پچیس سال قبل بھارت میں ایک کم عمر نوجوان کو غلطی سے قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں بھارت کی سپریم کورٹ نے اس وقت اس شخص کو رہا کر دیا، جب اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ اس واقعے کے وقت وہ کم عمر تھے
یہ شخص نیرانارام چیتن رام چوہدری ہیں، ان کا تعلق ریاست راجستھان کے گاؤں جلبسر ہے اور اب وہ اکتالیس برس کے ہو چکے ہیں
نیرانارام کو تقریباً ایک ہفتہ قبل بھارتی شہر ناگ پور کی جیل سے رہا کیا گیا ہے۔ انکوں نے اپنی زندگی کے اٹھائیس سال، چھ ماہ اور تیئیس دن جیل میں ہی گزارے جو مجموعی طور پر دس ہزار چار سو اکتیس دن بنتے ہیں
یہ وقت انہوں نے بارہ فٹ چوڑے اور دس فٹ لمبے سیل میں کتابیں پڑھنے، امتحان دینے اور یہ ثابت کرنے میں گزارا کہ جس وقت ان کو سزا دی گئی، وہ اٹھارہ سال سے کم عمر تھے
یہ مقدمہ 1994ع میں شروع ہوا تھا، جب ان پر پونے شہر میں پانچ خواتین اور دو بچوں سمیت سات افراد کے قتل کا الزام لگا۔ ان کے ساتھ انہی کے گاؤں کے دو افراد بھی ملزمان تھے۔ 1998ع میں ان کو اس بنا پر موت کی سزا سنا دی گئی کہ ان کی عمر بیس برس ہے
رواں سال مارچ میں سپریم کورٹ نے ان کی تیس سالہ مشکل آسان کر دی لیکن یہ مرحلہ تین عدالتوں میں بے شمار پیشیوں، قوانین کی تبدیلی، اپیلوں، عمر کے تعین کے ٹیسٹ اور اپنے پیدائشی کاغذات کی تلاش کے بعد آیا
اب عدالت نے کہا ہے کہ جرم کے وقت نیرانارام کی عمر بارہ سال اور چھ ماہ تھی۔ واضح رہے کہ بھارتی قوانین کے مطابق اس عمر میں موت کی سزا نہیں سنائی جا سکتی اور کسی بھی جرم میں زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا دی جا سکتی ہے
لیکن یہ سب ہوا کیسے؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پولیس نے جب نیرانارام کو گرفتار کیا تو ان کا نام اور عمر کا غلط اندراج کیا گیا تھا۔ پولیس نے ان کا نام نرائن لکھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ عمر کی غلطی کب اور کس نے کی؟
دلی نیشنل لا یونیورسٹی کی شریا رستوگی، جو کریمنل جسٹس پروگرام سے تعلق رکھتی ہیں، کا کہنا ہے ”ان کی گرفتاری کا ریکارڈ بہت پرانا ہے۔ اصل مقدمے کے کاغذات تو سپریم کورٹ تک پہنچ ہی نہیں سکے“
واضح رہے کہ نیرانارام کی رہائی شریا رستوگی اور کریمنل جسٹس پروگرام کی نو سالہ محنت کا نتیجہ ہے
حیران کن طور پر نیرانارام کا دفاع کرنے والے اور استغاثہ نے تاریخِ پیدائش اور کم عمری کا معاملہ 2018ع تک اٹھایا ہی نہیں۔ پیدائش کی سند کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سے بھارتی شہری اپنی تاریخ پیدائش سے لاعلم رہتے ہیں، دیہی علاقوں میں یہ ایک عام بات ہے
نیرانارام کو جس چیز نے بچایا وہ ان کے گاؤں کے اسکول کا پرانا رجسٹر تھا، جس میں ان کی تاریخِ پیدائش یکم فروری 1982ع درج تھی
ان کو ایک اسکول ٹرانسفر سرٹیفکیٹ بھی ملا، جس میں ان کے اسکول چھوڑنے کی تاریخ درج تھی۔ گاؤں کی کونسل سے ایک سرٹیفیکیٹ میں یہ ثابت ہوا کہ نارائن اور نیرانارام ایک ہی شخص کے نام تھے
شریا رستوگی کا کہنا ہے ”پورا نظام ناکام ہو گیا۔ وکلا، تفتیش کار، عدالتیں۔۔۔ ہم اس بات کی تصدیق ہی نہیں کر پائے کہ وقوعہ کے وقت اس کی عمر کیا تھی“
نیرانارام، جو اب راجستھان کے شہر بیکانیر کے قریب اپنے گاؤں میں اپنے خاندان سے واپس آ کر مل چکے ہیں، کہتے ہیں ”یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ میری زندگی کا سب سے اہم حصہ ایک غلطی کی وجہ سے ضائع ہو گیا۔ اس کا ازالہ کون کرے گا؟‘
انڈین ریاست نے اس غلطی کے لیے کسی قسم کا معاوضہ ادا نہیں کیا
1998ع میں نیرانارام اور شریک ملزمان کو، جو اب تک جیل میں ہیں، سزا سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ یہ ایک نادر کیس ہے
یاد رہے 26 اگست 1994 کو ایک ہی خاندان کے سات افراد کو ڈکیتی کی واردات کے دوران گھر پر چھریوں سے ہلاک کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ مقتولین کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ایک ملزم ان کی مٹھائی کی دکان پر کام کرتا تھا، جس نے واردات سے ایک ہفتہ قبل کام چھوڑ دیا تھا۔ اس شخص نے بعد میں وعدہ معاف گواہ کے طور پر کیس میں استغاثہ کی مدد کی اور اسے رہا کر دیا گیا
دیگر ملزمان، جن میں نیرانارام بھی شامل تھے، کو یہ خاندان نہیں جانتا تھا۔ 2015ع میں اس خاندان کے سنجے راٹھی نے انڈین ایکسپریس اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ”اگر وہ چوری کرنا چاہتے تھے تو گھر میں سب کو قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“
اب نیرانارام بتاتے ہیں کہ وہ تیسری جماعت کے بعد گھر سے فرار ہو گئے تھے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا، تو انہوں نے جواب دیا ”مجھے اب یاد نہیں۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ بھاگا تھا۔ میں پونے پہنچ گیا اور ایک درزی کی دکان پر کام کرنے لگا“
لیکن اس قتل کی واردات کے بارے میں ان کو کیا معلوم ہے؟ اس بارے میں وہ کہتے ہیں ”مجھے یہ یاد نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ پولیس نے مجھے کیوں گرفتار کیا۔ مجھے یہ یاد ہے کہ پولیس والوں نے مجھے پیٹا تھا۔ جب میں نے سوال کیا تو پولیس والوں نے مراٹھی زبان میں کچھ کہا تھا جس کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔“
جب نیرانارام سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے جرم قبول کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا ”مجھے یاد نہیں لیکن پولیس نے مجھ سے بہت سے کاغذات پر دستخط کروائے تھے۔ میں کم عمر تھا۔ میرا خیال ہے مجھے غلط طریقے سے پھنسایا گیا“
اس سوال پر کہ تو کیا آپ اس جرم سے انکار کر رہے ہیں؟ انکوں نے جواب دیا ”میں جرم سے انکار نہیں کر رہا اور نہ ہی قبول کر رہا ہوں۔ اگر میری یادداشت واپس آئی تو شاید میں کچھ کہہ سکوں۔ مجھے کچھ یاد نہیں“
واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ان کو رہا کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’ایک بارہ سالہ بچہ اتنا بہیمانہ جرم کیسے کر سکتا ہے۔‘
اپنے گھر میں نیرانارام نے بتایا کہ ان کو جیل کے ابتدائی وقت کے بارے میں بھی بہت کم یاد ہے لیکن ان کو اپنا جیل نمبر یاد ہے۔ ناگ پور جیل کا قیدی نمبر 7432۔ انہوں نے پونے جیل میں بھی کچھ وقت گزارا
وہ کہتے ہیں ”خوف کی وجہ سے میں ساتھی قیدیوں سے دوستی نہیں کر پایا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود پڑھ کر اپنی لڑائی لڑوں گا۔ میں نے انتھک محنت کی اور اپنے جیل کے سیل سے ہی امتحان دیے۔ میں نے سوشیالوجی میں ماسٹر کیا اور پولیٹیکل سائنس کی تیاری کر رہا تھا، جب مجھے رہا کر دیا گیا“
وہ پورا انڈیا گھومنا چاہتے تھے اور اسی لیے انھوں نے سیاحت میں چھ ماہ کا کورس کیا اور گاندھی کے خیالات پر بھی ایک کورس مکمل کیا۔ وہ کہتے ہیں ”جیل میں کتابیں آپ کی سب سے اچھی دوست ہوتی ہیں“
نیرانارام نے جیل میں رہتے ہوئے بہت کچھ پڑھا: گاندھی، چیتن بھگت، درجوئے دتا، سڈنی شلڈن کے ناول۔ ان کو روسی ناول نگار فیودور دوستوسکی کا ’کرائم اینڈ پنشمنٹ‘ بہت پسند آیا۔ ان کا سب سے پسندیدہ ناول جون گریشم کا ’دی کنفیشن‘ ہے، جس میں ان کو اپنی کہانی نظر آئی
نیرانارام نے زبانیں سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مراٹھی، ہندی اور پنجابی سیکھی اور ملیالم سیکھنے کی تیاری کر رہے تھے، لیکن وہ راجستھان میں بولی جانے والی اپنی مادری زبان بھول گئے
نیرانارام اب اپنے گھر آنے کے بعد اپنے بھائی کے بچوں کو انگریزی سکھا رہے ہیں
جس رات نیرانارام کی ستر سالہ ماں انی دیوی نے سنا کہ ان کا واپس آ رہا ہے، تو وہ بھی باقی لوگوں کے ساتھ ناچیں لیکن جب انی دیوی نے نرانارام کو دیکھا تو دونوں کے ہی آنسو بہنا شروع ہوئے۔ ان کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ دوسرا کیا بول رہا ہے۔ نیرانارام کے والد 2019 میں انتقال کر گئے تھے
نیرانارام کہتے ہیں ”ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ وہ اتنی زیادہ بدل چکی تھی“
مارچ میں جب نیرانارام رہا ہوئے تو ان کو احساس ہوا کہ بھارت کتنا بدل گیا ہے۔ وہ مسکرا کر کہتے ہیں ”سڑک پر نئی گاڑیاں تھیں، لوگوں نے اسٹائلش کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ نوجوان ایسی موٹرسائیکلوں پر گھوم رہے تھے، جو میرے خیال میں صرف فلم اسٹار ہی خرید سکتے ہیں۔ یہ ایک بدلا ہوا ملک تھا“
لیکن گھر واپسی پر زبان ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ وہ مراٹھی، انگریزی اور ہندی میں بات کر سکتے ہیں لیکن ان کا خاندان اور باقی گاؤں والے پہلی دو زبانیں تو جانتے ہی نہیں اور تیسری یعنی ہندی سمجھنے میں ان کو مشکل ہوتی ہے۔ ہر دن ماں اور بیٹا ایک دوسرے کو دیکھ کر وقت بِتاتے ہیں اور کسی ایسے شخص کے ذریعے بات کرتے ہیں، جو ہندی سمجھتا ہو۔
وہ کہتے ہیں ”کبھی کبھی میں اپنے گھر میں خود کو اجنبی محسوس کرتا ہوں“
نیرانارام خود کو درپیش ایک اور مسئلے کا بھی ذکر کرتے ہیں ”مجھے ہجوم میں لوگوں سے ٹکرانے کا ڈر رہتا ہے۔ مجھے جیل اور چھوٹی جگہ کی عادت ہے۔ موت کی سزا پانے والوں کی قیدِ تنہائی آپ کو معاشرتی طور پر نابلد بنا دیتی ہے۔ مجھے محتاط رہنا ہے، میں بطور آزاد شخص زندگی جینا سیکھ رہا ہوں“
نیرانارام کہتے ہیں ”مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں سے کیسے بات چیت کرتے ہیں خصوصا خواتین سے۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ خواتین سے کیسے برتاؤ کریں اور بات کریں؟ میں کسی سے کیسے کہوں کہ مجھے عورت سے بات کرنا سکھاؤ؟ مجھے کسی سے بات کرنے سے پہلے دو بار سوچنا پڑتا ہے“
لیکن وہ چاہتے ہیں کہ نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کریں۔ ان کے خاندان والوں نے ان کو موبائل فون لے کر دیا ہے اور اب وہ اس کا استعمال سیکھ رہے ہیں۔ ان کے بھانجوں نے ان کو فیس بک اور واٹس ایپ اکاؤئنٹ بنا کر دیے ہیں
ان کے بھائی سو ایکڑ خاندانی زمین پر کاشت کاری کرتے ہیں، جہاں وہ گندم اور دالیں اگاتے ہیں لیکن نیرانارام قانون پڑھنا چاہتے ہیں اور سماجی کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسی ہی مشکلات کا شکار دیگر قیدیوں کی مدد کریں
فی الحال نیرانارام اپنے گاؤں میں ایک اچھوتی شخصیت ہیں، ان کے بھانجے راجو چوہدری کہتے ہیں ”سینکڑوں لوگ ہر روز ایک ایسے شخص سے ملنے آتے ہیں، جو موت کی سزا پانے کے بعد زندہ لوٹ آیا“
نیرانارام اپنے بھائی کے گھر میں ایک کمرے میں رہتے ہیں اور اپنے بھانجوں کو انگریزی سکھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو نئی دنیا کی تیز رفتار زندگی سمجھنے میں وقت لگے گا، جو جیل کی سست رفتار زندگی سے بہت مختلف ہے
وہ کہتے ہیں ”میں ماضی اور مستقبل کے درمیان لٹک رہا ہوں۔ میں خوش ہوں کہ میں آزاد ہوں لیکن آگے کیا ہے، اس بارے میں سوچ کر کچھ پریشان ہوتا ہوں۔ بس عجیب ملے جلے سے جذبات ہیں۔“