ماہ رمضان میں پاکستان کے تقریباً ہر ٹی وی چینل پر سحری اور افطار کے اوقات میں براہِ راست خصوصی نشریات پیش کی جاتی ہیں، جس میں مختلف برانڈز اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے اِس کا بھرپور استعمال کرتے ہیں
اے آر وائی پر ’شان رمضان‘ کی میزبانی پچھلے کئی سالوں سے اینکر پرسن وسیم بادامی اور اقرار الحسن کرتے آ رہے ہیں۔ سماء سے اینکر پرسن مدیحہ نقوی اور اداکار احسن خان ’رمضان کا سما‘، ایکسپریس سے سابق نیوز اینکر رابعہ انعم ’پیارا رمضان‘، بول سے اداکار فیصل قریشی ’بول کا رمضان‘، ٹی وی ون سے اداکارہ صنم جنگ ’روِ رحمٰن عشق رمضان‘، جی این این سے سابق نیوز اینکر فرح اقرار ’رمضان کریم‘ اور سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی سے جگن کاظم اور سمی خان ’رمضان پاکستان‘ پیش کر رہے ہیں
پیمرا کی طرف سے واضح ضابطہِ اخلاق کے باوجود ہر سال رمضان ٹرانسمیشن کے دوران متنازعہ اور حساس نوعیت کے موضوعات پر کوئی نہ کوئی پھلجڑی چھوڑی جاتی ہے
ماضی میں آج ٹی وی، نیوز ون سمیت مرحوم اینکر عامر لیاقت اور شائستہ لودھی کی پیش کردہ رمضان کی نشریات کو متنازعہ بیانات کی وجہ سے پیمرا کی پابندیوں کا سامنا رہا ہے، حالیہ مثال اداکار فیصل قریشی کی ہے جنھوں نے توہینِ مذہب کا ارتکاب کرنے والوں کی عوامی سطح پر شناخت ظاہر کرنے کی بات کی
پیمرا کے ترجمان کے بقول ”بعض اوقات یہ تنازعات جان بوجھ کر پیدا کئے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ دیکھیں اور ریٹنگز ملیں“
رمضان شو کی میزبان رابعہ انعم اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ لیکن ان کے بقول ایسا بڑے چینلز میں نہیں ہوتا۔۔ لیکن مشاہدہ ان کی اس بات کی نفی کرتا ہے
رابعہ انعم کہتی ہیں ”اگر آپ نے فساد ڈلوانا ہوتا ہے تو آپ کسی ایک مولوی کو یا تو موضوع نہیں بتاتے یا پھر کسی ایک مولوی کو کہتے ہیں کہ سر پھڈا ڈال دیں اور پھر پھڈا ہو جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی جگہوں پر لوگوں نے یہ کام کیا ہے۔ چونکہ میڈیا ایک چھوٹا سا سرکل ہے تو وہ آپ کو کہیں نہ کہیں سے پتا چل ہی جاتا ہے“
رابعہ کے بقول ”ڈاکٹر صاحب کے زمانے میں ہو جایا کرتا تھا کیونکہ خود اتنے ’عالم‘ تھے۔ اُس وقت شاید لوگ دیکھتے ہی اُنھیں تھے تو ریٹنگ بھی آ جاتی تھی۔ لیکن یقین کریں اب ان چیزوں کی ریٹنگ نہیں آتی اور یہ ہمیں سمجھ جانا چاہیے“
دوسری جانب پیمرا کے ترجمان کا کہنا ہے ”رمضان ٹرانسمیشن کسی ایسے شخص کو کرنی چاہیے، جو مذہبی حساسیت کا خیال رکھتے ہوں۔ اس میں کسی کو بھی جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ اِس سے عوامی جذبات مشتعل ہوتے ہیں“
اینکر پرسن مدیحہ نقوی اداکار احسن خان کے ساتھ رمضان ٹرانسمیشن پیش کرتی ہیں۔ لیکن اب وہ اداکاروں کے بجائے اپنے رمضان شو میں صرف علمائے دین کے پینل کو مدعو کرنے کو ترجیح دیتی ہیں. وہ کہتی ہیں ”ہمارے لیے ہمارے سلیبرٹی ہمارے علما ہیں“
مدیحہ نقوی نے کہا ”اکثر آپ شوز پر دیکھتی ہوں گے کہ علماء تفرقے بازی میں پڑ جاتے ہیں اور فرض سمجھتے ہیں کہ جو دوسرے فقہے کا عالم ہے اُس کی بات کو کاٹنا ہے۔ تو ہم نے ایسے علماء دیکھے جنہوں نے کوئی متنازعہ شو نہ کیا ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ ہمیں قرآن سے حوالہ دے سکیں“
رمضان کے دوران ٹیلی وژن جیسے بڑے پلیٹ فارم پر براہ نشریات کے لیے جید علماء کی دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مدیحہ نقوی کے بقول ”دیکھیں علماء کا سیزن بھی چل رہا ہوتا ہے۔ بہت سارے بڑے علماء پہلے کہہ دیتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں کے ساتھ ہیں کیونکہ ظاہر ہے وہ اُس میں کما بھی رہے ہوتے ہیں“
طاہرہ کے مطابق ”اے آر وائی اس معاملے میں اس لیے خود کفیل ہے کہ اُس کے پاس کیو ٹی وی ہے جس پر علماء کا پینل پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ میں پروڈیوسر ہوں یا نہ ہوں رمضان کا کانٹینٹ کیو ٹی وی سے ہی آئے گا“
مدیحہ نقوی کے شو پر علماء کے پینل کے برعکس رابعہ انعم اپنے شو پر صرف ایک عالم کو مدعو کرتی ہیں. اُن کے خیال میں ”تین گھنٹے کی ٹرانسمیشن میں اشتہارات کے ساتھ چھ سیگمنٹس ہوتے ہیں اور اتنا وقت نہیں ہوتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اتنے کم وقت میں آپ چھ مولویوں کو بٹھا کر اُن کی بات سُن سکتے ہیں۔ اس سے نہ اُن کا جو مقام اور عزت ہے، اُس کے حساب سے اُن کو ٹائم مل سکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ صرف فساد ڈالنے والی بات ہوتی ہے اگر آپ اسے مناسب طریقے سے ہینڈل نہ کریں۔ فقہی مسئلہ پر ایک گھنٹے کا لیکچر ہونا چاہیے نہ کہ ڈھائی منٹ کی بات۔ تو وہ اُس کے لیے یوٹیوب پر جا سکتے ہیں“
رمضان ٹرانسمیشن پر ایک بڑی تنقید میزبانوں کے انتخاب کے حوالے سے بھی کی جاتی ہے، جس میں تفریحی صنعت کے نامور چہرے متعارف کروائے گئے۔ ماضی میں بعض چینلز نے فلمی اداکاراؤں کو میزبانی کے فرائض دیے، لیکن لوگوں نے اُن کی سطحی دینی معلومات پر سوال کئے
جب پاکستان میں میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ ادارہ ٹیلی وژن پہ نشر کئے جانے والے مواد کو ریگیولیٹ کیوں نہیں کرتا؟ تو انہوں نے کہا ”ضابطہ اخلاق کے تحت مواد کی بنیادی ذمہ داری لائسنس یافتگان پر ہے۔ پیمرا کا رول ٹیلی کاسٹ ہو جانے کے بعد آتا ہے۔ پری سینسرنگ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم بالکل لاعلم ہوتے ہیں کہ کیا آن ایئر ہونے والا ہے“
ان کا کہنا تھا ”اگر فُحش یا بے ہودہ مواد، نفرت اور اشتعال انگیز تقریر جو امنِ عامہ کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہو یا نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ بن سکتی ہو تو خلاف ورزی پراتھارٹی پیمرا کے قوانین کے سیکشن 27 کے تحت کسی بھی نشریات یا پروگرام پر پابندی لگا سکتی ہے“
پیمرا ترجمان کے مطابق ”پاکستان میں نیوز اور انٹرٹینمٹ سمیت تمام چینلز ملا کے پاکستان میں 126 چینلز ہیں جبکہ چالیس انٹرنیشنل چینلز لینڈنگ رائٹس کے تحت آپریٹ کررہے ہیں۔ ان کی نگرانی ممکن نہیں ہے۔ ہم نے کافی شوز بند کئے ہیں لیکن جب ہم پابندی لگاتے ہیں تو یہ سارے کورٹ چلے جاتے ہیں۔ قانون کے تحت ہمارے احکامات کے خلاف اپیل صرف ہائی کورٹ میں ہی ہو سکتی ہے۔ معاملہ کورٹ جانے کے بعد اتھارٹی کے اختیار سے باہر ہو جاتا ہے۔ پانچ چھ سو کیسز عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔ ہم ایک ملین روپے تک کا ہرجانہ کرسکتے ہیں لیکن وہ سٹے آرڈر لے لیتے ہیں اور ہرجانہ جمع نہیں کرواتے۔ تو پیمرا کی اتھارٹی بالکل بے بس ہے۔“