بلوچستان کے سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے ”میں اپنے دور حکومت میں لاپتا افراد اور عسکریت پسندی سے متعلق معاملات میں بے اختیار تھا اور ان معاملات پر مجھ سے پوچھا بھی نہیں جاتا تھا“
کوئٹہ میں نیوز ویب سائٹ ’اردو نیوز‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا ”قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمائندگی لاہور سے بھی کم ہے، اس لیے کوئی بھی مرکزی جماعت بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتی“
نیشنل پارٹی کے سربراہ نے مزید کہا ”بلوچستان کے عوام کو کبھی یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کے نمائندوں کو لائیں۔ یہاں پر ریاستی ادارے فیصلے کرتے ہیں“
سابق وزیراعلٰی کا کہنا تھا ”بلوچستان کی موجودہ حکومت مکمل بےاختیار ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے انتظامی معاملات پر بھی خود فیصلہ نہیں کر سکتی۔ وزیراعلٰی، کابینہ اور تمام ذمہ داروں کا کوئی کردار نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کا کنٹرول بہت کم ہوگیا ہے جبکہ دوسرے اداروں کا عمل دخل بہت زیادہ ہیں“
سابق وزیراعلٰی بلوچستان کے مطابق صوبے میں کوئی ترقی نظر نہیں آ رہی، ہر جگہ لُوٹ مار ہے، تمام ملازمتیں کھلم کھلا بِک رہی ہیں، سب کو پتا ہے کہ چپڑاسی اور کلرک کی اسامی کی قیمت کیا ہے
جب سابق وزیر اعلیٰ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے دورِ حکومت میں بااختیار وزیراعلٰی تھے؟ تو ان کا کہنا تھا ”دو چیزیں تھیں۔ انتظامی، ترقیاتی اور تقرر و تبادلوں میں کسی نے مداخلت نہیں کی۔ باقی جو عسکریت پسندی تھی چاہے وہ بلوچ عسکریت پسندی ہو یا مذہبی عسکریت پسندی، اس میں کوئی چیز میرے علم میں نہیں لائی جاتی تھی کیونکہ یہ معاملات براہِ راست وفاقی حکومت کے کنٹرول میں تھے“
انہوں نے کہا ”بہت سے ایسے واقعات ہوئے کہ مجھے پتا بھی نہیں چلا اور نہ مجھے بتاتے تھے۔ لاپتا افراد کے مسئلے پر جتنی بار میں نے کوشش کی، میں ناکام ہو گیا“
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا ”ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات میں ایک حد تک میں کامیاب ہوا لیکن پھر ناکام ہو گیا۔ تو وہ جو عسکریت پسندی کو دیکھ رہے تھے، اس میں میرا کوئی کردار نہیں تھا اور نہ میری بات مانتے تھے“
انہوں نے بتایا ”جو باقی کام تھے میں ان میں کسی کی بات نہیں مانتا تھا اور اپنے ساتھیوں، کابینہ اور اتحادیوں کی مشاورت سے معاملات چلاتا تھا“
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ قدوس بزنجو حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے، یہ عوام اور ارکان اسمبلی کی مرضی سے نہیں آئی۔ اس کے قیام میں کاروباری انداز شامل تھا۔ یہ حکومت ارکان اسمبلی کی رائے سے تبدیل نہیں ہوئی
بلوچستان کے سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا ”وہ پی ڈی ایم میں شامل ہیں مگر حکومت کا حصہ نہیں“
نون لیگ کی زیر قیادت پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”موجودہ حکومت ڈیلیور نہیں کر رہی اور نہ ہی مستقبل میں بہتری کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں. ملک میں بہت بڑا سیاسی بحران ہے، معیشت اور عدلیہ بھی بحران کا شکار ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ حکومت ان بحرانوں کو حل کر سکتی ہے“
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مطابق ”سیاست دان، جج، میڈیا، بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ تمام اداروں میں تصادم ہے کہیں پر زیادہ اور کہیں پر کم ہے۔ اس صورت حال کے پیچھے طبقاتی مفادات ہیں جن کے لیے اس قسم کے تضادات پیدا کیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں روز بروز اضافہ اور امن و امان کی صورت حال میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے“
سابق وزیراعلٰی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا ”اگر عمران خان تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں برقرار رکھتے تو ملک موجودہ بحران سے نہ گزر رہا ہوتا، تاہم میں کسی ایک شخص کو موجودہ بحران کا ذمہ دار نہیں سمجھتا، ملک کا مجموعی نظام درست نہیں“
انہوں نے کہا ”ہماری سیاست میں کوئی عوام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول نہیں کرتا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ چاہے بیوروکریسی ہے یا فوج اس کو منتخب حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے تھا, جس کو وہ نہیں مانتے“
بلوچستان کے مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے سابق وزیراعلٰی کا کہنا تھا ”صوبے کے عوام کے حق حاکمیت، وسائل پر اختیارات اور بلوچ عسکریت پسندی کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ ان اقدامات کے بغیر بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اور صوبے کے ساتھ ساتھ وفاق کے مسائل بھی روز بروز بڑھیں گے۔“
سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی کے ساتھ اتحاد کے امکانات پر بلوچ قوم پرست رہنما کا کہنا تھا ”قدوس بزنجو حکومت کی تشکیل میں بی این پی کے کردار سے ہمیں اختلاف ہے۔ تاہم نقطہ نظر سے اختلاف کے باوجود سیاست میں اتحاد اور بات چیت کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں، میں اس کو رد نہیں کرتا۔ سیاست میں کسی بھی وقت اتحاد کیا جا سکتا ہے۔“