وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے بڑھتے ہوئے استعمال نے طبی ماہرین کو پریشان کر دیا

ویب ڈیسک

یوں تو وٹامن ڈی کی جسم کے مدافعتی نظام کے لیے افادیت اور ہڈیوں کی صحت کے لیے اس کی اہمیت کی وجہ سے یہ ہمیشہ سے ہماری دلچسپی کا باعث رہی ہے، لیکن کووڈ-19 کی وبا کے بعد سے اس کے استعمال میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا، جب اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر ایسا مواد کثرت سے پھیلنا شروع ہوا، جس میں کہا گیا کہ کووڈ کے خلاف ہمارے جسم کی مزاحمت میں یہ ایک اہم عنصر کے طور پر کردار ادا کرتا ہے

اگرچہ یہ بتانا ضروری ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں وٹامن ڈی کے کردار کے بارے میں سائنسدانوں کی جانب سے ابھی تک تحقیق کی جا رہی ہے اور اس پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے، لیکن اس بارے میں یہ غلط بات عام ہے کہ حالیہ برسوں میں لوگوں میں اس وٹامن کی مناسب مقدار کی کمی دیکھی گئی ہے، خصوصاً وبا کے اس دور کے بعد، جس میں ہم خود کو اپنے گھروں تک محدود رکھنے پر مجبور ہوئے تھے

لہٰذا اس وقت سے اس نام نہاد ’سن شائن وٹامن‘ کے سپلیمنٹس کی فروخت دنیا کے بہت سے ممالک میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، تاہم بہت سے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کا زیادہ استعمال کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کن لوگوں کو وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس لینا چاہییں۔ اور یہ کہ اس کے استعمال سے کن بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے اور خون میں اس کی مثالی سطح کیا ہونی چاہیے؟

اس سلسلے میں یہ بات جاننا بہت اہم ہے کہ اپنے نام میں وٹامن آنے کے باوجود وٹامن ڈی ایک ہارمون ہے

جب ایک صدی سے زیادہ عرصہ قبل امریکی بایو کیمسٹ ایلمر میک کولم کی سربراہی میں ایک ٹیم نے اسے دریافت کیا تھا، تو اسے ایک وٹامن سمجھا جاتا تھا، جس کی شناخت حرف ’ڈی‘ سے ہوتی تھی، لیکن پھر کئی دہائیوں بعد، نئی تحقیقات اور اس کی مالیکیولر ساخت کے تفصیلی جائزے کے بعد اس بات کا تعین کیا گیا کہ یہ ایک ہارمون تھا

اس کی خصوصیات کے بارے میں کہا گیا کہ یہ جسم میں کیلشیم اور فاسفورس کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ ہڈیوں، دانتوں اور پٹھوں کی نشوونما اور دیکھ بھال کے لیے ضروری ہیں

یعنی عام الفاظ میں وٹامن ڈی ہمارے جسم کی ہڈیوں اور پٹھوں کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تین طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے: اول، سورج کی روشنی کی وجہ سے ہمارے جسم کی اپنی پیداوار کے ذریعے، دوئم خوراک (خاص طور پر مچھلی) اور اس کا تیسرا ذریعہ سپلیمنٹس ہیں

ان تینوں ذرائع میں سے کسی ایک کے ساتھ، وٹامن ڈی کی مناسب سطح تک پہنچا جا سکتا ہے، جس کی جسم کو ضرورت ہے، حالانکہ یہ جاننے کے لیے کہ کیا ہم اسے صحیح طریقے سے حاصل کر رہے ہیں، بہت سی چیزوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے

جیسا کہ ایک سفید رنگت والے شخص پر سورج کی شعاؤں کا اثر ایک سیاہ رنگت والے شخص سے مختلف ہوتا ہے، اسی طرح کسی گرم علاقے میں رہنے والے افراد پر ویسا ردعمل نہیں ہوتا، جیسا کہ معتدل موسم والے علاقوں میں ہوتا ہے

اس بارے میں ماہرِ غدائیت مارسیلا مینڈس کا کہنا ہے ”اس کی جسم میں ضرورت کو پورا کرنے میں خوراک شاید ہی کافی ہو اور اس بارے میں غذائیت کے علم کا فقدان ہے“

یونیورسٹی آف سرے انگلینڈ سے نیوٹریشنل سائنسز میں پی ایچ ڈی اور وٹامن ڈی پر تحقیق کرنے والے عالمی گروپ یونیورسٹیز گلوبل پارٹرشپ نیٹ ورک کے رکن مینڈس کا کہنا ہے ”وٹامن ڈی والی اہم غذائیں جنگلی سالمن، مشروم اور تیل والی مچھلیاں ہیں“

”ہماری آبادی میں اس کا حقیقی اطلاق کیا ہے؟ کیا ہمارے لیے واقعی اسے حاصل کرنے کے لیے (ان کھانوں کا) استعمال روزانہ ہونا چاہیے“

جریدے نیچر کے ایک مضمون میں بیان کیے گئے عالمی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی آبادی میں وٹامن ڈی کی کمی کا تناسب 24 فیصد تک پہنچ گیا ہے، جب کہ کینیڈا میں یہ شرح 37 فیصد اور یورپ میں 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے

خیال کیا جاتا ہے کہ لاطینی امریکہ میں سورج کی مسلسل روشنی کی وجہ سے یہ شرح کافی کم ہے، لیکن اس وجہ سے یہ مسئلہ مکمل طور پر مستثنیٰ نہیں ہے

آکسفورڈ یونیورسٹی کے جرنل آف اینڈوکرائن سوسائٹی کے لیے برازیل میں نومبر 2022 میں اس موضوع پر کی جانے والی چند تحقیقوں میں سے ایک میں، اینڈو کرائنولوجسٹ ماریس لازاریٹی کاسترو نے سلواڈور میں 12.1 فیصد لوگوں میں، ساؤ پالو میں 20.5 فیصد جبکہ کیورتبا میں 12.7 فیصد وٹامن ڈی کی کمی پائی گئی ہے

وہ بتاتے ہیں کہ اس کی ایک اہم وجہ موجودہ طرز زندگی میں سورج کی روشنی میں خود کو کم نکالناہے، کیونکہ ہم زیادہ دیر تک گھر میں رہتے ہیں اور سورج کی روشنی سے بچاؤ کے لیے سن بلاک کا استعمال کرتے ہیں

اس رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے سپلیمنٹس کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے لیکن ہر صورت میں اسے کھانے کا نہیں کہا جاتا اور ہمیشہ ایک متوازن طریقے سے استعمال کا کہا جاتا ہے

بیماریوں کی روک تھام اور علاج میں وٹامن ڈی کا کردار

ان میں سب سے پہلی چیز جو ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ جسم میں گردش کرنے والے ہارمون کی سطح کو جانچا جائے اور اس طرح ڈاکٹر یا غذائیت کے ماہر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سپلیمنٹس ضروری ہیں یا نہیں

اگرچہ اس کی جسم میں سطح ہر ایک شخص کی جسمانی خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے، لیکن وٹامن ڈی کی سطح کسی بھی شخص میں 50 سے 250 نینومولز فی لیٹر کے درمیان ہونی چاہیے

خون میں اس سطح کو برقرار رکھنے کے لیے نوعمروں اور بالغوں کو روزانہ تقریباً 15 مائیکرو گرام، یا 600 آئی یو (عالمی ادارہ صحت کی حیاتیاتی معیار سازی کمیٹی کے ذریعے قائم کردہ بین الاقوامی یونٹ) کی ضرورت ہوتی ہے

ماہرِ غذائیت مارسیلا مینڈیس کا کہنا ہے ”وٹامن ڈی کے استعمال کو عام لوگ اور کچھ ماہرین صحت ’معجزانہ‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بطور سپلیمنٹ اس کا استعمال ایک بہت اہم حکمت عملی ہے۔۔ بہت سے ایسے حالات ہیں، جہاں آپ کو سپلیمنٹ کی ضرورت ہے، اور یہ وہ سپلیمنٹ ہے جو مسئلے کو حل کر سکتا ہے“

انہوں نے مزید کہا ”لیکن آج، ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک دن میں پانچ ہزار دس ہزار آئی یو لیتے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں کہ مالیکیولز کچھ مخصوص کارکردگی دکھائے گا“

ڈاکٹر ماریس لازاریٹی کاسترو کے مطابق ”زیادہ مقدار میں اس کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔ طویل مدت کے لیے استعمال کرنے سے وٹامن ڈی کے زہر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس سے خون میں کیلشیم کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس سے بہت سے منفی اثرات ہوتے ہیں، جیسے متلی، الٹی، اسہال وغیرہ۔۔ یہ بھوک میں کمی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ وزن میں کمی، پولیوریا، پانی کی کمی، گردے کی خرابی کے باعث موت بھی واقع ہو سکتی ہے“

وہ اس کے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”وٹامن ڈی کی کمی جیسے انسانی جسم اور صحت کے لیے نقصاندہ ہے ایسے ہی اس کی زیادتی مضر ہے“

اگرچہ ہڈیوں کی صحت کے لیے وٹامن ڈی کے فوائد پہلے ہی معلوم ہیں، لیکن ہارمون کے نام نہاد ’ایکسٹرا سکیلیٹل اثرات‘ کا مطالعہ کیا جا رہا ہے اور اس بارے میں تحقیق زور و شور سے جاری ہے

اس سلسلے میں رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں ملٹی پل سکلیروسیس، ڈیمنشیا، دمہ، میلانوما جلد کے کینسر اور دیگر کئی بیماریوں میں وٹامن ڈی کے کردار کی تحقیقات کرنے والے سائنسی مضامین شائع ہوئے ہیں

یہ مفروضہ کہ ہارمون بیماری کی روک تھام یا علاج میں کردار ادا کر سکتا ہے، جزوی طور پر اس حقیقت کی وجہ یہ ہے کہ وٹامن ڈی ریسیپٹر جین انسانی جسم کے مختلف قسم کے خلیات میں پائے گئے ہیں

نیوران سے لے کر لیمفوسائٹس تک۔ یعنی، اگر رسیپٹرز ہیں تو امکان ہے کہ وٹامن ڈی اس خلیے میں کچھ کام کرتا ہے

مزید یہ کہ گِنی پِگ پر کیے گئے تجربے میں یہ ظاہر ہوا کہ جب انسانی جسم سے ان رسیپٹرز کو خارج کر دیا گیا تھا تو میمری گلینڈز چھاتی کے کینسر کا زیادہ شکار ہو گئے ہیں۔ دل کے پٹھوں، ہائپر ٹرافی ، پروسٹیٹ، ہائپرپالسیا حتی کہ جگر اور وزن بڑھانے تک کا عمل متاثر ہوا

اینڈوکرائنولوجسٹ ماریس لازاریٹی کاسٹرو کا کہنا ہے ”تاہم، اس بارے میں سوالات موجود ہیں کہ آیا وٹامن ڈی اور صحت کے اثرات کے درمیان تعلق ’اسبابی، ارتباطی یا یہاں تک کہ ’ریورس کازیشن‘ کی بنا پر ہے“

وہ کہتے ہیں ”کیونکہ وٹامن ڈی کا انحصار سورج کی روشنی پر ہوتا ہے، اگر آپ بیمار ہیں، تو آپ کو زیادہ دھوپ نہیں پڑے گی۔ اسے ہم ریورس کازیشن کہتے ہیں: یعنی بیماری وٹامن ڈی کی کم سے کم مقدار پیدا کر رہی ہے“

وٹامن ڈی اور صحت پر اثرات کے درمیان وجہ کو ظاہر کرنے کے لیے، سب سے بہتر کلینیکل ٹرائلز کے ذریعے مطالعہ کیے جانا ہے، لیکن اپنی نوعیت کے اس اہم تجربے کو امریکہ میں بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا

اس تجربے میں اس بات پر تحقیق کی گئی کہ وٹامن ڈی، کینسر اور دل کی بیماریوں سے تعلق کیا ہے اور اس کے لیے 25817 افراد کو پانچ سال تک جانچا گیا

انہیں اس تجربے کے لیے دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ میں شامل افراد کو وٹامن ڈی کی دو ہزار آئی یو کی بہترین خوراک دی گئی جبکہ اور دوسرے گروپ کو پلیسبو لگایا گیا

اس تحقیق سے یہ اخذ کیا گیا کہ وٹامن ڈی کینسر یا دل کے امراض کے خطرے میں نمایاں کمی پیدا نہیں کرتا۔ قلبی امراض سے ہونے والی اموات میں بھی کمی نہیں آئی، لیکن کینسر کے معاملے میں اموات میں سترہ فیصد کمی آئی

چنانچہ امریکی تجربے کے بعد تمام رضاکاروں کو، چاہے وہ کنٹرول گروپ میں ہوں یا نہ ہوں، انہیں ایک دن میں آٹھ سو آئی یو سپلیمنٹس لینے کی اجازت دی گئی، جو کہ ایک اچھی مقدار ہے

اینڈو کرائنولوجسٹ نے ہارمون سے متعلق تنازعات کے لیے وقف ایک کانفرنس کے چار ایڈیشنز میں بھی حصہ لیا ہے، جہاں وہ خون میں وٹامن ڈی کے حوالے سے اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ وٹامن ڈی کی زیادہ مقدار صحت کے لیے کس حد تک خطرات کا باعث بنتی ہے

”اس ضمن میں دو نکات پر اتفاق رائے ہے کہ ’ہر عمر کے افراد میں وٹامن ڈی کی بارہ مائیکرو گرام فی ملی لیٹر سے کم تعداد کی کمی پائی جاتی ہے۔ اور اگر انسانی جسم میں اس کی مقدار تیس مائیکرو گرام فی ملی لیٹر سے زیادہ ہو تو یہ کافی ہے“

تاہم اس بارے میں یہ اتفاق رائے نہیں ہے کہ یہ وٹامن ڈی کی کمی کے زمرے یا کافی مقدار کا تعین کیسے کیا جائے

مارسیلا مینڈس کے مطابق ”سب سے یقینی بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ مستقبل میں ابھی وٹامن ڈی کی اہمیت کو دریافت کرنا باقی ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close