میں ہوا سے جھومتے ہوئے درختوں کا ذکر کرتا اور جب لوگ اسے سنتے تو وہ اس کی نظموں میں صرف سورج، مچھلیوں کے کھیل اور درختوں کی سرگوشیوں کا ہی ذکر محسوس نہ کرتے بلکہ وہ محسوس کر پاتے کہ زمین اور آسمان ہم آہنگ ہو کر گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور ہر سننے والا درد اور خوشی کے ساتھ اس حوالے سے سوچنے پر مجبور ہو جاتا، جس کے بارے میں وہ محبت یا نفرت کے جذبات رکھتا تھا۔ لڑکا کھیل کے بارے میں، جوان اپنی محبوبہ کے بارے میں، بوڑھا موت کے بارے میں۔۔
ہین فُک کو یاد نہ رہا کہ اس نے اپنے عظیم استاد کے ساتھ اس دریا کے سرچشمے پر کتنے سال گزار دیے ہیں۔ اسے اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ اس نے گزشتہ شام ہی وادی میں قدم رکھا ہے اور انسان کے تمام ادوار اور زمانے اس کے پیچھے کہیں گم ہو گئے ہیں، اپنی حقیقت کھو چکے ہیں۔
پھر ایک صبح جب وہ جاگا تو وہ اکیلا تھا۔ اس نے عظیم استاد کو ہر جگہ تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکا۔ ایک ہی رات میں اسے ایسا محسوس ہوا کہ خزاں آ گئی ہے۔ تیز ہوا نازک سے جھونپڑے کو زور زور سے جھٹکے دے رہی تھی اور پرندے پہاڑوں کے اوپر سے اپنے ہجرت کے سفر پر روانہ تھے۔ اگرچہ یہ ہجرت کا موسم نہیں تھا۔ تب ہین فُک نے چھوٹا رُباب اٹھایا اور اپنے آبائی شہر کی طرف چل پڑا اور جب وہ لوگوں کے درمیان آیا تو انہوں نے اس کی اس طرح عزت کی جو عظیم اور بزرگ لوگوں کے شایان شان ہوتی ہے اور جب وہ اپنے آبائی شہر آیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا باپ، اس کی دلہن اور خاندان کے افراد فوت ہو چکے ہیں اور اب ان گھروں میں دوسرے لوگ رہ رہے ہیں۔
شام کو دریا کے کنارے پر روشنیوں کا تہوار منایا جا رہا تھا اور شاعر ہین فُک دور تاریک کنارے پر کھڑا تھا اور ایک پرانے درخت کے تنے پر جھکا ہوا تھا۔ جب اس نے رُباب بجایا تو عورتوں نے آہیں بھریں اور رات کی تاریکی میں سحر زدہ ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ نوجوانوں نے رُباب بجانے والے کو تلاش کیا مگر اسے تلاش نہ کر سکے۔ انہوں نے ایسی دُھنیں کبھی نہیں سنی تھیں۔ ہین فُک مسکرا دیا، اس نے دریا میں جھانکا اس میں ہزاروں چراغوں کے عکس رقص کر رہے تھے اور جیسے وہ ان کے عکس اور حقیقت میں کوئی فرق محسوس نہ کر سکا، اسی طرح اس تہوار اور برسوں پہلے کے تہوار میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا، جب وہ نوجوان تھا اور اس نے یہاں کھڑے ہو کر عجیب استاد کے الفاظ سنے تھے۔۔