ٹرانسپیرنٹ سولر پینل سورج کی روشنی سے بجلی تیار کرنے کا ایک جدید ٹیکنالوجی ہے، جسے عمارتوں میں شیشے کی کھڑکیوں میں نصب کیا جاتا ہے
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں شعبۂ مکینیکل انجینئرنگ کے استاد ذیشان سکندر اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ٹرانسپیرنٹ سولر پینل ایک جدید کٹنگ ایج ٹیکنالوجی ہے جو عمارتوں کی کھڑکیوں یا کسی بھی گلاس سے بنی سطح پر پڑنے والی سورج کی روشنی کو اکٹھا کر کے اسے برقی رو میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے
اس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ گھروں، دفتروں، شاپنگ مالز اور دیگر عمارتوں کی کھڑکیوں کے علاوہ سن پروف کاروں یہاں تک کہ موبائل فون کی اسکرین کو بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے
ذیشان سکندر کے مطابق ”دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی کو گیم چینجر سمجھا جا رہا ہے جو عمارت کو ’توانائی استعمال کرنے والے‘ سے ’توانائی پیدا کرنے والے‘ میں تبدیل کرتی ہے۔ اس سے عمارتیں اپنی ضروریات کے لیے توانائی کھڑکیوں کے ذریعے از خود تیار کرتی ہیں“
وہ مزید بتاتے ہیں کہ روایتی سولر سیلز کے بر عکس ان کے لیے کسی خاص زاویے سے روشنی کا پڑنا ضروری نہیں ہوتا نہ ہی تنصیب کے لیے علیحدہ سے جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹرانسپیرنٹ سولر انرجی ماحول دوست ہے، جو ایک جانب کاربن کی مقدار گھٹانے میں مددگار ہے تو دوسری جانب دیگر توانائی کے ذرائع کی نسبت اس کے مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے
ٹرانسپیرنٹ سولر سیل کے کام کرنے کے حوالے سے ذیشان سکندر نےبتایا ”ٹرانسپیرنٹ سولر انرجی کو ’یو ای پاور‘ یا ’فوٹو وولٹیک گلاس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں اس پر خاصی تحقیق ہو رہی ہے اور سائنسدان اس کے نئے ماڈلز متعارف کرا رہے ہیں، جن میں زیادہ تر سورج کی روشنی کو مرتکز کرنے والے سیل ہیں، جو الٹرا وایولٹ اور انفرا ریڈ روشنی کو جذب کر کے انہیں برقی رو میں تبدیل کرتے ہیں۔“
ان ٹرانسپیرنٹ سولر پینل کی کارکردگی کا انحصار ان کی شفافیت پر ہے۔ پینل جتنے زیادہ شفاف ہوں گے، ان کی افادیت اتنی کم ہوتی ہے
جدید گھروں اور دفتروں میں شیشے کی دیواروں اور کھڑکیوں کا رواج بڑھ رہا ہے۔ اس سے عمارتیں نا صرف خوشنما لگتی ہیں، بلکہ دن کے اوقات میں سورج کی مناسب روشنی پڑنے سے بجلی کی بچت بھی ہوتی ہے
ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں پانچ سے سات بلین مربع میٹر رقبہ گلاس سے ڈھکا ہوا ہے، جہاں فوٹو وولٹیک سیل کے ذریعے با آسانی بجلی تیار کی جا سکتی ہے
سن 2014ع میں مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی نے ایک مکمل ٹرانسپیرنٹ کنسینٹریٹر (روشنی کو مرتکز کرنے والا آلہ) ایجاد کیا تھا، جو کسی بھی گلاس شیٹ یا شیشے کی کھڑکی کو فوٹو وولٹیک سیل میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے
2020ع میں امریکہ اور یورپ کے سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کرتے ہوئے ایسے ٹرانسپیرنٹ سولر سیل تیار کیے، جو سو فیصد شفاف تھے۔ ان کے استعمال سے عمارتیں اپنی توانائی کی نصف ضروریات اپنے طور پر پوری کر سکتی ہیں، جس سے ان ممالک کے لیے ’کاربن نیٹ زیرو’ کا حدف حاصل کرنا قدرے آسان ہو جائے گا
پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال کے حوالے سے بات کی جائے تو سن 2022ع میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موسم گرما میں تقریباً ستائیس ہزار میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بجلی کی کل پیداوار صرف انیس ہزار میگا واٹ ہے
طلب و رسد میں اس نمایاں فرق کی وجہ سے پورے ملک میں سات سے آٹھ گھنٹے یومیہ لوڈ شیڈنگ معمول ہوتی ہے۔ جبکہ کئی علاقوں میں یہ دورانیہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں شہریوں کے پاس واحد حل یو پی ایس اور سولر پینل ہیں
اگرچہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے، جہاں سارا سال بھرپور دھوپ پڑتی ہے، اس کے باوجود یہاں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع میں اس حد تک شمسی توانائی جگہ نہیں بنا پائی۔ سن 2022ع میں جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کے نظام میں صرف 430 میگاواٹ شمسی توانائی فراہم کی جا رہی ہے، جسے 2030 تک 30 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے
ماہرین کا خیال ہے کہ اس ہدف کے حصول میں ٹرانسپیرنٹ سولر ٹیکنالوجی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے
’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ‘ اسلام آباد میں ریسرچ فیلو فلایر خان بتاتے ہیں ”پاکستان میں شمسی توانائی کے شعبے میں پیش رفت انتہائی سست ہے، جس کی بڑی وجہ حکومت کی اس حوالے سے غیر واضح پالیسیاں ہیں۔ جبکہ بجلی کا نیشنل گرڈ بھی سولر ٹیکنالوجی سے مطابقت نہیں رکھتا۔“
فلایر کے مطابق ٹرانسپیرنٹ سولر ٹیکنالوجی دنیا بھر میں ایک ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے، جو روایتی سولر سیل سے کہیں بہتر ہے۔ چین اور بھارت میں اس پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے
پاکستان میں بھی سولر گرپ اور پریمئیر انرجی جیسی کمپنیاں ٹرانسپیرنٹ اور بائی پولر سولر پینل فروخت کر رہی ہیں۔ پاکستانی حکومت اگر ان کے درآمدی آلات کی لوکلائزیشن پر توجہ دے کر ٹیرف پالیسی پر نظر ثانی کرے تو زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاروں کو ملک میں لایا جا سکتا ہے
پشاور یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے لیکچرر محمد یاور حسین کہتے ہیں کہ ان کا زیادہ تر کام لیب بیسڈ ہے، جس میں بجلی کی یومیہ کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے خلل پڑتا ہے اور گھر میں کام پورا کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا
یاور بتاتے ہیں کہ انہوں نے چند برس قبل ہی گھر بنوایا ہے اور اس میں سولر سسٹم لگوانےکے لیے کوشاں ہیں۔ اگرچہ مہنگائی کے دور میں سات سے آٹھ لاکھ تک کے اخراجات کرنا ناممکن نظر نہیں آ رہا ہے، مگر وہ لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بلوں سے بھی شدید تنگ آ چکے ہیں
یاور کے مطابق ”پاکستان میں ٹرانسپیرنٹ اور بائی پولر سولر سیل آہستہ آہستہ جگہ بنا رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ نیا گھر بناتے وقت پلاننگ میں ان کی تنصیب شامل کی جائے کیونکہ گھر بناتے وقت لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے اور وہ مستقبل کے مسائل کو سامنے رکھ کر گھر ڈیزائن کراتے ہیں‘‘
اگر حکومت اس جانب توجہ دے اور ٹرانسپیرنٹ سولر کھڑکیوں کی تنصیب کے لیے عوام کو مناسب شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں تو متوسط طبقے کو کافی ریلیف ملے گا۔ اس کے ساتھ ہی لوڈ شیدنگ میں بھی کمی آئے گی اور کول پاور پلانٹس کی بندش کی راہ ہموار ہوگی، جو پاکستان میں شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں۔