اس وقت ماہِ رمضان چل رہا ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان روزے رکھ رہے ہیں۔ ایسے میں فلکیات اور خلائی سائنس میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ زمین سے ڈھائی سو میل کی بلندی پر واقع بین الاقوامی خلائی مرکز میں خلا باز سلطان النیادی کس طرح رمضان گزار رہے ہیں
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے خلا باز سلطان النیادی ان دنوں چھ ماہ کے مشن پر بین الاقوامی خلائی مرکز میں ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں
وہ 2 مارچ کو اسپیس ایکس کی ڈریگون اسپیس کرافٹ کے ذریعے فلوریڈا میں کیپ کارنیوال اسپیس سینٹر سے مشن کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ سلطان النیادی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے پہلے مسلمان خلا باز ہیں، جنہیں طویل مدت کے مشن پر بین الاقوامی خلائی مرکز بھیجا گیا ہے
سلطان النیادی کے مطابق چھ ماہ کے دوران وہ مختلف تحقیقی منصوبوں پر کام کریں گے، جن میں سب سے اہم سٹین فورڈ یونیورسٹی کی ‘کارڈینل ہرٹ اسٹڈی‘ ہے۔
اس تحقیق میں دل کے ٹشوز کو استعمال کرتے ہوئے مائیکرو گریویٹی میں ان پر مختلف کلینیکل ڈرگز کے اثرات کو نوٹ کیا جائے گا
سلطان النیادی کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق نہ صرف خلا میں قیام کے دوران در پیش دل کے مسائل کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوگی بلکہ زمین پر دل کے مریضوں کے علاج میں بھی اس سے بڑی پیش رفت کا امکان ہے
کیا خلا میں روزہ رکھنے کے حوالے سے سلطان النیادی کا کہنا ہے کہ یہ سوال ان سے مشن پر روانگی سے بہت پہلے سے پوچھا جا رہا تھا کیونکہ صرف تین ہفتے بعد ہی رمضان کا آغاز ہونے والا تھا
وہ بتاتے ہیں ”اس حوالے سے علما، جن میں سعودی عرب کے مفتیِ اعظم بھی شامل ہیں، پہلے ہی ہدایات جاری کر چکے ہیں کہ خلا بازوں کو بین الاقوامی خلائی مرکز میں ’مسافر‘ تصور کیا جائے گا اور ان پر وہاں روزہ رکھنا فرض نہیں ہے
وہ بتاتے ہیں ”مجھ سے پہلے 2007ع میں ملائیشیا سے تعلق رکھنے والے خلا باز شیخ مظفر شکور کو بھی رمضان کے مہینے ہی میں بین الاقوامی خلائی مرکز میں قیام کا موقع مل چکا ہے، لیکن انہوں نے اس دوران روزہ نہیں رکھا تھا۔“
نصف رمضان تک النیادی نے بھی روزہ نہیں رکھا ہے۔ ان کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہیں
پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر چھ ماہ کا مشن انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ خلا بازوں کو اس دوران بہت زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوتا ہے
کسی ایک کی صحت متاثر ہونے سے پورے عملے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی خوراک اور فزیکل فٹنس کا بہت زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے، جس کے لیے ہر روز ڈھائی گھنٹے کی ورزش لازمی ہے تاکہ پٹھوں اور ہڈیوں کو کمزوری اور سُن ہونے سے بچایا جا سکے
اس کے ساتھ ہی مائکرو گریوٹی کے باعث ہونے والی جسمانی کمزوری اور ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے لیے دن میں تین وقت نیوٹریشن سے بھرپور خوراک لینا بھی ضروری ہے
پیکٹ والی جو خوراک خلا باز روزانہ لیتے ہیں، اس میں سالمن اور ٹیونا فش، پاستا، بند گوبھی، گوشت، فروٹ سلاد، مختلف پھل، چائے اور ڈی کیفینیٹڈ کافی شامل ہے
النیادی کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس رمضان روزہ رکھیں جس کے لیے وہ گرین وچ ٹائم یا ’کوآرڈی نیٹڈ یونیورسل ٹائم‘ کے مطابق سحر و افطار کریں گے۔ اس دوران ان کے جسم پر پڑنے والے اثرات کی معلومات مشن کی تکمیل کے بعد ناسا کی اجازت سے ہی جاری کی جا سکیں گی
اگرچہ سلطان النیادی ابھی تک خلا میں روزے کے تجربے سے نہیں گزرے لیکن ان سے پہلے متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے ایک اور خلا باز پرنس سلطان بن سلمان خلائی شٹل میں روزہ رکھ چکے ہیں
پرنس سلطان 17 جون 1985ع کو خلائی شٹل ڈسکوری کے ذریعے سات دن کے خلائی مشن پر روانہ ہوئے تھے۔ اس دوران رمضان المبارک کا بھی آغاز ہو گیا تھا
پرنس سلطان بن سلمان بتاتے ہیں ”میری روانگی سے قبل اس وقت سعودی عرب کے مفتیِ اعظم شیخ عبدالعزیز نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ خلا میں روزہ فرض نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود میں نے روزہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران میں خلا میں زیرو گریویٹی کی حالت میں تھا اور نیند کی کمی کے باعث میں شدید تھکن کا بھی شکار تھا“
پرنس سلطان نے فلوریڈا کے رمضان کلینڈر کے مطابق روزہ رکھا تھا لیکن افطار تک انہیں پانی کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ انہوں نے چائنیز سویٹ اور سار سوپ کے ساتھ افطار کیا، جس سے جسم کو فوری تقویت ملی
پرنس سلطان بتاتے ہیں ”اس دور میں خلا میں روزے سے کہیں زیادہ چیلنجنگ کام نماز ادا کرنا تھا کیونکہ زیرو گریویٹی کے باعث جسم ہمہ وقت معلق تھا اور ایک جگہ ٹکے رہنے کے لیے پاؤں کو ایک مخصوص فاسٹر سے جوڑے رکھنا پڑتا تھا، تب بھی سجدہ کسی صورت ممکن نہیں تھا۔“
پرنس سلطان نے خلا میں روزے سے جسم پر پڑنے والے اسٹریس کی تفصیلات اپنے سفر کے پینتیس سال بعد شائع ہونے والی کتاب ’سیون ڈیز اِن سپیس‘ میں بھی درج کی ہیں
زمین پر رمضان کے آغاز کے ساتھ ہر علاقے کا رمضان کلینڈر جاری کیا جاتا ہے جس میں سحر و افطار کا وقت درج ہوتا ہے۔ اس کا تعلق سورج کے طلوع و غروب سے ہے
لیکن بین الاقوامی خلائی مرکز پر ایک دن میں خلا باز سولہ طلوع و غروب دیکھتے ہیں۔ اس حوالے سے علما کی رائے یہ ہے کہ خلا باز جس علاقے سے مشن کے لیے روانہ ہوں، وہاں کے کلینڈر کے مطابق سحر و افطار کریں۔