یہ نصف صدی قبل کی بات ہے، جب خواتین کے روپ میں اسرائیلی کمانڈوز نے بیروت کے ایک پرتعیش علاقے میں ایک خفیہ آپریشن میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے تین اہم رہنما فائرنگ کر کے شہید کر دیے تھے۔ اس واقعے کو ٹھیک پچاس برس مکمل ہو جانے کے باوجود یہ ملک آج بھی مختلف علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ میں ایک اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ 10 اپریل 1973 کے روز ہونے والا یہ آپریشن اب تک قصہ پارینہ نہیں بنا ہے
لبنانی سرزمین پر اس انداز کی کمانڈو کارروائی گو کہ اس طرح کا پہلا آپریشن تھا، تاہم پراکسی لڑائی کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے لبنان پر اسرائیلی طیاروں کی فضائی کارروائیاں اس جاری لڑائی کا ہی عکس ہیں
لبنان میں داخل ہو کر اسرائیلی ٹیم کی یوں بیروت کے مرکز میں کارروائی اور انتہائی معمولی مزاحمت سے نمٹنے کے بعد بحفاظت واپسی نے لبنان کے لوگوں کو ہکا بکا کر دیا تھا۔ یہ واقعہ لبنان میں خانہ جنگی سے دو برس قبل پیش آیا تھا۔ تب یہ ملک سیاحوں کی نظروں کا مرکز ہوا کرتا تھا، جہاں عام لوگ اپنی چھٹیاں گزارنے جایا کرتے تھے جب کہ مختلف ماہرین آثار قدیمہ تحقیق کرتے بھی ملتے تھے۔ یہاں کے برف پوش پہاڑ اور ریتیلے ساحل سیاحوں کے لیے کشش کا باعث تھے
لیکن اس آپریشن نے اس ملک ایک ایسے میدانِ کارزار میں بدل دیا، جہاں آج بھی زندگی لہو لہان ہے۔ اس کے بعد علاقائی ممالک کی جانب سے اس ملک میں مداخلت کبھی نہیں رکی
لبنان میں اس آپریشن کی قیادت ایہود باراک نے کی تھی، جو بعد میں اسرائیلی فوج کے سربراہ بنے اور سن 1999ع میں اسرائیل کے وزیر اعظم بھی
اس کمانڈو آپریشن کا ہدف مغربی کنارے میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے سربراہ کمال عدوان تھے۔ ان کے علاوہ پی ایل او کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن محمد یوسف نجار اور پی ایل او کے ترجمان، لکھاری اور شاعر کمال ناصر بھی اس کارروائی میں شہید کر دیے گئے تھے
9 اپریل 1973 کو عدوان کی اہلیہ ماہا جیوسی دانت کے درد کا شکار تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس رات وہ اپنے بچوں کے ساتھ جلدی سونے چلی گئیں، جب کہ عدوان کی رات گئے پی ایل او کے کچھ رفقاء کے ساتھ ملاقات طے تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ رات قریب ایک بجے انہیں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے اور دھماکے کی آواز سنائی دی۔ ایسے میں عدوان بیڈروم میں اپنی بندوق لینے پہنچے اور اہلیہ اور بچوں کو کمرے ہی میں رکنے کا کہا
ماہا جیوسی کے مطابق اس کے چند ہی سیکنڈ بعد انہیں گولیاں چلنے کی آواز آئی اور عدوان کوریڈور میں زخمی حالت میں ڈھیر ہو گئے۔ ماہا جیوسی جو عبرانی جانتی تھیں، کہتی ہیں کہ اس کے بعد دو مسلح شخص بیڈروم میں داخل ہوئے اور ان کے اور بچوں کے چہرے پر ٹارچ سے روشنی ڈالی۔ پھر ان میں سے ایک شخص نے ریڈیو پر عبرانی زبان میں کہا، ”مشن مکمل ہو گیا۔‘‘ پھر اس نے کہا، ”اس کی بیوی اور بچے بھی یہاں ہیں۔ کیا انہیں بھی مار دیں؟‘‘ ایسے میں اسے جواب موصول ہوا، ”اگر وہ مزاحمت نہیں کر رہے تو انہیں قتل مت کرو‘‘
اس اسرائیلی آپریشن میں تین اہم فلسطینی رہنماؤں کے علاوہ متعدد لبنانی پولیس اہلکار اور محافظ بھی شہید کیے گئے۔ اسی آپریشن کے سلسلے میں بیروت ہی میں اسی شب ایک اور چھاپے میں دو اسرائیلی کمانڈوز بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیل نے ‘آپریشن بہارِ نو‘ کا نام دیا، لیکن یہ لبنان کے لیے تباہی کی ایک نہ ختم ہونے والی خزاں لے کر آیا
اس آپریشن کے بعد لبنان میں فلسطینی تحریک کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تقسیم جو اسرائیل نے خوب ہوا دی۔ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضے کے تین برس بعد اردن کی جانب سے فلسطینیوں کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دینے کی وجہ سے سن 1970ع سے فلسطینیوں کے لیے لبنان ایک پناہ گاہ تھا۔ تاہم اس آپریشن کے بعد لبنان میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا، جو اس وقت کے وزیر اعظم صائب سلام کے استعفے کا باعث بنا
بعد میں لبنانی سکیورٹی فورسز اور تنظیمِ آزادیِ فلسطین کے اراکین کے درمیان متعدد مواقع پر جھڑپوں کے افسوسناک واقعات بھی پیش آئے۔