کراچی: ”حفاظتی سامان تو دور کی بات، فائر فائٹر نے ٹی شرٹ بھی جیب سے خریدی تھی!!“

ویب ڈیسک

کراچی کی فیکٹری میں بدھ اور جمعرات کی شب لگنے والی آگ پر قابو پانے کے دوران اپنے تین ساتھیوں سمیت جان سے جانے والے فائر فائٹر محمد محسن کے بھائی کا کہنا ہے کہ ’فائر بریگیڈ کی جانب سے انہیں کوئی حفاظتی سامان نہیں دیا گیا تھا۔‘

یہ واقعہ ہے میٹرو پولیٹن شہر اور ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا۔۔ جہاں نیو کراچی کے صنعتی ایریا میں واقع ایک فیکٹری میں بدھ اور جمعرات کی شب لگنے والی آگ پر قابو پانے کے دوران چار فائر فائٹرز موت کے منہ میں چلے گئے اور تیرہ زخمی ہوئے۔ جان سے جانے والے فائر فائٹرز میں محمد محسن بھی شامل تھے

کراچی کے علاقے انچولی کے رہائشی محمد محسن دیگر فائر فائٹرز کے ہمراہ اس وقت حادثے کا شکار ہوئے، جب آگ پر قابو پانے کے بعد کولنگ کا عمل جاری تھا اور عمارت زمین بوس ہو گئی

محمد محسن کے بھائی محمد الطاف شریف نے بتایا کہ ”محسن کو ’سن کوٹا‘ پر نوکری ملی تھی، جس کے لیے انہیں دو سال چپل گھسانی پڑی“

الطاف کا کہنا تھا ”میرا بھائی بارہ گھنٹے کام کرتا تھا اور چوبیس گھنٹے الرٹ رہتا تھا۔ اس کی ماہانہ اجرت چوبیس ہزار تھی اور چونتیس ماہ سے انہیں الاؤنسز بھی نہیں ملے“

الطاف کے مطابق ”فائر بریگیڈ کی جانب سے انہیں کوئی حفاظتی سامان نہیں دیا گیا تھا، حتیٰ کہ مرنے سے پہلے جو ٹی شرٹ پہنی تھی وہ بھی انہوں نے اپنی جیب سے خریدی تھی۔ ادارے کی جانب سے نہ کوئی یونیفارم میسر آیا، نہ ہی کوئی آکسیجن ماسک“

الطاف کہتے ہیں ”میں اکثر اپنے بھائی کو نصیحت کرتا تھا کہ اپنی جان کی حفاظت رکھتے ہوئے کام کرنا کیوں کہ ادارہ تو میڈیکل کا خرچہ بھی نہیں اٹھائے گا“

محمد محسن کے ورثا میں ایک بیٹا، ایک بیٹی اور بیوہ شامل ہیں۔ الطاف نے بتایا کہ محسن ہمیشہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دینے کے لیے کوشاں رہتے تھے اور ہمیشہ وقت پر کام پر جاتے تھے

فائر بریگیڈ کے ایک عہدیدار اشتیاق احمد کے مطابق عمارت میں آگ صبح سویرے بھڑکی اور چار گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کا عملہ جائے وقوعہ پر نہیں پہنچا

ان کا کہنا تھا ”اگر عملہ موجود ہوتا تو پتہ لگ جاتا کہ عمارت منہدم ہو چکی ہے اور شاید ہمارے فائر فائٹرز بچ جاتے“

اشتیاق احمد کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی جگہ آگ لگنے کے واقعے میں دو گھنٹے گزر جانے کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی انتظامیہ کا وہاں موجود ہونا لازمی ہوتا ہے

انہوں نے بتایا ”اس سے قبل 2007 میں میٹروول میں (یونیورسل ٹیکسٹائل) کمپنی میں حادثہ ہوا تھا جس میں ملبے تلے دب کر گیارہ فائر فائٹرز چل بسے تھے“

فائر بریگیڈ حکام کے مطابق: ’آگ کی شدت اس لیے بڑھ گئی کیوں کہ ساتھ میں ربڑ کی اشیا بنانے والی کمپنی تھی اور پچھلی عمارت میں چادریں تیار ہوتی تھیں۔

’گتے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ نے دونوں عمارتوں کو لپیٹ میں لے لیا، جس کے لیے فائر بریگیڈ کی پندرہ گاڑیاں، ایک سنارکل اور متعدد واٹر باؤزر جائے وقوعہ پر مصروف تھے‘

پولیس کے مطابق نیو کراچی کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کا سبب فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے فائر فائٹرز کی اموات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’شہید‘ قرار دیا، جو دوسروں کی جانیں بچانے کی کوشش میں مارے گئے

اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے متاثرین کے اہل خانہ سے رسمی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنا فرض پورا کیا اور حکام کو مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ’حکمتِ عملی‘ تیار کرنے کا حکم دیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close