پنجاب کی نگران حکومت نے لاہور میں خواجہ سراؤں کے لیے تعلیم اور فنی تربیت دینے کے لیے بنایا گیا واحد اسکول بند کر دیا ہے۔ نگران حکومت نے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول برکت مارکیٹ میں قائم یہ اسکول فنڈز کی عدم دستیابی کا جواز بتا کر بند کیا ہے، جس کی وجہ سے خواجہ سرا برادری شدید مایوسی کا شکار ہے
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے گزشتہ سال دسمبر میں لاہور میں خواجہ سراؤں کے لیے پہلے اسکول کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد خواجہ سرا کمیونٹی کو روایتی تعلیم کے ساتھ مختلف ہنر سکھانا تھا۔ اسکول میں صبح 10 سے 12 بجے تک کلاسیں ہوتی تھیں
خواجہ سراؤں کو تعلیم اور ہنر سیکھنے کی طرف راغب کرنے کے لیے لاہور کے دو معروف خواجہ سراؤں گرو عاشی بٹ اور نیلی رانا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ اسکول ایجوکیشن حکام نے دونوں خواجہ سرا کوآرڈینیٹرز سے انہیں ماہانہ وظیفہ دینے کا معاہدہ کیا تھا، تاہم تین ماہ کے بعد اس معاہدے میں توسیع نہیں کی گئی ہے، جس کے باعث خواجہ سرا کوآرڈینیٹروں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے
کوآرڈنیٹر نیلی رانا نے مقامی انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ہمارا کام خواجہ سرابرادی سے رابطہ کرنا اور انہیں تعلیم اور ہنر سیکھنے کی طرف راغب کرنا تھا۔ ہم صبح سات بجے گھر سے نکلتے، خواجہ سراؤں سے ملتے اور انہیں بتاتے کہ وہ بھیک مانگنے اور ناچ گانے کی بجائے تعلیم اور ہنر حاصل کریں تاکہ ایک باوقار شہری کی طرح زندگی گزار سکیں
نیلی رانا نے مزید کہا کہ اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے ابتدائی طور پر ان کے ساتھ تین ماہ کا معاہدہ کیا تھا۔ وہ خواجہ سراؤں کو گھروں سے لے کر اسکول آتی تھیں۔ اسی طرح ایک دوسری فوکل پرسن عاشی جان کی خدمات لی گئی تھیں۔ عاشی جان کو صرف دو ماہ اور مجھے تین ماہ کا وظیفہ ملا، اس کے بعد وظیفہ بند کر دیا گیا اور ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو بھی مزید بڑھایا نہیں گیا
نیلی رانا کہتی ہیں کہ انہوں نے خواجہ سراؤں کی آنکھوں میں جو خواب سجائے تھے اور ان کے دلوں میں جو امید جاگی تھی، وہ سب چکنا چور ہو گئی ہے اور خود ان کی اپنی برادری کے اندر ساکھ متاثر ہوئی ہے
اپنی نوعیت کے اس منفرد اسکول میں خواجہ سراؤں کو روایتی تعلیم کے علاوہ کھانا پکانا، کپڑوں کی سلائی کا ہنر سکھایا جا رہا تھا تاکہ یہ کمیونٹی اچھے طریقے سے روزگار کما سکے۔ خواجہ سراؤں کو پڑھانے والے اساتذہ نا صرف تربیت یافتہ ہیں بلکہ ان کی نفسیاتی تربیت بھی کی گئی ہے تاکہ وہ اس کمیونٹی کے لوگوں کو بہتر سمجھ سکیں
پروگرام کی سابق معاون اور اسکول ایجوکیشن کی ترجمان سارہ رحمان کے مطابق یہ اسکول اس لیے شروع کیا گیا تھا، کیونکہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں، جنہیں دیوار کے ساتھ لگایا ہوا ہے، انہیں نہ پڑھائی کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں نہ روزگار کے۔ ان کے بارے میں ہم ہر قسم کا تبصرہ کرنے کو تو تیار ہوتے ہیں مگر ان کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوتے
پنجاب میں سب سے پہلے ملتان اس کے بعد ڈی جی خان اور پھر بہاولپور میں خواجہ سراؤں کے لیے اسکول کھولے گئے تھے
سارہ رحمان نے بتایا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے اس منصوبے کے لیے ڈیڑھ سو ملین روپے مختص کیے گئے تھے لیکن افسوس کہ نگران حکومت نے ناصرف اس پراجیکٹ کے فنڈز میں کمی کر دی ہے، بلکہ لاہور کا خواجہ سراؤں کے لیے قائم کیا گیا اسکول ہی بند کر دیا ہے
لاہور میں قائم اسکول میں چالیس کے قریب خواجہ سرا طالب علم تھے، خواجہ سراؤں کو پک اینڈ ڈراپ کے علاوہ ماہانہ وظیفہ بھی دیا جارہا تھا لیکن اب نئی حکومت آنے کے بعد گزشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصہ سے اسکول میں کلاسیں بند ہو گئی ہیں
پروگرام کی کوآرڈینیٹر نیلی رانا نے مزید بتایا کہ خواجہ سرا اب بھی تعلیم حاصل کرنے اور ہنر سیکھنے کے لیے آنے کو تیار ہیں، لیکن حکومت نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے جا رہے۔