آرکٹک کی برف بہت جلد ختم ہونے والی ہے اور جب یہ مکمّل طور پر پگھل جاۓ گی تو دنیا آج کی طرح نہیں دکھے گی. آرکٹک پچھلے تیس سالوں میں تقریباً اپنی تمام ہی سب سے پرانی اور موٹی برف کی تہہ کو کھو چکا ہے اور اب آرکٹک کے 80 فیصد حصّے پر صرف موسمی برف ہی رہ گئی ہے، جو گرمیوں میں سکڑ یا ختم ہو جاتی ہے اور سردیوں میں دوبارہ سے جم جاتی ہے. کچھ تخمینوں کے مطابق اگر زمین اسی رفتار سے گرم ہوتی رہی تو 2030 میں آرکٹک اپنی اس موسمی برف کو بھی کھو دے گا اور اس کا اثر آرکٹک سے زیادہ باقی دنیا پر ہوگا
آرکٹک دنیا کے لیے ایک فریزر کا کام کرتا ہے اور اس دنیا کو ٹھنڈا رکھتا ہے اور اس کے پگھل جانے کے بعد دنیا کا موسم اور اس کا موسمیاتی نظام انتہائی غیر متوقع طریقے سے تبدیل ہو جائے گا مثلا گرمیوں کا دورانیہ طویل تر ہو جانا، سمندروں کی سطح کا بلند ہو جانا اور شدید قسم کے سیلاب آ جانا
لیکن ان سب معاملات کے بیچ ایک معاملہ زمین کی ”منجمد یاداشت“ کا بھی ہے، جس کے پگھلنے کا خدشہ ہے
ہمارے سیارے کے بننے اور یہاں زندگی کی پیدائش کے راز اپنے سینے میں دفن کیے انتہائی قدیمی پانی آرکٹک خطے کی برفانی تہوں میں موجود ہے۔ تاہم اب سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں یہ برف پگھلا سکتی ہیں۔ اس بہت ہی قدیمی برف کے ساتھ زمین پر پانی کی کہانی جڑی ہوئی ہے
اطالوی، فرانسیسی اور نارویجیئن محققین ناروے کے سوالبارڈ کے علاقے میں انتہائی قدیمی برف کو محفوظ بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ اسبرف کو آرکٹک سے نکال کر انٹارکٹک یعنی قطب جنوبی میں پہنچایا جائے تاکہ یہ محفوظ رہے
اس مشن پر مامور ’آئس میموری فاؤنڈیشن‘ کے نائب چیرمین کارلو باربانتے کہتے ہیں ”بلند طول البلد کے علاقوں مثلاً آرکٹک میں گلیشیئرز انتہائی تیز رفتاری سے پگھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیاں ان میں چھپی تمام معلومات کو ختم کر دیں، ہم ان عظیم آرکائیوز کو آئندہ نسلوں کے سائنسدانوں کے لیے محفوظ بنانا چاہتے ہیں‘‘
آٹھ ماہرین کی ٹیم نے گیارہ سو میٹر کی بلندی پر اپنا ایک کیمپ بنایا ہے۔ آئس میموری کے مطابق ہولٹیڈہلفونا آئس فیلڈ میں قائم کردہ اس کیمپ سے 4 اپریل سے ڈرلنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے
یہ محققین زمین کی سطح سے ایک سو پچیس میٹر گہرائی سے ٹیوبز کی مدد سے یہ برف نکالیں گے۔ برف کے کرسٹلز میں موجود انتہائی اہم ڈیٹا ماہرین کو ماضی کے ماحولیاتی تغیّرات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ پگھلنے والا پانی دھیرے دھیرے زمین کی گہرائی میں پہنچتا جا رہا ہے اور یوں یہ انتہائی قدیمی برف ختم ہو سکتی ہے
آئس میموری فاؤنڈیشن کے صدر جیرومی چاپیلاس نے کہا ”سائنسدان دیکھ رہے ہیں کہ زمین کی سطح سے یہ ابتدائی طرز کا مواد برف سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ محفوظ رہے‘‘
واضح رہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے نے انیسویں صدی سے اب تک درجہِ حرارت میں اوسطاً ایک اعشاریہ ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ کیا ہے۔ مطالعاتی جائزوں کے مطابق آرکٹک کا خطہ دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں دو تا چار گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے
منصوبے کے مطابق ناروے کے اس انتہائی دور افتادہ علاقے سے یہ برف یورپ لائی جائے گی اور پھر یہاں سے اسے قطب جنوبی میں فرانکو اٹالین انٹارکٹک اسٹیشن میں محفوظ کر دیا جائے گا
یہ برف جس علاقے میں رکھی جائے گی، اسے انٹارکٹک معاہدے کے تحت تحفظ حاصل ہے اور وہاں قطب شمالی سے لائی گئی برف کو منفی پچاس درجے سینٹی گریڈ کے حامل علاقے میں برف تلے محفوظ بنا دیا جائے گا۔