ہفتے کی صبح اور اتوار کو خرطوم میں، لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں فوجی دستوں اور ان کے سابق اتحادی محمد حمدان دقلو کے وفادار نیم فوجی دستوں پر مشتمل سریع الحرکت فورسز یا ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں
عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی فوج اور محمد حمدان دقلو کی زیر قیادت سریع الحرکت فورس [RSF] کے درمیان سوڈان میں جاری خونریز لڑائیوں کے نتیجے میں تادم تحریر سو سے زائد شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔ جبکہ گھروں میں محصور لوگوں کو خوراک اور پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ جھڑپیں ہفتے کے روز سے ملک میں تباہی لا رہی ہیں
گذشتہ مہینوں کے دوران 45 ملین سوڈانی فوج کی خودمختاری کونسل کے سربراہ البرہان اور ان کے نائب حمدان دقلو المعروف ’’حمیدتی‘‘ کے درمیان سیاسی تصادم پر تشویش میں مبتلا رہے ہیں
ہفتے کے روز یہ تنازع خرطوم اور دیگر شہروں میں پرتشدد مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گیا حتٰی کہ گولا باری کے علاوہ لڑاکا طیارے بھی مختلف مقامات پر بمباری کرتے دیکھے گئے
مرنے والوں میں مغربی سوڈان کے علاقے دارفور میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے تین کارکن بھی شامل ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے موجودہ صورتحال کی وجہ سے سوڈان میں اپنا کام معطل کر دیا۔
سوڈان میں جاری حالیہ پرتشدد واقعات میں وزیر معدنیات محمد بشیرعبداللہ ابونمو نے اپنے خاندان کے دو افراد کے علاوہ 3 دیگر قریبی عزیزوں کو بھی کھویا ہے۔ ان میں ان کے دو محافظ بھی شامل تھے۔ وہ دارالحکومت خرطوم میں اپنے گھر کے اندر کمروں میں موجود تھے اور متحارب فریقوں کے درمیان لڑائی میں دو راکٹ گرنیڈوں کا نشانہ بن گئے
البرہان اور حمیدتی ایک دوسرے پر لڑائی شروع کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ اسی طرح دونوں فورسز خرطوم اور دیگر شہروں کے اہم مقامات کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہیں, تاہم ان کے دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے
پس منظر
واضح رہے کہ سوڈان میں اقتدار سول حکمرانوں کو واپس کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ تاہم اس تجویز پر عملدرآمد آر ایس ایف نامی پیرا ملٹری فورس کو باقاعدہ فوج میں ضم کرنے کے معاملے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔
آر ایس ایف چاہتی ہے کہ یہ کام 10 سال تک ملتوی کیا جائے تاہم فوج دو سال کے اندر اندر آر ایس ایف کو ضم کرنا چاہتی ہے۔ ایک تنازع اس بات پر بھی ہے کہ ضم ہو جانے کے بعد نئی فوج کی قیادت کون سنبھالے گا؟
آر ایس ایف کے فوجیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے اور آر ایس ایف کے سربراہ جنرل ہمدان ملک کے نائب صدر بھی ہیں۔ اس فورس کے پاس سوڈان کی چند سونے کی کانوں کا کنٹرول بھی ہے
اس فورس کو 2013 میں تشکیل دیا گیا تھا، جس کے بعد سے یمن اور لیبیا سمیت کئی تنازعات میں اس کا کردار رہا
اس فورس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں اور اسے ملک میں عدم استحکام کی ایک وجہ سمجھا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ 2021 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں نئی حکومت تشکیل پائی تھی، جس میں فوجی جنرل ایک کونسل کے تحت ملک کا نظام چلاتے ہیں
اس سے قبل عسکری اور سول رہنماوں کے درمیان شراکت اقتدار کے معاہدے کے تحت ملک کا نظام چلایا جا رہا تھا جو اس وقت شروع ہوا جب سوڈان پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے عمر البشیر کو اقتدار سے نکال دیا گیا تھا۔
تاہم خرطوم میں وقتا فوقتا جمہوریت کے حق میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں
جھگڑا کیسے ہوا؟
اکتوبر 2021 میں البرہان نے ایک فوجی بغاوت کی اور ان شہریوں کا تختہ الٹ دیا, جو فوج کے ساتھ اقتدار میں شریک تھے
2019ع میں سابق صدر عمر البشیر کی معزولی کے بعد ایک عبوری دور کا انتظام کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ البرہان نے حکمران خود مختاری کونسل کی صدارت سنبھالی اور حمیدتی ان کے نائب تھے۔ آزاد محقق حامد خلف اللہ نے اس تال میل کو ’’سہولت کی شادی‘‘ قرار دیا تھا
حامد خلف اللہ نے کہا تھا کہ یہ کوئی حقیقی اتحاد یا شراکت داری نہیں تھی۔ انہیں اپنے مفادات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا تھا تاکہ شہریوں کا ایک متحدہ فوجی محاذ کے طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کے باوجود یہ مفاہمت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی۔ حمیدتی نے فروری میں البرہان کی بغاوت کو غلطی کہا اور اسے ’پرانی حکومت کی واپسی کا دروازہ کھولنے‘ کے طور پر بیان کیا
یہ بیانات البرہان اور حمدتی کی جانب سے ایک فریم ورک معاہدے پر دستخط کرنے کے دو ماہ بعد سامنے آئے ہیں، جس میں سول پارٹیاں شامل تھیں۔ ان پارٹیوں میں فورسز فار فریڈم اینڈ چینج بھی شامل تھی، جس نے البشیر کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی۔ معاہدے نے بغیر کسی ٹائم لائن کے عبوری عمل کے لیے رہنما اصول وضع کیے تھے، اسی لیے ناقدین نے اس معاہدے کو ’مبہم‘ قرار دیا تھا۔ معاہدے میں دونوں فوجی حکام نے سویلین حکومت کے قیام کے بعد سیاست سے نکلنے کا عہد کیا
تاہم سیاسی معاہدے میں ایک رکاوٹ پیش آئی، جس نے البرہان اور حمیدتی کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا یہ آر ایس ایف کو باقاعدہ فوج میں ضم کرنے کا معاملہ تھا
خاتون تجزیہ کار خولود خیر کا خیال ہے کہ اس فریم ورک معاہدے نے البرہان اور حمیدتی کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا۔ اس نے حمیدتی کو اس وقت البرھان کے برابر مقام پر دھکیل دیا جب وہ اس کا نائب تھا
انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں ہارن آف افریقہ ریجن کے سربراہ ایلن بوسویل کا کہنا ہے کہ دقلو نے فریم ورک معاہدے میں فوج سے زیادہ آزاد ہونے اور اپنے وسیع سیاسی عزائم کو حاصل کرنے کا ایک موقع دیکھا تھا
خرطوم میں کنفلوئنس ایڈوائزری سینٹر کی بانی خولود خیر کہتی ہیں کہ آر ایس ایف کو فوج میں ضم کرنے کی بات چیت میز پر گرما گرم بحث کے بجائے مسلح تصادم میں جا کر ختم ہوئی ہے
ریپڈ سپورٹ فورسز کیا ہیں؟
ریپڈ سپورٹ فورسز کا قیام 2013 میں دارفور کے علاقے میں الجنجوید ملیشیا کے بطن سے کیا گیا تھا۔ یہ غیر عرب قبائل کی بغاوت کو دبانے کے لیے جانی جاتی تھی۔ الجنجوید پر غیر عرب اقلیتوں کے خلاف جنگی جرائم کرنے کا الزام تھا
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے البشیر پر دارفور میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات بھی عائد کیے تھے
2015ع میں حوثیوں کے خلاف یمنی حکومت کی حمایت میں سعودی زیر قیادت اتحاد کے ایک حصے کے طور پر یمن میں ریپڈ سپورٹ فورسز کے ارکان کو تعینات کیا گیا، جس سے خطے میں دقلو کا تاثر بہتر ہوا
البشیر کی معزولی کے بعد ریپڈ سپورٹ فورسز پر مزید جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا گیا کیونکہ وہ اس سکیورٹی مہم کا حصہ تھے، جس نے جون 2019 میں خرطوم میں آرمی ہیڈ کوارٹر کے قریب سویلین حکومت کا مطالبہ کرنے والے دھرنے کو منتشرکیا تھا، جس میں کم از کم 128افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بوسویل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ریپڈ سپورٹ فورسز 2019 سے مسلسل بڑھ رہی ہیں جس سے حمیدتی کے اقتدار سے دستبردار ہونے کا امکان بہت کم ہو گیا ہے
آگے کیا ہو گا؟
اب کیا ہو رہا ہے کہ دونوں طرف سے طاقت کے بل پر اپنی موجودگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ شہروں کی گلیوں میں جنگ جتنی دیر تک جاری رہے گی، شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، مزید تباہی پھیلے گی اور املاک کو بھی نقصانات پہنچیں گے۔ جبکہ دونوں فورسز اپنی مقبولیت بھی کھو دیں گی۔ سوڈانی سڑکوں پر ہونے والی جنگ اور اپنے شہریوں کی ہلاکتوں کو نہیں بھولیں گے
ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں کیمپ مضبوط ہیں اور ان کے درمیان جنگ بہت مہنگی، خونی اور طویل ہوگی۔ اگر دونوں فریق خرطوم میں جزوی فتح حاصل کر لیتے ہیں، تب بھی ملک بھر میں جنگ جاری رہے گی۔ سوڈان میں پہلے سے موجود بدترین حالات میں صورت حال مزید المناک واقعات کی طرف بڑھ رہی ہے۔