سہ پہر تین بجے بیسی پوپکنز نے باہر جانے کے لیے تیاری کا آغاز کیا۔ یہ شدید گرمی کے دنوں میں خصوصاً ایک مشکل مرحلہ تھا۔ سب سے پہلے وہ اپنے موٹے اور بھدے جسم کو (کارسٹ) تنگ شمیض کی مدد سے مطلوبہ شکل میں لائی۔ پھر لباس پہنا۔ اس کے بعد گھر میں رنگے الجھے بالوں کو کنگھی کرنے بیٹھ گئی، وہ سرخ اور سرمئی بھوسے کا گھچا لگ رہے تھے۔ بعد ازاں اس نے اپنے سوجے ہوئے پیر بمشکل جوتوں میں ڈالے۔ اب اپارٹمنٹ کو محفوظ طریقے سے بند کرنے کا مرحلہ تھا، تاکہ اس کی غیر موجودگی میں کوئی پڑوسی گھر میں گھس کر کچھ چوری نہ کرلے۔
بیسی کو اذیت دینے والوں میں انسانوں کے ساتھ ساتھ شیاطین اور بری قوتیں بھی ملوث تھیں۔ اسے ہر دم ہوشیار رہنا پڑتا تھا۔ ایک بار اس نے اپنی عینک ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی، جو کچھ دیر بعد اس کی جوتی میں پائی گئی۔ وہ بال رنگنے کا شیمپو، دوائیوں کی الماری میں چھپا کر رکھتی تھی، لیکن ایک دن وہ اسے اپنے تکیے کے نیچے ملا۔ ایک دفعہ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے گوشت سے بھرا برتن ریفریجریٹر میں رکھا، لیکن کسی بھوت نے اسے نکال لیا اور بیسی کو کافی تلاش بسیار کے بعد وہ الماری میں سے ملا۔ وہ سڑ چکا تھا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اسے کن کن اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اس نے کتنی دھونس اور دھمکیاں برداشت کیں اور پاگل پن سے بچنے کے لیے کیسے کیسے جتن کیے۔ اس نے ٹیلی فون اس لیے کٹوا دیا تھا کہ کچھ دھوکے باز اور شرارتی قسم کے لوگ اسے دن رات فون کر کے سن گن لیتے تھے، تاکہ اس کے راز معلوم کر سکیں۔ ایک پورٹو ریکن دودھ والا ایک بار اس کے اپارٹمنٹ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا اور ایک بقال نے سگریٹ نوشی کرتے ہوئے اس کا تقریباً سارا گھر جلا دیا تھا۔
بیسی پینتیس سال سے وہاں رہ رہی تھی۔ ہر بار مقررہ وقت پر بل ادا کرنے کے باوجود بلڈنگ انتظامیہ اس سے اپارٹمنٹ خالی کروانا چاہتی تھی۔ بیسی کا خیال تھا کہ وہ اکثر چوہے اور لال بیگ اس کے کمروں میں چھوڑ دیتے ہیں۔
بیسی کو بہت پہلے احساس ہوگیا تھا کہ گھس بیٹھیوں کو کوئی چیز نہیں روک سکتی، دھاتی دروازے نہ خصوصی تالے اور نہ ہی پولیس سے شکایت۔۔ یہاں تک کے میئر کا دفتر، ایف بی آئی اور خود واشنگٹن میں صدر بھی اس کی مدد نہیں کر سکتے۔ وہ جانتی تھی جس طرح آپ سانس لیتے ہیں اور آپ کو کھانے کی ضرورت ہے، اسی طرح آپ کو اپنی مدد آپ کے تحت اپنی حفاظت خود کرنی پڑے گی۔ وہ کہتی کھڑکیاں مضبوطی سے بند رکھیں، گیس کا وال چیک کرتے رہیں، الماری کی درازوں کو مقفل رکھیں۔ اس نے اپنی دولت کو احتیاط سے انسائیکلوپیڈیا کی جلدوں میں، نیشنل جغرافک میگزین کے پرانے شماروں میں اور سام پاپکنز کے بہی کھاتوں میں چھپا رکھا تھا۔ مختلف کمپنیوں کے حصص اور بانڈز، متروک آتش دان میں لکڑی کے کندوں کے درمیان محفوظ تھے اور زیورات کو کرسیوں کی نشستوں کے نیچے اور گدوں میں دفن کر رکھا تھا۔ اگرچہ اس کے پاس بینک میں محفوظ ڈپازٹ باکس تھے، لیکن اسے یقین تھا کہ وہاں کی انتظامیہ کے پاس دوسری چابیاں ہوتی ہیں۔
بیسی کو تیاری میں تقریباً پانچ بج گئے۔ اس نے آخری بار اپنا عکس چھوٹے دھندلے آئینے میں دیکھا۔ اس کی پیشانی تنگ، ناک چپٹی اور آنکھیں چینیوں کی طرح چھوٹی تھیں، ٹھوڑی پر سفید بال نکل رہے تھے۔ اس نے ہلکے رنگ کا پھول دار لباس پہنا ہوا تھا اور سر پر ایک سادہ تنکوں والی ٹوپی تھی۔ جس پر سجاوٹ کے لیے لکڑی سے بنے انگور اور چیری لگے تھے، پیروں میں پرانے مرمت شدہ جوتے تھے۔ جانے سے پہلے اس نے تینوں کمروں اور باورچی خانے پر ایک نظر ڈالی۔ ہر طرف کپڑے، جوتے اور لفافہ بند خطوط پڑے تھے۔ اس کا شوہر سام پوپکنز تقریباً بیس سال پہلے فوت ہو گیا تھا۔ اس نے موت سے کچھ دن پہلے اپنی ریئل اسٹیٹ کمپنی کو ختم کر دیا تھا، کیوں کہ وہ ریٹائر ہو کر فلوریڈا میں سکونت اختیار کرنے والے تھے۔ سام اُس کے لیے مختلف کمپنیوں کے حصص، بانڈز، سیونگ بینک پاس بکس اور رہن چھوڑ کر مرا تھا۔ آج بھی بیسی کو کاروبار کی رپورٹیں اور چیک ملتے رہتے تھے اور ٹیکس وصول کرنے والے ادارے کے بل بھی، تقریباً ہر ماہ تجہیز و تکفین کرنے والی کمپنی کی طرف سے اطلاع آتی تھی کہ ایک وسیع قبرستان میں پلاٹ موجود ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بیسی عموماً خطوط کے جواب دیتی، چیک جمع کرتی اور آمدنی اور اخراجات کا حساب رکھتی تھی، لیکن کچھ عرصے سے یہ موقوف کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ اخبار خریدنا اور مالیاتی صفحے پڑھنے بھی چھوڑ دیے تھے۔
راہداری میں آ کر بیسی نے گتّے کے ٹکڑے کو موڑ کر دروازے اور فریم کے درمیان درز میں پھسا دیا اور چابی کے سوراخ کو لبدی سے بند کر دیا تاکہ کوئی اندر نہ جھانک سکے، رشتے داروں اور دوستوں سے دور بے اولاد بیوہ اس سے زیادہ کیا کرسکتی تھی۔ اس سے پہلے کہ پڑوسی دروازے کھول کر باہر دیکھتے اور اس کی ضرورت سے زیادہ احتیاط پسندی کا مذاق اڑاتے۔ وہ چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسی پڑوسیوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کی نگاہ بہت کمزور تھی۔ کئی سال پہلے تجویز کیے گئے عینک کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا اور نئی عینک بنوانے کے لیے عینک ساز کے پاس جانا ایک مشکل کام تھا۔ یہاں تک کہ لفٹ میں داخل ہونا اور باہر نکلنا بھی اس کے لیے کارِگراں تھا۔ جس کے دروازے ہمیشہ زوردار آواز کے ساتھ بند ہوتے تھے۔ اس نے پچھلے سالوں میں شاذ و نادر ہی گھر سے دو بلاکس سے زیادہ فاصلے کا سفر کیا تھا۔ براڈوے اور ریور سائیڈ ڈرائیو کے درمیان کی سڑکیں دن بدن پُرشور اور گنجان ہوتی جا رہی تھیں۔ وہاں نیم برہنہ بچوں کی ٹولیاں ادھر ادھر دوڑتی رہتی، گھونگرالے بالوں، جنگلی حیوانوں جیسی آنکھوں اور سیاہ چمڑی والے مرد اپنی پست قامت بیویوں کے ساتھ ہسپانوی زبان میں جھگڑتے رہتے، جو ہمیشہ بڑے ہوئے حاملہ پیٹ کے ساتھ نظر آتی تھیں۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر بات کرتیں۔ کتے مسلسل بھونکتے رہتے اور بلیاں خوفناک آواز میں چنگاڑتی۔ وقتاً فوقتاً کہیں نہ کہیں آگ بھڑک اٹھتی اور فائر انجن، ایمبولینس اور پولیس کی سائرن بجاتی گاڑیاں دوڑی چلی آتیں۔ غرض ہر وقت شور و شرابہ مچا رہتا تھا۔ اب براڈوے پر کریانے کی دکانوں کے بجائے سپر مارکیٹیں نمودار ہوگئیں تھیں۔ جہاں چیزوں کا انتخاب خود کرنا ہوتا، اسے ہاتھ گاڑی میں رکھنا اور پھر قیمت کی ادائیگی کے لیے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ اوہ خدا! جب سے سام مرا ہے۔ دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ اسے خیال آیا۔ تمام مہذب لوگوں نے علاقہ چھوڑ دیا تھا اور چوروں، ڈاکوؤں اور بری لڑکیوں کے گروہ کے گروہ وہاں آباد ہو گئے تھے۔ اس کا پرس تین بار چوری ہوا اور جب وہ پولیس کے پاس شکایت کرنے گئی تو وہ صرف ہنس کر رہ گئے۔ وہاں جان خطرے میں ڈال کر ہی سڑک پار کرنا ممکن تھا۔
بیسی ایک قدم اٹھا کر رک گئی۔ لوگ اسے چھڑی لے کر چلنے کا مشورہ دیتے تھے، لیکن وہ خود کو بوڑھی یا معذور ظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ مہینے میں ایک بار اپنے ناخنوں کو مینی کیور کرتی اور ان پر سرخ رنگ کی نیل پالش لگاتی اور جب گٹھیا کے درد کا زور کم ہوتا تو الماری میں سے کپڑے نکالتی، انہیں یکے بعد دیگرے پہنتی اور خود کو دیر تک آئینے میں دیکھتی رہتی۔ جلد ہی بیسی سپر مارکیٹ کے قریب پہنچ گئی۔ اس کے لیے شیشے کا بھاری دروازہ کھولنا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا اسے کسی اور کے اندر جانے کا انتظار کرنا پڑا۔ اس طرح کے اسٹور کے قیام کا تصور صرف شیطان ہی پیش کر سکتا تھا۔ وہاں بہت تیز روشنی ہو رہی تھی اور گاہک ہاتھ گاڑیاں تیزی سے لڑھکاتے اس طرح چلے جارہے تھے کہ ڈر ہوتا تھا کہ راستے میں آنے والوں کو مار بیٹھے گے۔ شور اتنا تھا کہ بہرا ہو جانا ممکن تھا اور سڑک پر آگ برساتی گرمی کے برعکس اندر اتنی ٹھنڈک تھی کہ یہ معجزہ تھا کہ بیسی کو اب تک نمونیا نہیں ہوا تھا، لیکن بیسی سب سے زیادہ اشیاء کے انتخاب کے معاملے میں پریشان تھی۔ وہ کانپتے ہاتھوں سے چیزوں کو اٹھاتی اس کے نام اور قیمت کو جانچنے کی کوشش کرتی۔ اس کا مقصد کم قیمت شے کو ڈھونڈنا نہ تھا۔ بلکہ عمر کے ساتھ آنے والی ہچکچاہٹ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ خریداری میں پونے گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے تھا، لیکن دو گھنٹے گزر چکے تھے اور بیسی کی خریداری ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی۔ آخر کار جب وہ ہاتھ گاڑی لیے قطار میں لگی سامان کی ادائیگی کر رہی تھی تو اسے اچانک یاد آیا کہ اس نے دلیا نہیں لیا۔ وہ واپس گئی اور اپنی باری کھو بیٹھی اور پھر جب باقی سامان کی ادائیگی کا وقت آیا تو ایک اور مصیبت آئی، اسے پچھلے سامان کا بل دکھانا تھا۔ بیسی نے بل بیگ کے دائیں حصے میں رکھا تھا، لیکن وہاں نہیں تھا۔ سب کچھ باہر نکالنے پر آخرکار وہ دوسری طرف کے حصے میں ملا، کون یقین کرے گا کہ اس کے ساتھ کیسے عجیب واقعات ہوتے تھے؟ کسی کو بتائیں تو وہ سوچے گا۔ اُس کے پاگل خانے جانے کا وقت آگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسی سہہ پہر کے وقت شاپنگ کرنے نکلی تھی اور اب اندھیرا ہو رہا تھا۔ سنہرا سورج دریائے ہڈسن سے دور دھند سے بھری پہاڑیوں میں ڈوب گیا تھا۔ دن بھر کی گرمی کے بعد براڈوے کے گھروں کی کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں اور سب وے کی سرنگ کی باڑ سے گھڑگھڑاہٹ کے ساتھ بدبودار دھواں اٹھ رہا تھا۔ بیسی نے ایک ہاتھ میں سامان کا بھاری تھیلا اور دوسرے میں مضبوطی سے پرس پکڑا ہوا تھا۔ براڈوے اسے کبھی اتنا گنجان اور گندا نہیں لگا تھا۔ وہاں سے نرم تارکول، پٹرول، سڑے ہوئے پھلوں اور کتوں کے بول براز کی بو آ رہی تھی۔ فٹ پاتھ پر پھٹے اخباروں اور سگریٹ کے ٹوٹوں کے درمیان کبوتر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یہ سمجھنا ناممکن تھا کہ وہ راہگیروں کے پیروں تلے آنے سے کیسے بچتے تھے۔ مصنوعی گھاس کی نمائش کے سامنے پسینے سے تر قمیضوں میں ملبوس مرد پپیتے اور انناس کا رس پی رہے تھے، جیسے وہ اپنے اندر جلتی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہوں۔ ان کے سروں پر ریڈ انڈینز کی طرح ناریل کی شکل کے ہیٹ تھے۔ ایک گلی میں سیاہ اور سفید فام بچوں نے ایک نل کھول رکھا تھا اور ہودی میں نیم برہنہ ہو کر نہا رہے تھے۔ گرمی کی اس لہر میں لاؤڈ اسپیکر لگی ایک اشتہاری گاڑی کہیں سے چلی آئی اور بہرا کر دینے والی موسیقی کے دوران مقامی امیدوار کی تعریف میں کوئی بولنے لگا۔ پھر ایک لڑکی، جس کے بال تاروں کی طرح الجھے ہوئے تھے، ایک ڈبے سے پمفلٹ نکال کر لوگوں کو بانٹنے لگی۔ بیسی یہ اودھم برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے تیز قدموں سے گلی کو پار کیا اور اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کی طرف چل دی۔ پھر وہ لفٹ کے ذریعے پانچویں منزل پر آئی۔ کریانے کے سامان کا تھیلا دہلیز پر رکھا اور قفل میں چابی ڈال کر گھمائی، لیکن اچانک چابی ٹوٹ گئی اور بیسی کے ہاتھ میں اس کا سر باقی بچا۔ بیسی کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ ایک نئی آفت آگئی ہے۔
بلڈنگ انتظامیہ کے پاس دیگر مکینوں کی اضافی چابیاں ہوتی تھیں، لیکن اس کی نہیں۔ کیوں کہ وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتی تھی اور ایک بار اس نے آرڈر دے کر ایسا پیچیدہ قفل بنوایا تھا، جسے کوئی اور چابی نہیں کھول سکتی تھی۔ وہ ہمیشہ ایک چابی گھر سے لے کر نکلتی تھی، دوسری الماری کی دراز میں کہیں چھپا رکھی تھی۔ ”اوہ۔۔۔۔یہ تو حد ہوگئی۔“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
بیسی کا خیال تھا کہ اس کی کوئی مدد نہیں کرے گا، پڑوسی اس کے دشمن تھے اور بلڈنگ انتظامیہ اس کے مرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس کا گلا رندھ گیا۔ وہ چیخ کر رو بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے اس امید پر پیچھے مڑ کر دیکھا کہ وہاں شیطان کھڑا ہنس رہا ہوگا، جس نے اسے آخری ضرب لگائی تھی۔
بیسی نے بہت پہلے موت کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا، لیکن سیڑھیوں یا گلی میں مرنا بہت دردناک تھا اور کون جانتا تھا کہ یہ اذیت کب تک رہے گی؟ وہ سوچنے لگی۔ کیا کہیں کوئی ورکشاپ ہے، جہاں چابیاں بنائی جاتی ہیں؟ اور اگر ہے تو چابی ساز چابی کی نقل کیسے لے گا؟ اسے اپنے اوزاروں کے ساتھ یہاں آنا پڑے گا۔ بلکہ اس کو ایک ایسے کاریگر کی ضرورت ہے جو مخصوص کمپنی کے خصوصی تالوں کے بارے میں بھی جانتا ہو اور کیا اس کے پاس کچھ فاضل پیسے ہیں؟ کیونکہ وہ کبھی بھی خریداری کے لیے ضرورت سے زیادہ پیسے لے کر نہیں جاتی تھی۔ جبکہ سپر مارکیٹ کے کیشیئر نے اسے صرف بیس سینٹ بچا کر دیے تھے۔ ”اوہ ماں۔۔۔“ وہ بڑبڑائی۔
کافی ہچکچاہٹ کے بعد، اس نے دوبارہ سڑک پر جانے کا فیصلہ کیا کہ شاید کوئی چابی ساز یا ہارڈویئر کی دکان ابھی کھلی ہو۔ اسے یاد آیا کہ پہلے اس بلاک پر کہیں ایسی دکان تھی، لیکن وہ سامان کا کیا کرے؟ اسے ساتھ لے جانا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ تھیلا دروازے پر چھوڑ دے۔ بیسی کو خیال آیا۔ کوئی سامان چوری نہ کرلے، شاید پڑوسیوں نے جان بوجھ کر تالے کے ساتھ گڑبڑ کی ہے، تاکہ وہ اپارٹمنٹ میں داخل نہ ہو سکے اور وہ اندر موجود ہیں اور رقم کی تلاش میں چیزوں کو الٹ پلٹ رہے ہیں۔ اس نے سڑک پر جانے سے پہلے سن گن لینے کے لیے ایک کان دروازے سے لگایا، لیکن ایک ہلکی مسلسل سیٹی کے سوا کچھ سنائی نہیں دیا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے، کبھی وہ گھڑی کے الارم کی آواز لگتی، کبھی عجیب سی سرسراہٹ۔۔ جیسے کوئی انجان مخلوق دیواروں یا پائپوں میں آ بیٹھی ہو۔ بیسی نے ذہنی طور پر ان اشیاء کے متعلق انا للہ پڑھ لی تھی، جنہیں فرج میں رکھنا ضروری تھا۔ اسے معلوم تھا انہیں گرمی میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ مکھن پگھل جاتا اور دودھ کھٹا ہوجاتا۔ ”یہ سزا ہے! میں بڑی بدقسمت ہوں۔“ وہ بڑبڑائی اور اپنے فلور پر لفٹ کو بلانے کے لیے بٹن دبایا، لفٹ میں ایک پڑوسن موجود تھی، بیسی کو خوف آیا اگر یہ چوروں میں سے ہوئی اور اس نے مجھ پر حملہ کر دیا؟ مگر نیچے پہنچ کر پڑوسن نے اس کے لیے دروازہ کھولا۔ وہ شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی، لیکن کچھ نہیں بولی۔ اتنا کچھ ہونے کے بعد دشمنوں کا شکریہ ادا کرنا ضروری نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ سب ان کی سازش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بیسی باہر آئی تو رات ہو چکی تھی۔ نالے میں پانی بہہ رہا تھا اور گلیوں میں جلتے لیمپوں کے عکس اس میں دکھائی دے رہے تھے۔ قریب ہی کہیں پھر آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس نے آگ بجھانے والی گاڑی کا سائرن سنا۔
جب وہ براڈوے پر آئی تو اس نے تیز گرم ہوا کو چہرے پر ٹکراتا محسوس کیا۔ وہ دن کے وقت بھی بمشکل دیکھ پاتی تھی۔ شام کو تو تقریباً نابینا ہو جاتی۔ دکانوں میں قمقمے جل رہے تھے، لیکن بیسی کو راستہ دیکھنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ تیزی سے گزرتے راہگیر اس سے ٹکرا رہے تھے۔ پہلی بار اسے بنا چھڑی چلے آنے کا افسوس ہوا۔
آخر وہ دکانوں سے آتی روشنی میں آگے بڑھنے لگی۔ اس نے ایک دوائیوں کی دکان دیکھی، پھر ایک مٹھائی کی، پھر ایک قالین کی، وہ ایک جنازہ گھر کے پاس سے بھی گزری، لیکن اسے ہارڈ ویئر کی دکان نہیں ملی۔
بیسی سوچ رہی تھی۔ آخر وہ آدمی کیا کرے، جس کی چابی ٹوٹ گئی ہو؟ کیا زندگی کو الوداع کہہ دے؟ کیا پولیس کے پاس جائے۔ ان کے پاس ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جو ان معاملات سے نمٹ سکیں، لیکن انہیں کیسے تلاش کیا جائے؟
کوئی حادثہ ضرور ہوا تھا۔ متجسس لوگوں کا ہجوم فٹ پاتھ پر اور پولیس کی گاڑیاں اور ایمبولینس سڑک پر نظر آ رہی تھیں۔ کوئی سڑک پر پائپ سے پانی ڈال رہا تھا، شاید خون دھونے کے لیے۔۔
بیسی کو ایسا لگتا تھا کہ تماشائیوں کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی ہیں۔ وہ کسی اور کی بدقسمتی پر خوش ہیں۔ اس نے سوچا۔ اس بدقسمت شہر میں اس کی اشک شوئی اور مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے
آخر بیسی چرچ کے قریب جا پہنچی۔ جس کا بند دروازہ کئی سیڑھیاں چڑھ کر آتا تھا۔ وہ بہت تھک گئی تھی اور بیٹھنا چاہتی تھی۔ اس کے گھٹنے کانپ رہے تھے اور پنڈلیوں میں درد ہو رہا تھا۔ ”برائی کی تمام طاقتوں نے مجھ پر یلغار کر دی ہے۔“ وہ بڑبڑائی۔
اسے بھوک کے ساتھ ساتھ متلی بھی بھی محسوس ہو رہی تھی اور منہ میں کڑواہٹ بھری تھی۔ اس نے دعا کی ”آسمانوں کے مالک! توبہ کے بغیر میرا خاتمہ نہ ہو۔“ اسے یاد آیا کہ اس نے کبھی وصیت کرنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ آخر اسے بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی، دکانیں بند ہو گئی تھیں اور گلی خالی اور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔
اب گرمی نہیں تھی بلکہ اسے ہلکے لباس میں سردی لگ رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ اس کا پرس چوری ہو گیا ہے، لیکن وہ ہاتھ سے پھسل کر نچلی سیڑھی پر چلا گیا تھا۔ بیسی نے اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، لیکن اس کی انگلیاں بےجان ہو چکی تھیں، سر دیوار سے ٹیک لگائے پتھر کی طرح بھاری ہو رہا تھا، ٹانگیں اکڑ گئی تھیں اور کان پانی سے بھرے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
اس نے ایک پلک اٹھا کر چاند کو دیکھا۔ چاند ایک ہموار چھت پر موجود تھا اور اس کے ساتھ ایک سبز ستارہ چمک رہا تھا۔ کئی سالوں سے اسے اوپر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہ صرف نیچے دیکھتی تھی۔ اس کے اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں پر موٹے پردے پڑے تھے تاکہ مخالف سمت سے کوئی جھانک نہ سکے۔ وہ سوچنے لگی۔ آسمان پر خدا، فرشتے اور جنت ہیں، میرے ماں باپ اور سام کی روحیں کہاں ہوں گی؟ وہ اپنے تمام فرائض کے بارے میں بھول گئی تھی وہ کبھی سام کی قبر پر نہیں گئی تھی اور اس کی برسی پر ایک موم بتی بھی روشن نہیں کی تھی۔ وہ نچلی قوتوں کے ساتھ لڑائیوں میں اس قدر مصروف تھی کہ اعلیٰ کے بارے میں بھول گئی تھی۔
بہت سالوں بعد پہلی بار اس نے دعا کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ خدا اس پر رحم کرے، حالانکہ وہ اس کی مستحق نہیں تھی۔ کچھ عبرانی الفاظ اس کی زبان کی نوک پر آ رہے تھے، لیکن اسے یاد نہیں تھے ”سنو بنی اسرائیل۔۔۔!“ اس کے آگے کیا ہے؟ ”خدا! مجھے معاف کر دے۔“ اس نے سرگوشی کی۔”میں ہر اس مصیبت کی مستحق ہوں جو مجھ پر نازل ہوئی ہے۔“
ماحول پرسکون اور ٹھنڈا تھا اور سگنل کی روشنیاں سبز ہو گئی تھیں، لیکن سڑک پر کوئی گاڑی نہیں تھی، اچانک کہیں سے ایک سیاہ فام آدمی نکل آیا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا بیسی کے پاس آ کر رکا اور اس کی طرف دیکھا پھر آگے بڑھ گیا۔ بیسی کو یاد آیا کہ اس کے بیگ میں کئی قیمتی چیزیں موجود ہیں، لیکن پہلی بار اسے اپنے سامان کی پروا نہیں تھی۔ سام اس کے لیے بہت کچھ چھوڑ کر مرا تھا، لیکن اس نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ وہ بڑھاپے کے لیے بچاتی رہی، جیسے وہ ابھی جوان ہو۔
”میری عمر کتنی ہے؟ اور میں نے ان سالوں میں کیا کیا؟ میں کہیں کیوں نہیں گئی؟ اپنی خوشیوں سے انکار کیوں کیا؟ کسی کی مدد نہیں کی؟“ وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔
اس کے اندر کوئی ہنسا۔ ”یہ پاگل پن ہے۔ میں نے خود ہی نارمل لوگوں کی طرح رہنا چھوڑ دیا ہے۔ میں کسی دوسرے کو قصوروار کیسے ٹہرا سکتی ہو؟“
وہ چونک گئی، ایسا لگتا تھا کہ وہ لمبی نیند سے جاگ اٹھی ہے۔ ٹوٹی ہوئی چابی نے اس کے دماغ میں ایک دروازہ کھول دیا تھا، جو سام کی موت کے بعد سے بند تھا۔
چاند چھت کے دوسری طرف چلا گیا تھا۔ آج اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر بڑا، سرخ اور کچھ دھندلا لگ رہا تھا۔ ہوا ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ بیسی کانپ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اسے نمونیا ہو سکتا ہے، لیکن اسے نہ موت کا خوف تھا اور نہ بے گھر ہونے کا۔۔ دریائے ہڈسن کی طرف سے تازہ ہوا چل رہی تھی اور آسمان پر نئے ستارے چمک رہے تھے۔ گلی کے دوسری طرف سے ایک بلی اس کے پاس چلی آئی۔ وہ چند ثانیوں تک فٹ پاتھ کے کنارے کھڑی اپنی سبز آنکھوں سے یک ٹک بیسی کو گھورتی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ اور احتیاط سے قریب آنے لگی۔ بیسی کو تمام جانوروں سے نفرت تھی، کتے، بلیاں، کبوتر اور یہاں تک کہ چڑیوں سے بھی۔۔ اس کا خیال تھا کہ وہ جراثیم، بیماری اور گندگی پھیلاتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ ہر بلی میں شیطان چھپا ہوتا ہے اور وہ بدقسمتی کی علامت ہے۔ ایک بار کالی بلی کو دیکھ کر اسے ایک خاص وحشت کا تجربہ بھی ہوا تھا، لیکن آج اس کے اندر ایک بے گھر مخلوق کے لیے محبت پیدا ہو رہی تھی۔ جس کے پاس نہ تو چابی تھی اور نہ ہی دروازہ۔۔ اور جو صرف خدا کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرتی تھی۔ بلی نے پہلے اس کے تھیلے کو سونگھا، پھر اپنی ٹانگ اس سے رگڑنے لگی، آخر اپنی دم اٹھائی اور میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ بیچاری بھوکی ہے لیکن میرے پاس اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ میں ایسی مخلوق سے کیسے نفرت کر سکتی ہوں؟ میں اتنے عرصے کسی سحر میں مبتلا تھی۔ میں اب ایک نئی زندگی شروع کروں گی اور اس کے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا۔ کیا مجھے دوبارہ شادی کرنی چاہیے؟
اندھیری رات ہیجان انگیز تھی۔ اس نے ہوا میں ایک سفید تتلی کو دیکھا، جو ایک کھڑی گاڑی کے اوپر چکر لگا رہی تھی اور پھر کہیں اڑ گئی۔ بیسی جانتی تھی کہ یہ ایک نوزائیدہ بچے کی روح ہے، کیوں کہ اصلی تتلیاں غروب آفتاب کے بعد نہیں اڑتیں۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی، لیکن کچھ دیر بعد وہ ایک آگ کے گولے کو دیکھتے ہوئے بیدار ہوئی، جو صابن کے بلبلے کی طرح ایک چھت سے اڑ کر دوسری چھت پر گیا اور اس کے پیچھے ڈوب گیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ کسی ایسے شخص کی روح ہے، جو ابھی فوت ہوا ہے۔
آخر بیسی گہری نیند سو گئی۔ پھر جب وہ جاگی تو پَو پَھٹ رہی تھی۔ ہر طرف ہلکی روشنی ہو گئی تھی۔ کچھ دیر بعد سورج سینٹرل پارک کی سمت سے نکل آیا۔ بیسی اسے یہاں سے نہیں دیکھ سکتی تھی، لیکن براڈوے پر آسمان گلابی ہو گیا تھا۔ عمارت کے بائیں جانب کی کھڑکیاں بحری جہاز کے پورٹ ہولز کی طرح جلتی، ٹمٹماتی اور دھندلا جاتی تھیں۔ ایک کبوتر اڑتا ہوا اس کے پاس زمین پر آ بیٹھا۔ پھر اس نے سرخ پنجوں پر چلتے ہوئے فٹ پاتھ پر کسی چیز پر چونچ ماری، شاید روٹی کے باسی ٹکڑے یا سوکھی مٹی پر۔۔ بیسی چونک گئی۔ وہ سوچ رہی تھی۔ یہ پرندے کیسے رہتے ہیں؟ یہ رات کو کہاں سوتے ہیں؟ یہ بارش، سردی اور برف باری میں کیسے زندہ رہنے کا انتظام کرتے ہیں؟ اس نے آہ بھری۔ بس اب مجھے گھر جانا چاہیے، اس نے فیصلہ کیا۔ اب لوگ مجھے سڑک پر برداشت نہیں کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسی کے لیے اٹھنا بہت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کا جسم سیڑھی سے چپک گیا ہے۔ اس کی پیٹھ میں درد ہو رہا تھا اور اکڑی ہوئی پنڈلیوں کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ ہمت کر کے اٹھی اور آہستہ قدموں سے گھر کی طرف چل دی۔ صبح کی نم ہوا میں گھاس اور کافی کی خوشبو بسی تھی۔ اس نے گہری سانسیں لیں۔ اب وہ اکیلی نہیں تھی، لوگ گھروں اور گلیوں سے نکل کر کام پر جا رہے تھے، وہ ہاکر سے اخبار خریدتے اور سب وے میں اتر جاتے۔ وہ خاموش اور حیرت انگیز طور پر شکر گزار نظر آ رہے تھے۔ گویا انہوں نے بھی گزشتہ شب زندگی کی غلطیوں پر غور اور تزکیہِ نفس کرتے ہوئے گزاری تھی۔
جب ایک نوجوان نے بیسی کو صبح بخیر کہا تو وہ حیران رہ گئی۔ اس نے سوچا۔ نہیں اس بلاک میں کوئی غنڈہ اور قاتل نہیں ہے۔۔ اس نے مسکرانے کی کوشش بھی کی، مگر اس پر انکشاف ہوا کہ وہ اس فطری نسوانی ردعمل کو عرصہ ہوا بھول چکی ہے، جو اس کی ماں نے بطور پہلا سبق زندگی میں اسے دیا تھا اور جسے اس نے تمام زندگی آسانی سے استعمال کیا تھا۔
وہ بلڈنگ کے قریب پہنچی۔ گیٹ پر بلڈنگ کا وہ نگراں کھڑا تھا۔ جس سے وہ نفرت کرتی تھی۔ وہ کچرا اٹھانے والوں سے بات کر رہا تھا۔ چپٹی ناک، موٹا اوپری ہونٹ اور نوکیلی ٹھوڑی والا دیو۔۔ اس کے آدھے گنجے سر کے پچھلے حصے پر سرخ بال تھے۔ اس نے بیسی کو حیرت سے دیکھا اور پوچھا ”اماں! کیا ہوا؟“
بیسی نے لڑکھڑاتی آواز میں اسے پورا قصہ سنایا اور چابیوں کا گچھا دکھایا، جسے وہ رات بھر اپنے ہاتھ میں دبائے رہی تھی۔
”خدا کی پناہ! آپ میرے پاس کیوں نہیں آئیں؟“ اس نے کہا۔
”تم کیا کرتے؟“ بیسی نے پوچھا
”میں دروازہ کھول دیتا۔“
”لیکن تمہارے پاس چابی نہیں ہے؟“
”میں ایمرجنسی کی صورت میں کوئی بھی دروازہ کھول سکتا ہوں۔“
نگراں چند لمحوں کے لیے اپنے کمرے میں گیا اور کچھ اوزار اور چابیوں کا گچھا لے کر واپس آیا۔ دونوں لفٹ میں اوپر آئے۔ کھانے کا تھیلا ابھی تک دروازے پر ہی پڑا تھا، لیکن ایسا لگتا تھا کہ راتوں رات اس کا وزن کم ہو گیا ہے۔ نگران تالا کھولنے کے لیے جھک گیا۔ وہ بڑبڑارہا تھا۔۔ ”اوہ خدا! مجھے حیرت ہے کہ آپ نے اس عمر میں ساری رات سڑک پر گزاری۔“
اسی دوران اگلے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا اور ایک عورت جس نے رنگے ہوئے سنہرے بالوں کو گھونگرالے کرنے کے لیے کرلر لگائے ہوئے تھے، باہر آئی اور پوچھا ”آپ کہاں تھیں؟ میں نے کئی بار دروازہ کھول کر دیکھا۔ یہ تھیلا ہر بار موجود تھا۔ میں نے مکھن اور دودھ نکال کر اپنے فریج میں رکھ دیا تھا۔“
بیسی کی آنکھیں نم ہو گئیں، ”آپ اتنی مہربان ہیں۔ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔“ وہ دھیرے سے بولی۔
نگراں نے چابی کا ٹوٹا ہوا آدھا حصہ تار کی مدد سے نکالا، پھر ایک اور تار ڈال کر دیر تک کچھ کرتا رہا۔ آخر دروازہ کھل گیا۔ وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے۔ بیسی کو وہاں عرصے سے بند گھروں کی کثیف بو محسوس ہوئی۔
نگراں نے کہا، ”اگر آئندہ ایسا ہو تو فوراً مجھے اطلاع دیں۔ اسے ٹھیک کرنا میری ذمہ داری ہے۔“
بیسی اسے کچھ انعام دینا چاہتی تھی لیکن اس کے ہاتھوں میں اتنی جان نہیں تھی کہ وہ اپنا پرس کھول سکے۔ پڑوسن دودھ اور مکھن لے کر آئی۔ بیسی بیڈ روم میں جا کر لیٹ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھا، جیسے کوئی بھاری پتھر اس کے سینے پر رکھا ہو۔ اسے متلی ہو رہی تھی اور ٹانگوں سے لے کر سینے تک پورے جسم میں کوئی چیز زور زور سے دھڑک رہی تھی، جسے وہ بنا آواز کے سن رہی تھی۔ اس کے لیے جسم کی یہ بے قاعدگی تجسس کا باعث تھی۔
بلڈنگ کا نگراں اور پڑوسن کچھ باتیں کر رہے تھے، لیکن ان کی باتیں بیسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ یہ اس کے ساتھ تقریباً تیس سال پہلے بھی ہو چکا تھا، جب وہ آپریشن سے پہلے بےہوشی کی کیفیت میں تھی۔ ڈاکٹر اور اس کی بہن بات کر رہے تھے، لیکن ان کی آوازیں بہت دور سے اور کسی ناقابلِ فہم زبان میں سنائی دے رہی تھیں۔
جلد ہی خاموشی چھا گئی۔ پھر کہیں سے سام نمودار ہوا۔ یہ دن کا وقت تھا نہ رات۔۔ کچھ عجیب سا دھندلکا چھایا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ سام مر چکا ہے، لیکن کسی طرح اس کے پاس چلا آیا ہے۔ وہ بہت کمزور اور شرمندہ لگ رہا تھا۔ وہ بول نہیں رہا تھا۔ بیسی اٹھی اور اس کے ساتھ چل دی۔ وہ ایسی جگہ پر پہنچے، جہاں آسمان تھا اور نہ زمین، صرف ایک سرنگ تھی۔۔ جس میں ناقابلِ فہم چیزوں کا ڈھیر تھا۔ وہ چلتے رہے۔۔ آخر انہوں نے اپنے آپ کو وہاں پایا، جہاں دو پہاڑ آپس میں مل رہے تھے اور سورج کے غروب یا طلوعِ آفتاب کی سی روشنی پھیلی تھی۔۔ وہ ہچکچاتے ہوئے ہلکی سی شرمندگی کے ساتھ کھڑے تھے۔ جیسے اپنی شادی کی رات جب وہ ایلن ویل گئے تھے اور ہوٹل کے مالک نے انہیں ہنی مون سویٹ دکھایا تھا۔۔ بیسی نے پھر وہ الفاظ سنے، جو اس نے کہے تھے۔ ”یہاں کوئی چابی نہیں ہے۔ بس داخل ہو جاؤ۔۔ خدا کامیاب کرے۔“
مصنف کا تعارف: آئزک بشواس سنگر (Isaac Bashevis Singer)
آئزک بشواس سنگر (1902-1991) نوبل انعام یافتہ پولش نژاد امریکی ادیب تھا، پولینڈ میں پیدا ہوا، 1925 میں پہلی مختصر کہانی لکھی۔ 1935 میں امریکہ منتقل ہو گیا۔ سنگر کو جدید دور کے کہانی کاروں میں ممتاز مقام حاصل ہے۔ اس کی تحریروں میں طنز، عقل اور حکمت کا بھرپور امتزاج نظر آتا ہے۔ اس کا اسلوب اگرچہ سادہ ہے، لیکن قاری کے لیے دلچسپ اور پرکشش ہے۔ سنگر کو 1978 میں ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ فلوریڈا میں وفات پائی۔