فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ وہ تائیوان کے حوالے سے اپنے بیان پر قائم ہیں اور امریکہ کے اتحادی ہونے کا مطلب اس کا تابعدار ہونا قطعی نہیں ہے۔“
چین کے حالیہ دورے کے دوران تائیوان کے متعلق فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے بیان پر جہاں تائی پے تذبذب میں ہے، وہیں امریکہ اور یورپی ملکوں میں بھی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ تاہم بدھ کے روز نیدرلینڈ کے سرکاری دورے کے دوران ماکروں نے ایک بار پھر کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور تائیوان کے حوالے سے ’اسٹیٹس-کو‘ کی حمایت کرتے ہیں
یاد رہے کہ اواخر ہفتہ کو ماکروں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ یورپ کو واشنگٹن اور بیجنگ میں سے کسی بھی ایک کا پیروکار نہیں ہونا چاہئے اور کسی طرح کی کشیدگی کو ہوا دینے سے دور رہنا چاہئے
ماکروں نے ڈچ وزیراعظم مارک روٹے کے ساتھ ایمسٹرڈم میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ایک اتحادی ہونے کا مطلب تابعدار ہونا قطعی نہیں ہے۔۔۔ اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے بارے میں سوچنے کا کوئی حق نہیں ہے“
ماکروں نے گزشتہ ہفتے چین کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ تائیوان کے متعلق فرانسیسی اور یورپی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے
انہوں نے مزید کہا تھا ”فرانس تائیوان میں حالات جوں کا توں رکھنے کا حامی ہے اور ایک صورت حال کا ایک پرامن حل چاہتا ہے“
تائیوان کے متعلق ماکروں کے انٹرویو کو چین نے شاندار قرار دیا لیکن امریکہ نے اسے مسترد کر دیا
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ”ماکروں، جو میرے دوست ہیں، اب چین کے ساتھ ہیں اور اس کے آگے دُم ہلا رہے ہیں۔“
ماکروں نے اس کے جواب میں کہا ”وہ سابق صدر ٹرمپ کے تبصرے پر کچھ نہیں کہنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس کشیدگی میں اضافہ میں شامل رہے ہیں“
ڈچ وزیر اعظم روٹے کا کہنا تھا کہ وہ ماکروں کے بیان سے متفق ہیں کہ ’یورپ کو کھیل کا میدان بننے کے بجائے کھلاڑی بننا چاہیے‘
تاہم انہوں نے کہا ”جب سکیورٹی اور آزادی کی بات ہو تو امریکہ کو اس کا لازمی شراکت دار ہونا چاہئے۔“
تائیوان کے ایک سینیئر سیاستدان نے کہا ہے کہ تائیوان کے بارے میں فرانسیسی صدر کے بیانات پریشان کن ہیں اور کیا آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے فرانس کے بنیادی نظریات اب پرانے اور فرسودہ ہو چکے ہیں
تائیوان کی پارلیمنٹ کے اسپیکر یو سی کن نے تائیوان کے بارے میں ایمانوئل ماکروں کے بیانات کے بارے میں شائع ایک رپورٹ کا اسکرین شاٹ فیس بک پر شیئر کرتے ہوئے آزادی کے لیے فرانسیسی عزم پر سوال اٹھایا
انہوں نے ’آزادی، مساوات، بھائی چارے‘ کے فرانسیسی سرکاری نعرے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’کیا اب یہ نعرہ غیر مقبول ہو چکا؟‘
انہوں نے مزید لکھا کہ کیا صرف آئین کا حصہ بننے کے بعد اس نعرے کو نظر انداز کرنا ٹھیک ہے؟ کیا ترقی یافتہ جمہوری ممالک دوسرے ممالک میں لوگوں کی زندگی اور موت کو نظر انداز کر سکتے ہیں؟
تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کے بانیوں میں سے ایک یو سی کن نے مزید کہا ”ایک معروف عالمی جمہوری ملک کے صدر ایمانوئل ماکروں کے اقدامات نے مجھے حیران کر دیا ہے“
چین کے دورے پر موجود فرانسیسی صدر یورپ اور امریکہ کے خلاف بیان کیوں دے رہے ہیں؟