سندھی ادبی بورڈ کے لوگو سے ’موہن جو دڑو‘ کا بَیل ہٹانے کا معاملہ اور احتجاج۔۔

ویب ڈیسک

سندھ حکومت کے ماتحت ادارے سندھی ادبی بورڈ کے لوگو سے موہن جو دڑو کے دور کے بیل کی شبیہہ ہٹا کر سندھ کا نقشہ لگانے کے خلاف سندھ کے مختلف شہروں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر احتجاج کر کے لوگو کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے

سندھی ادبی بورڈ کا مونو گرام کلچر کی عکاسی کرتا ہے یا کسی مذہب کی؟ ادبی بورڈ نے کچھ عرصہ قبل اپنے مونو گرام سے بیل کو ہٹا کر سندھ کا نقشہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب ادبی بورڈ کے حکام لوگو کی تبدیلی کے پیچھے مذہبی تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں مذہبی بنیاد پر لوگو تبدیلی کی باتوں میں صداقت نہیں۔ بہرحال اس فیصلے پر سندھ میں ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں کا احتجاج جاری ہے اور لوگو میں سندھ کا نقشہ لگانے کو ’رجعت پسندانہ‘ فیصلہ قرار دیا جارہا ہے

سندھ یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے لوگو کی تبدیلی کے خلاف آج سندھی ادبی بورڈ جامشورو کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاج کی کال دی گئی ہے۔ اس سے قبل سندھی ادب کے لیے کام کرنے والی سندھی ادیبوں کی تنظیم سندھی ادبی سنگت کی جانب سے صوبے بھر میں احتجاج کی کال دی گئی، جس کے بعد جامشورو، نواب شاہ، نصیرآباد، جھول، مدئجی، اُڈیرو لال اسٹیشن، ٹنڈو الہ یار، عمرکوٹ سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا

ان احتجاجی مظاہروں کے دوران سندھی ادبی بورڈ کے لوگو سے بَیل کی شبِیہہ کو ہٹانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مقررین نے مطالبہ کیا کہ تاریخی لوگو بحال کیا جائے

سندھی ادیب، محقق اور سندھی صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے رسالے پر کام کرنے والے استاد لغاری نے کہا کہ موہن جو دڑو کے آثار سے ملنے والے تاریخی بیل کی شبیہہ والا لوگو تاریخی ہے، جو سندھ کی اصل ترجمانی کرتا ہے

استاد لغاری کی اب تک اٹھارہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں سے دس میں سرائیکی اور ڈھاٹکی زبانوں سمیت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے دس مختلف قلمی نسخے بھی شامل ہیں

لوگو کی تبدیلی کے حوالے سے استاد لغاری کا کہنا ہے ”سندھی ادبی بورڈ سندھی ادب کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا تھا نہ کہ مذہبی کتب کی اشاعت کے لیے۔ لوگو کے حوالے سے سندھی ادبی بورڈ انتظامیہ کا کہنا کہ بَیل کی شبیہہ مذہبی طور پر ممنوع ہے اس لیے اسے تبدیل کیا جارہا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ سندھ کا نقشہ لگانے سے اس میں موہن جو دڑو بھی آجائے گا۔ اگر ایسا ہے تو دنیا کا نقشہ لگانے سے کیا دنیا بھر کی ثقافتوں کی نمائندگی ہوگی؟ اگر کل یہ لوگ کسی مذہبی نشان سے لوگو کو تبدیل کریں تو کیا یہ درست ہوگا؟ ہم کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے“

استاد لغاری کہتے ہیں کہ سینکڑوں سالوں سے موہن جو دڑو کا بیل سندھ کی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ اس کو مذہبی بنیادوں پر تبدیل کرنا درست عمل نہیں ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ بیل والا لوگو بحال کیا جائے

سندھی ادبی بورڈ کے چیئرمین مخدوم سعید الزمان ، جو مخدو طالب المولی کے فرزند ہیں، انہوں نے سربراہی سنبھالنے کے بعد بورڈ کے لیے آسمانی رنگ کا ایک جھنڈا بنانے اور لوگو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور دونوں فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا گیا

اس حوالے سے بورڈ کے اُس وقت کے سیکریٹری سکندر شاہ کا موقف تھا کہ لوگو تبدل کرنے کا فیصلہ بورڈ آف گورنرز کے پاس ہے، جو مجاز اور بااختیار ادارہ ہے، اس سے قبل بھی بورڈ کا لوگو تبدیل ہوتا رہا جس میں معصوم شاہ کا منارہ تو کبھی ’س ا ب‘ تحریر کیا گیا ’سندھ کا نقشہ سندھ کی عکاسی کرتا ہے جو مروج اور مقبول ہے چونکہ یہ سندھ کا ادارہ ہے اسی لیے نقشے کو لوگو بنایا گیا ہے۔‘

ادبی بورڈ کے چیئرمین مخدوم سعید الزمان سروری سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بنیاد مخدوم نوح سرور نے رکھی تھی، ہالا میں ان کی درگاہ واقع ہے، سوشل میڈیا پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ بیل کے لوگو کو ہٹانے کے پیچھے مذہبی بنیاد ہے

ادبی بورڈ کے سابق سیکریٹری سکندر شاہ کے مطابق موھن جو دڑو کی مہر والے لوگو کو ہٹانے کے پیچھے مذہبی سوچ نہیں ہے۔ ’ویسے بھی جو مذہبی کتابیں شایع کی جاتی ہیں اس پر یہ لوگو نہیں لگایا جاتا ہے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کب سے عمل کیا گیا ہے تو انھوں نے بتایا کہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب ماضی میں شائع ہونے والی کچھ مذہبی کتابوں پر بیل والا یہ مونو گرام موجود ہے

سندھی ادبی بورڈ کی جانب سے گذشتہ کئی دہائیوں سے میگزین اور رسالے باقاعدگی سے جاری کئے جاتے ہیں۔ جن میں ادبی رسالہ تین ماہی ’مہران‘ بچوں کا رسالہ ماہوار ’گُل پھُل‘ اور خواتین کا رسالہ ’سرتیوں‘ رسالے بھی شامل ہیں

استاد لغاری کے مطابق اس بار آنے والے مہران رسالے پر پرانے بیل والے لوگو کی بجائے سندھ کے نقشے والا نیا لوگو لگا ہوا تھا

سندھی ادبی بورڈ نے مذہبی بنیادوں پر لوگو تبدیلی کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ غیر ضروری طور پر مسئلہ بنا کر ادبی بورڈ اور عوام کا وقت برباد کر رہے ہیں

سندھی ادبی بورڈ کے ترجمان میر علی شاہ نے سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ گلبدن جاوید مرزا کے تحریری بیان کا حوالہ دیا، جس کے مطابق ”لوگو کی تبدیلی کا مقصد صرف سندھ کو پروموٹ کرنا ہے اور اس کے پیچھے مذہبی مقاصد نہیں ہیں۔ جو لوگ اس معاملے کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں، انہیں تمام سازشوں سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ ایسے حربے انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں“

بیان میں مزید کہا گیا ہے ”بورڈ نے ہمیشہ سندھ، سندھ کی ثقافت اور تہذیب کو پروموٹ کیا ہے، جس کا ثبوت بورڈ کی جانب سے شائع کی گئی کتب ہیں۔ بورڈ نے سندھ کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر جنتی کتب شائع کرائی ہیں، وہ شاید کسی اور ادارے نے تاحال شائع نہیں کرائیں“

سیکریٹری سندھی ادبی بورڈ گلبدن جاوید مرزا کے بیان میں کہا گیا ہے ”سندھی ادبی بورڈ نے حال ہی میں مرکزی دروازے کو جی ایم سید کے نام سے منسوب کر کے سندھ سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ جہاں تک بَیل کو لوگو میں استعمال کرنے کا سوال ہے تو تاحال ادبی بورڈ کے علاوہ کون سے ادارے نے بیل کو لوگو میں استعمال کیا ہے؟ بیل لگانے کا مقصد سندھ کو پروموٹ کرنا تھا اور اب لوگو میں سندھ کا نقشہ لگانا اور جی ایم سید کے نام سے دروازے کا نام منسوب کرنا بھی سندھ سے محبت اور شخصحیات کو پروموٹ کرنا ہے“

سندھی ادبی بورڈ کے ترجمان میر علی شاہ کے مطابق یہ پہلی بار نہیں کہ سندھی ادبی بورڈ کے لوگو کو تبدیل کیا ہو

انہوں نے سندھی ادبی بورڈ کے ماضی میں تبدیل ہونے لوگوز دکھاتے ہوئے کہا کہ وقت بہ وقت لوگو تبدیل ہوتا رہا ہے

بیل کی مہر کا سندھ کی تہذیب سے کیا تعلق ہے؟

وادی مہران کی 4500 سال پرانی تہذیب ’موئن جو دڑو‘ کے کھنڈرات سے ملنے والی مہروں میں بیل کی مہر بھی شامل ہے، معروف شاعر ڈاکٹر اسحاق سمیجو کہتے ہیں کہ بیل کی علامت کا تاریخی اور شعوری پس منظر ہے، موئن جو دڑو کے لوگوں نے بیل کی مہر اسی وجہ سے ہی بنائی تھی کیونکہ ان کے پاس بیل صرف ایک جانور کے طور پر نہیں تھا بلکہ ان کے معاشرتی اور معاشی زندگی میں سب سے معاون و مددگار تھا اور دوست تھا

انہوں نے کہا ’بیل جنگلی، زرعی سماج اور آج کے صنعتی دور میں بہ انسانوں کے ساتھ گھر کے افراد کی طرح رہتا ہے جن لوگوں نے ادبی بورڈ کے لوگو میں موئن جو دڑو کے بیل کو شامل کیا تھا ان کے پاس ایک سوچ تھی، اس لوگو میں سے بیل کی بیدخلی سندھ کے قدیم تہذیبی سفر، فطرت سے محبت اور ترقی سے انحراف ہے اس سے بڑی بدقسمتی ہوئی نہیں سکتی۔‘

سندھی ادبی بورڈ کی مختصر تاریخ

سندھی ادبی بورڈ ان چند ادبی علمی اداروں میں شامل ہے جو قیام پاکستان سے بھی پہلے سے موجود تھے۔ جس کے بانی قوم پرست رہنما جی ایم سید تھے۔ 1940 میں جب جی ایم سید صوبائی وزیر تعلیم تھے تو انھوں نے سندھی ادب کے فروغ کے لیے مرکزی معاون بورڈ تشکیل دیا تھا، جس میں اس وقت کے اسکالرز اور ادیب شامل تھے، جو ہندو اور مسلم دونوں کمیونٹیز سے تعلق رکھتے تھے۔ اس ادارے کا دفتر موجودہ این جی وی ہائی اسکول میں قائم کیا گیا تھا

پاکستان کے قیام کے بعد سندھی ادب اور تاریخ کی تحقیق اور تالیف کے لیے یہ ادارہ جاری رکھا گیا 1951 کو اسے سندھ ادبی بورڈ کا نام دیا گیا، اس کی رجسٹریشن خیرپور ریاست میں کرائی گئی اور اگلے چند سالوں میں اس کو مکمل خود مختار ادارہ بنادیا گیا

ادبی بورڈ کا دفتر کراچی سے حیدرآباد منتقل کیا گیا اور یہ سروری جماعت کے روحانی پیشوا، شاعر اور سینئر سیاست دن مخدوم محمد زمان طالب المولی کی رہائش گاہ میں قائم رہا، طالب المولٰی سندھ کے نامور شاعر رہے ہیں، ان کے بیٹے اور گدی نشین مخدو فہیم الزمان بھی شاعری کرتے تھے

حیدرآباد سے ادبی بورڈ کو سپر ہائی وے پر ایک نئی عمارت میں منتقل کیا گیا، جہاں ایک بڑے رقبے میں یہ موجود ہے، اس کی سربراہی زیادہ تر پروگریسو طبقے کے ادیبوں کے پاس رہی ہے۔ بورڈ کی ذمہ داری میں سندھی لغت کی تیاری، لوک ادب، قدیم ادب، سندھ کی تاریخ کو فروغ دینا ہے شامل ہے، اس وقت تک یہ ادارہ 6500 کے قریب کتابیں شائع کرا چکا ہے اور ادارے کی جانب سے خواتین، بچوں سمیت تین ادبی جرائد شایع ہوتے ہیں جبکہ اس کی ویب سائیٹ پر بھی یہ کتابیں دستیاب ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close