افریقہ کے بارے میں یورپ کے مورخوں اور دانشوروں کا یہ خیال تھا کہ ’یہ ایک تاریک براعظم‘ ہے، جس کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ تہذیب۔۔‘ اس لیے، جب انہوں نے افریقہ کے براعظم کی طرف توجہ دی تو ان کے تین مقاصد تھے:
– مقامی زمینوں پر قبضہ کر کے مقامی باشندوں کو مجبور کر کے پیداوار کو حاصل کیا جائے
– جن ملکوں کی آب و ہوا معتدل تھی وہاں اپنی زائد آبادی کو منتقل کیا جائے
– افریقہ کے فطری ذرائع پر قبضہ کیا جائے، تاکہ اسے صنعتوں میں استعمال کیا جائے۔
افریقہ میں جن ملکوں نے جنگوں کے ذریعے سیاسی تسلط حاصل کیا، ان میں انگلستان، فرانس، اٹلی، بلجیم اور ہالینڈ شامل تھے۔ ان سامراجی ملکوں نے جس نظریے کی بنیاد پر اپنے حملوں، سیاسی تسلط اور لوٹ مار کو جائز رکھا، وہ یہ تھا کہ افریقی اس قابل نہیں کہ اپنے ذرائع کو استعمال کر سکیں
ان ذرائع کو یورپی اقوام سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کی مدد سے عالمی تہذیب میں ترقی کا باعث ہوں گی۔ ان کے نظریے کے مطابق زمین کی اہمیت لوگوں سے زیادہ ہے، اس لیے اگر لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جائے یا محروم کیا جائے تو یہ کوئی غیر اخلاقی عمل نہیں ہوگا
افریقی ملکوں پر قبضہ کرنے اور انہیں شکست دینے میں یورپ کی فوجوں کے پاس جو مہلک ہتھیار تھے، انہوں نے ان کی مدد کی۔ ان کے مقابلے میں افریقی جدید اسلحے سے ناواقف تھے۔ اگرچہ انہوں نے مقابلہ تو کیا مگر یورپ کے اسلحے کے سامنے نہ ٹھہر سکے
یورپ کی قوموں کو اس بات کا احساس تھا کہ سفید فام یورپی فوجی افریقہ کی آب و ہوا کو زیادہ عرصے برداشت نہیں کر سکیں گے، اس لیے ان کی ایک کوشش تو یہ ہوتی تھی کہ جنگ یا مہم کا جلدی خاتمہ ہو تاکہ یورپی فوج بیماریوں سے محفوظ رہے۔
دوسری پالیسی یہ تھی کہ اپنی فوج میں افریقیوں کو بھرتی کیا جائے کیونکہ افریقی قبائل میں باہم دشمنی تھی۔ اس لیے مخالف قبیلے کے لوگ حملہ آوروں کی فوج میں شامل ہو جاتے تھے۔ یورپی افسران زبردستی بھی گاؤں دیہات پر حملے کر کے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرتے تھے
شمالی افریقہ جہاں مصر، تیونس، الجزائر، لیبیا اور مراکش واقع تھے، وہاں یورپی سامراج کی پالیسی مختلف رہی۔ خاص طور سے جب فرانس نے الجزائر پر قبضہ کیا تو اسے اپنی کالونی بنانے کے بجائے فرانس کا ایک علاقہ بنا دیا
مقامی باشندوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے فرانسیسی نوآباد کاروں کو وہاں لا کر آباد کیا۔ جب الجزائر کے عربوں نے اس کے خلاف تحریک شروع کی تو فرانسیسی فوجیوں نے ان کے کھیتوں کو جلا دیا۔ ان کے باغوں کے درخت کاٹ دیے، ان کے دیہاتوں کو بمباری کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا گیا
اس صورت میں عربوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور فرانسیسی اقتدار کو تسلیم کر لیں
اسی پالیسی کو انگریزوں نے Asante Empire ، جو موجودہ گھانا میں واقع تھی، وہاں بھی انگریزی افواج میں کھیتوں اور دیہاتوں کو جلا کر انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی شکست کو قبول کر لیں
اس کا مظاہرہ جرمنوں نے نیمبیا میں کیا اور ہیرو روز اور ناما جو اس کے باشندے تھے، ان کا قتل عام کیا اور جو باقی بچ گئے تھے، انہیں بے آب و گیاہ صحرا میں دھکیل دیا اور خالی زمینوں پر جرمنوں کو لا کر آباد کیا، جہاں اب تک وہ موجود ہیں
افریقیوں نے یورپی سامراج کا مقابلہ تو کیا مثلاً Asante ریاست نے انگریزوں کو شکست دی۔ یورپیوں کے لیے شکست کھا جانا بڑی بے عزتی تھی، اس لیے انگریزوں نے بڑی تیاری کے بعد Asante پر حملہ کر کے ان کی حکومت کو ختم کر دیا
انگریزی افواج کو سوڈان میں بھی، جس کا جنرل چارلز جارج گورڈن (وفات 1885) تھا، مہدی سوڈانی کی فوج نے شکست دی۔ اس کا انتقام لینے کے لیے لارڈ کچنر (وفات 1916) نے 1898 میں سوڈان پر حملہ کر کے مہدی کی فوجوں کو شکست دی اور مہدی کے مقبرے کو بھی مسمار کر دیا۔ چرچل بھی اس جنگ میں شریک تھا
اٹلی نے 1935 میں جب ایتھوپیا پر حملہ کیا تو اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایتھوپیا پر تو وہ قبضہ نہ کر سکا، مگر لیبیا کو اس نے اپنی کالونی بنا لیا
یورپی سامراجی ملکوں نے اپنے سیاسی تسلط کو قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کی تاریخ سماجی صورت حال، قبائلیوں کے آپس کے تنازعات اور ان کی بولی جانے والی زبانوں کا علم کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں
نقشہ نویسوں نے نقشے بنا کر افریقہ کی جغرافیائی صورت حال کو واضح کیا۔ علم بشریات کے ماہرین نے قبائلیوں کے رسم و رواج کا مطالعہ کیا اور مورخین نے افریقی ملکوں کی تاریخیں لکھنی شروع کیں
نتیجہ یہ ہوا کہ افریقہ جو اب تک معلومات کی کمی کے باعث تاریک براعظم کہلاتا تھا، تاریک نہ رہا۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)